• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر اوباما اسٹیٹ آف دی یونین سے سالانہ خطاب کے دوران دنیا پر یہ واضح کرنے کے بعد کہ جہاں خطرہ محسوس ہوا امریکہ یکطرفہ کارروائی کریگا،بھارت پہنچ چکے ہیں۔ دہلی روانگی سے قبل اوباما ،بھارت کی زبان بولتے ہوئےکہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے قبول نہیں اور بھارت حقیقی گلوبل پارٹنر ہے۔ امریکی صدر ایک لمحے کیلئے یہ بھی سوچیں کہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے بعد پاکستان کی بستیاں،گھر،مارکیٹیں،عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے حتی کہ اسپتال تک غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ جی ہاں انہی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدرنے وزیرا عظم نواز شریف کو نومبر میں ٹیلیفون کر کے بہلانے کی کوشش کی تھی کہ جب پاکستان کے سیکورٹی سے متعلق حالات معمول پر آجائیں گے تو وہ اسلام آباد کا رخ بھی کریں گے۔ صدر اوباما آج اسی بھارتی وزیر اعظم کے پہلو میں کھڑے ہو کر انکے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شریک ہو رہے ہیں جسے سال 2002ءکے گجرات فسادات اور مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیکر امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ اسی انتہا پسند کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کیلئے سیکورٹی پروٹوکول کو بھی بالائے طاق رکھ دیاگیا ہے،امریکی سیکورٹی پروٹوکول کے تحت امریکی صدر زیادہ سے زیادہ صرف پنتالیس منٹ تک کسی بھی کھلے مقام پر موجود رہ سکتا ہے لیکن صدر اوباما نئی دہلی میں ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان واقع وجے چوک میں دوگھنٹے سے زائد وقت گزار کر بھارت امریکہ تعلقات کے نئے رخ کا تعین کر رہے ہیں۔ بھارت کیلئے امریکی روئیے کو انتہائی دوستانہ بنانے میں امریکی انتظامیہ سے لیکر،تجارتی اداروں اور میڈیا میں موجود بھارتی نژاد امریکیوں کا اہم کردار ہے۔ ان امریکیوں کی رگوں میں دوڑتے بھارتی خون نے امریکہ کواس مرتبہ بھارت کے زیادہ قریب لانے کیلئے جوش مارا ہے تاہم واشنگٹن کا بھارت کی طرف یہ جھکاؤ نیا نہیں ہے بلکہ امریکی صدرکلنٹن نے مارچ 2000 میں جب جنوبی ایشیاء کا دورہ کیا تھا تو تب وہ بھی پانچ دن تک بھارتی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بھارت کے تاریخی اور اہم مقامات کی سیر کرتے رہے تھے۔بھارت سے واپسی پروہ صرف پانچ گھنٹے کیلئے پاکستان آئے اور پرویز مشرف کو پاکستانی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی وارننگ دیکر چلتے بنے۔امریکہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی یہ کوشش یقینا خطے میں اسٹریٹجک مفادات کیلئے کی گئی تاہم نائن الیون نے امریکی دفاعی اور خارجہ پالسیی کا رخ یکسر تبدیل کردیا۔
کولن پاؤل نے سابق صدر پرویز مشرف کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کیا جس پر انہوں نےبلا تامل ہاں کردی اوریوں پاکستان’ روگ اسٹیٹ ‘ سے فرنٹ لائن اتحادی کے درجے پر فائز ہو گیا۔ پرویز مشرف کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ اس ہاں کے بعد پرویز مشرف کو 2001 میں امریکہ بلایا گیا تو نیو یارک میں کھڑے ہو کر جب مشرف نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے استفسار کیا کہ پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ کیا امریکہ سرد جنگ کی طرح مطلب نکل جانے پر اسے چھوڑ تو نہیں دیگا تو بش نے انہیں کہا تھا کہ تم اپنے لوگوں کو جا کر بتا دو کہ بش نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وعدہ کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیگا۔ امریکی صدر نے پھر یہ وعدہ اس صورت میں نبھایا کہ اپنے مفاد کی تکمیل کیلئے اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی۔ بش نے اپنے دورہ جنوبی ایشیاء کے دوران بھارت کے بعد پاکستان کا سفر بھی کیا تھا ان حالات میں جب امریکہ کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے تھے۔اس وقت بھی چونکہ امریکہ کو پاکستان کا بھرپورتعاون درکار تھا اسلئے کسی سیکورٹی کو ایشو نہیں بنایا گیا۔ اب افغانستان سے محفوظ انخلاء کے بعد امریکہ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کیلئےاپنے سفر کو وہیں سے شروع کرنا چاہتا ہے جہاں اس نے نائن الیون کے بعد چھوڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما اپنے عہدہ صدارت کےدوران دوسری بار بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلےوہ اس وقت جب وہ بھارت آئے تھے تو انہوں نے ممبئی میں اسی تاج ہوٹل میں قیام کیا تھا جس پر سال 2008 میں دہشت گردوں نے حملہ کیا اور اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا ۔ مقصد پاکستان کو پیغام دینا ہی تھا۔ اسی دورے کے دوران امریکی صدر نے بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کی حمایت کرنے کا اعلان اوراس سے قبل بھارت کے ساتھ سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کیا گیا تھا اور پاکستان نے جب ایسا ہی مطالبہ کیا تو اسے یکسر رد کردیا گیا ۔ بھارت میں امریکی صدر کی سیکورٹی کے اس حد تک غیر معمولی انتطامات کئے گئے ہیں کہ ان کی سیکورٹی کیلئے سات حصار قائم کئے گئے ہیں۔ یہ تو میزبان اور مہمان کے معاملات ہیں لیکن یہاں بھی پاکستان کو گھسیٹا گیا ہے اور ایک امریکی جریدے کے مطابق واشنگٹن نے گزشتہ ہفتے پاکستان کو صاف الفاظ میں پیغام دیا تھا کہ اگر امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران سرحد پار دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تو نہ صرف اس کی ذمہ داری پاکستان پر ہو گی بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین نتائج کیلئے بھی تیار رہنا ہو گا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کے الزامات میں بھارت کی حمایت کرنے والا امریکہ اس وقت چپ سادھ لیتا ہے جب پاکستان اسکی توجہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی بلا اشتعال خلاف ورزیوں کی طرف دلاتا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران بھارتی افواج نے جنگ بندی کی 243 خلاف ورزیاں کی ہیں۔ امریکہ بھارت سے جامع مذاکرات دوبارہ شروع کرنے، بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور افغانستان میں بھارت کے کردار کے بارے میں پاکستان کے تحفظات پر بھی چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان کو حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع کی اس رپورٹ کے وہ مندرجات بھی نہیں بھولے جن میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ افغانستان اور بھارت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے پاکستان کی حدود سے حملے ہو رہے ہیں۔اس رپورٹ میں پاکستان کو پراکسی قوتوں کو استعمال کرنے پر بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ پاکستان ان پراکسی قوتوں کو بھارت کی برتر فوج کو کاؤنٹر کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ بھارتی فوج کیلئے برتر کا لفظ استعمال کرکے بھارتی اجارہ داری اور بالا دستی کی بھرپور حمایت کی گئی تھی۔ آج صدر اوباما اسی بھارتی فوج کے دفاعی سازو سامان کی نمائش کا بطور مہمان خصوصی معائنہ کررہے ہیں۔ بھارت یاترا سے پہلے صدر اوباما نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں یہ تو کہہ دیا کہ افغانستان میں ان کا مشن مکمل ہو گیا ہے لیکن انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام تاریخ کی مشکل ترین جنگ سے تاحال نبرد آزما ہیں۔ امریکہ بھارت کے ساتھ جیسے چاہے تعلقات قائم کرے لیکن یہ تعلقات ہرگز پاکستان کے مفادات کی قیمت پر مضبوط نہیں ہو نے چاہئیں اور پاکستان سے ڈو مور کے مطالبے کی بجائے اسے اس بات کا بخوبی ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری بہت حد تک امریکہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ آخر میں پاکستان کے بارے میں صدر اوباما کا وہ دلچسپ مکالمہ نقل کرتا ہوں جو اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران فنڈ ریزنگ کے وقت سان فرانسسکو میں انہوں نے حریف صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے ساتھ کیا تھا۔ ہیلری کلنٹن نے دعوی کیا کہ وہ دنیا کے بارے میں زیادہ بہتر جانتی ہیں کیونکہ وہ 80 ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کر چکی ہیں،اس پر صدر اوباما نے بتایا کہ وہ رہنماؤں سے زیادہ ان ممالک کے عوام کو جانتے ہیں۔اوباما نے بتایا کہ وہ 1981 میں جب کولمبیا یونیورسٹی منتقل ہوئے تو اپنے ایک دوست کے ساتھ پاکستان گئے،انہوں نے تین ہفتے کراچی میں قیام کیا ،اس دوران وہ حیدر آباد بھی گئے۔ انہیں پاکستان کے بارے میں دیگر آگاہی کے ساتھ شیعہ اور سنی کے بارے میں بھی معلومات ہیں۔ جی ہاں اگر صدر اوباما پاکستان کے مختلف مسالک تک کے متعلق جاننے کا دعوی کرتے ہیں تو انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے نئے باب رقم کرتے ہوئے پاکستان کے مفادات اور تحفظات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے تاکہ پاکستانی عوام کی یہ رائے یقین میں نہ بدل جائے کہ امریکہ اپنا مفاد پورا کرنے کے بعدہر بار پاکستان سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
تازہ ترین