• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خالد المعینا سعودی عرب کے ممتاز دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا، سعودی عرب کے خوشحال خاندان اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ اور یورپ ہی نہیں، پاکستان بھی بھیجا کرتے تھے۔ سعودی بچیوں کی میڈیکل ایجوکیشن کے لئے والدین کی پہلی ترجیح پاکستان ہی ہوتا تھا۔ جدہ میں ہمارے ایگزیکٹو ایڈیٹر طارق مشخص کی ہمشیرہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل تھیں۔ اپنے ڈاکٹر سعید الٰہی کے سسرال بھی سعودی ہیں، اُن کی اہلیہ لاہور میں ان کی کالج فیلو تھیں۔ خالدالمعیناکے والد نے صاحبزادے کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کراچی یونیورسٹی کا انتخاب کیا تھا۔ سعودیوں میں ویسے بھی پاکستان کے لئے ایک خاص الفت پائی جاتی ہے۔یہاں سے پڑھ کے جانے والوں میں تو یہ اُلفت دوچند ہوجاتی ہے ، انہیں آپ پاکستان کے غیر سرکاری سفیر سمجھ لیں۔ خالدالمعینا بھی ان ہی میں سے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران ہی انہیں کرکٹ سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی، یہی چیز عمران خان سے اُن کی قربت کا باعث بنی۔ وہ خلیج کے پہلے انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ کے برسوں ایڈیٹر رہے۔ سعودی عرب سے ایک مکمل اُردو اخبار کا آئیڈیا بھی انہی کا تھا۔ ایک ہی چھت تلے ، ایک ہی اِدارے میں کام کرنے کے باعث آتے جاتے ہماری ان سے علیک سلیک رہتی۔ اِن سے پہلی ملاقات لاہور میں شامی صاحب کے ہفت روزہ کیلئے انٹرویو کے سلسلے میںہوئی تھی۔ سعودی عرب کے نظامِ مملکت کی بات چھڑی تو اُنہوں نے اِسے ’’ڈیزرٹ ڈیموکریسی‘‘ قرار دیا، اس کے لئے ان کے اپنے دلائل تھے۔ان کا کہنا تھا، سعودی عرب کے قبائلی معاشرے میں قبائلی سردار کی حیثیت اپنے قبیلے کے شفیق بزرگ کی ہوتی ہے جسے قبیلے کی روایات اور اہلِ قبیلہ کے جذبات کا احساس رہتا ہے۔ شاہی دربار میں اس کا اثرورسوخ، کسی جمہوری نظام میں منتخب نمائندے کے اثرورسوخ سے کم نہیں ہوتا۔ اسے دربار تک رسائی کے لئے طویل انتظاربھی نہیں کرنا پڑتا۔ بادشاہ کے سامنے قبیلے کے مسائل اور شکایات کا اظہار وہ بلاخوف و خطر کرتا ہے اور اس کی صدا رائیگاں نہیں جاتی۔ سعودی عرب میں بارہ سالہ قیام کے دوران ہمارا مشاہدہ تھا کہ اپنے عوام کے جذبات و احساسات کے حوالے سے سعودی بادشاہت کی حساسیت کسی منتخب جمہوری حکومت سے کم نہیں ہوتی۔ ریاست کی طرف سے تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سعودی بادشاہت میںقانون سب کے لئے یکساںہے ، شاہی خاندان سے کسی کی وابستگی، کسی کا سماجی مرتبہ، کسی کا حکومتی عہدہ اسے قانون سے مستثنیٰ نہیں کردیتا۔ ہم اس حوالے سے اپنے مشاہدات کی بجائے حفیظ اللہ نیازی کا مشاہدہ قارئین سے شیئر کرتے ہیں۔ امریکہ سے انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے بعد حفیظ اللہ نے پانچ سال سعودی عرب کی وزارتِ دفاع اور سول ایوی ایشن میں خدمات انجام دیں۔ وہ ایک میٹنگ میں تھے، سعودی جنرل جس کی صدارت کر رہا تھا۔ یہاں تین چار امریکن اوردو تین سعودیوں کے علاوہ ایک انڈین بھی تھا۔ میٹنگ میں سعودی جنرل اور سعودی نوجوان میں کسی نکتے پر بحث، تکرار میں تبدیل ہوگئی، جنرل نے عمامہ سر سے اتارا اور نوجوان کے منہ پر دے مارا۔ ہفتے، دس دن کے بعد حفیظ اللہ کو قاضی کی طرف سے لیٹر ملا جس میں اِسے اس واقعہ کی گواہی کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ ایک امریکن اور سعودی بھی گواہوں میں شامل تھے۔ اِن سب نے جودیکھا تھا، بلا کم و کاست قاضی کے روبروبیان کردیا۔ دو ہفتے بعد عدالت کی طرف سے ایک اور خط ملا، جس میں جمعہ کی نماز کے بعد جنرل کو سات کوڑے مارے جانے کی اطلاع تھی۔
عوام کے جذبات کے متعلق حساسیت، ان کے مسائل کا فوری حل، سرکاری وسائل کا عوام کی فلاح و بہبودکیلئے استعمال اور سب سے بڑھ کر، قانون کی حکمرانی وہ بنیادی عوامل ہیں، جن کی بناء پر آج کی جمہوری دُنیا میں بھی سعودی بادشاہت قائم ہے۔
گزشتہ کالم میں کچھ ذکر جناب نواز شریف اور شریف فیملی کے لئے شاہ عبداللہ اور شاہی خاندان کی خاص شفقت کا بھی تھا۔ جلاوطنی کا initiative شریف فیملی کی طرف سے نہیں، خود شاہ عبداللہ کی طرف سے تھا مشرف جس سے انکار نہ کرسکا۔ میاں صاحب کو عمر قید کی سزا ہوچکی تھی(جسے سزائے موت میں تبدیل کرانے کیلئے مشرف حکومت اپیل میں چلی گئی تھی)۔ میاں صاحب نے ’’علاج کیلئے ‘‘ بیرونِ ملک جانے اور سزا کو ختم کرنے کیلئے درخواست چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کو نہیں، صدر رفیق تارڑ کے نام لکھی تھی۔ اس میں جلاوطنی کے عرصے میں سیاست سے دستبرداری کا کوئی وعدہ نہیں تھا لیکن ظاہر ہے ، انہیں اس سے گریز کرنا تھا۔ میاں صاحب سرور پیلس میں بیٹھ کر ایک حد تک سیاست کرتے رہے۔ وہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بھی رابطے میں رہتے۔ حج اور عمرے پر آنے والے بھی ان سے ملاقاتیں کرتے۔ (جنرل اسد درانی سفیر بن کر گئے تو انہوں نے سالہا سال سے سعودی عرب میں مقیم کئی پاکستانیوں کا ’’خروج‘‘لگوادیا۔ یہ سرور پیلس سے رابطے کی سزا تھی)۔ میاں صاحب کے قیامِ جدہ کے دوران (ستمبر2003میں) نواب زادہ صاحب لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے بعد جدہ آئے اور سرور پیلس میں میاں صاحب سے ملاقاتوں میںپاکستان کی سیاست میں اپوزیشن کے سرگرم کردار پر تبادلۂ خیال کیا۔ (نواب زادہ صاحب کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ وطن واپسی کے ڈھائی تین ہفتوں بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔کچھ عرصے بعدمتحدہ مجلس عمل کے صدر جناب شاہ احمد نورانی بھی ان سے جا ملے۔ اس رائے میں خاصا وزن تھا کہ اگر یہ دونوں زندہ ہوتے تو 17ویں آئینی ترمیم کی منظوری اتنی آسان نہ ہوتی)۔ زرداری صاحب کی رہائی کے بعد، محترمہ ان کے ہمراہ سعودی عرب آئیں( فروری 2005)۔ سرورپیلس میں میاں صاحب سے ان کی تاریخی ملاقات میں میثاقِ جمہوریت کا آئیڈیا زیربحث آیا، جس کے لئے مسلم لیگ(ن) سے جناب اسحاق ڈار اور احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کی طرف سے جناب رضا ربانی اور ڈاکٹر صفدر عباسی پر مشتمل کمیٹی قائم ہوئی۔ جنوری 2006 میں میاں صاحب لندن چلے گئے۔ جہاں مئی میں میاں صاحب اور محترمہ نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے۔ جولائی 2007میں لندن میں آل پارٹیز کانفرنس اور اس کے بعد (مائنس پیپلزپارٹی) اے پی ڈی ایم کا قیام ایک اور اہم سنگِ میل تھا۔ 10ستمبر کو میاں صاحب کی اسلام آباد آمد پر سعودی خوش نہیں تھے۔ اس کے باوجود میاں صاحب سے ان کے تعلق ِ خاطر میں کوئی فرق نہ آیا۔ مشرف اور محترمہ کے درمیان این آر او کے مطابق مستقبل کے سیٹ اپ سے نوازشریف باہر تھے لیکن محترمہ کی وطن واپسی کے بعد انہیں باہر رکھنا ممکن نہ رہا۔ مشرف کی خواہش تھی، میاں صاحب کی وطن واپسی سے قبل جدہ میں ان سے ملاقات ہوجائے۔ میاں صاحب کی طرف سے انکار پر یہ تجویز آئی کہ محترمہ بھی عمرے کے بہانے آجائیں گی اور یوں تینوں میں ’’اتفاقیہ ملاقات‘‘ ہوجائے گی۔میاں صاحب اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ شاہ کو اپنے مہمان کے جذبات کا احترام تھا۔ اُنہوں نے اسے ’’انا ‘‘ کا مسئلہ نہ بنایا۔
تازہ ترین