• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی گجرات میں مظلوم مسلمانوں کے خون سے ہاتھ سرخ اور منہ کالا کرنے والا مودی نہتے کشمیریوں پر اندوہناک مظالم کے بعد چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے کے عین مصداق پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے اور اس کوعالمی سطح پر تنہا کرنے کی گیڈر بھبکیوں میں مصروف ہے،گو کہ وزیراعظم نوازشریف نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےاہم خطاب میں کشمیریوں کامقدمہ دھیمے مگر بھرپور اوراسٹیٹس مین کی حیثیت سے لڑا تاہم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی نظر میں انہوں نے "را "کی پاکستان کو عدم استحکام کرنے،اندرونی معاملات میں مداخلت اور سب سے بڑھ کربنگلہ دیش کی طرز پربلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا اور دوا دینے کی سازش کا ذکر تک نہ کرکے کسی حد تک کمزوری بھی دکھائی ہے،حالانکہ اس کا واضح اظہار چند روز پہلے سپہ سالار نے مودی کا نام لے کردیاتھا۔دونوں ملکوں کےعوام "پگڑی بدل بھائیوں" کی دوستی کو چند ہفتوں میں ایک دم سنگین دشمنی میں بدل جانےپر پریشان ہیں جبکہ بھارتی میڈیا جلتی پر تیل کاکام کرکے اس لفظی جنگ کو حقیقی میدان جنگ میں بدلنا چاہتاہے۔
قارئین زمینی حقائق پر نظر دوڑائیں تو مندجہ بالا بیان کردہ صورت حال بہت مختلف اور حیران کن نظر آتی ہے،، ستربرسوں سے بہادر لیکن نہتے کشمیریوں پر بھارت کی کئی لاکھ مسلح افواج کےمظالم نے ان کے حوصلوں کوپست کرنا تو کجا ان کے آزادی کےعزم اور جذبےمیں رتی بھر کمی نہیں کی بلکہ شہیدوں کےجوان لاشے اور وادی کشمیر کو سیراب کرتےان کےگرم لہو نےاس غلامی سے نجات کی تحریک کومزید جلا بخش دی ہے،بے بس اور ذہنی دبائو کا شکارمودی حکومت کےپاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ چور مچائے شور کی طرز پر واویلا کرے اوراصلی یا جعلی دہشت گرد واقعات کو پاکستان پر براہ راست الزام اور اس کو بدنام کرنے کےلئے استعمال کرے،دراصل کشمیر نہ صرف بھارت کے ہاتھوں سےنکل رہاہے بلکہ تسلط کو برقرار رکھنے کےلئےچھرے والی بندوق کے استعمال کی شرمناک سیاسی وفوجی حکمت عملی اور بے رحم بربریت نےعالمی توجہ بھی حاصل کرلی ہے،ادھرپاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کے ایک اور پرزور موقف نے بھی بھارت کی داخلی وخارجہ حکمت عملی کو چیلنج کرکے اس پر سوالیہ نشان لگادیاہےجو مودی اور اسکی حکومت کی موجودہ ذہنی کیفیت و زبان درازی کاعکاس ہے۔
اب آئیے اس نازک صورت حال کا دوسرا رخ ملاحظہ کرتے ہیں ،پاکستان کی بگڑتی اندرونی معاشی ،اقتصادی اور سیکورٹی حالات اور دہشت گردی کےخلاف بھرپور جنگ لڑنے کے صلے میں اقوام عالم کی سرد مہری وبداعتمادی کے رویے نے پاکستان کے اندر سیلف ڈیفنس، ری ایکٹ اور اسٹرائیک کرنے کے جذبے کو عوامی سطح پر ابھارنے کا جوازپیدا کر دیا ہے، دشمن کی ہرزہ سرائی پر پوری قوم نہ صرف متحد و مضبوط دکھائی دیتی ہے بلکہ پاک سرزمین کے دفاع کےلئے ہر قسم کاقرض چکانے کو بھی تیار ہے۔
کہاجاتاہے کہ عالمی کارزار سیاست کا پہلا بنیادی اور دائمی اصول ہے کہ دو ملکوں کے درمیان ہمیشہ دوستی ایک سی رہتی ہے نہ دشمنی،وقت ،ضرورت اورمفادات کے ساتھ دوستی دشمنی اور دشمنی دوستی میں بدلتی رہتی ہے،خطے اور عالمی سطح پر پاکستان نے علاقے میں اہم ملک کی حیثیت سے کردار جیسے بھی نبھایا ،اب ایک بارپھر سے اس کی قدر ومنزلت اور اہمیت میں اضافہ ہوچکاہے،اس کی اہم وجہ شاید پاکستان کا اپنا کوئی کارنامہ ہو یا نہ ہو، بھارتی چالاکی ضرورہے،ظاہر ہے مفادات کی جنگ میں بھارت پاکستان کو راستے سےہٹاکرامریکہ کا منظور نظر بنے گا تولامحالہ امریکہ کے"دشمن "پاکستان کے اہم جغرافیائی محل وقوع کو اپنی ضرورتوں کےلئے ضرور استعمال کریں گے اورقربت کے رشتوں میں بندھنے پر ازخود مجبور ہوں گے۔امریکہ بھارت سول نیوکلیئر معاہدے،فوجی اور اقتصادی وتجارتی تعاون کے طویل مدتی معاہدے پاکستان کےلئے نہیں بلکہ خود بھارت کے لیے خوشی کی بجائے اب پریشانی کا سبب بن رہے ہیں ،سلامتی کونسل کے امریکہ سمیت پانچ ارکان میں سے دو اہم ترین مستقل رکن چین اور روس کاپاکستان سےمختلف انداز میں والہانہ محبت کے اظہار نےبھارت کی نہ صرف رات کی نیندیں اور دن کا چین غارت کردیاہے جو اب حواس باختگی کی حدوں کوچھورہاہے، چین کی اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری و وسط ایشیا تک مستقل اقتصادی راہداری کےمنصوبے اور کشمیر میں جارحیت پر بھارت کی مذمت اور فوجی ظلم روکنے کامطالبہ بھارت کےلئےباعث حیرت وعبرت بن گیاہے(یاد رہے کہ انیس باسٹھ میں چین نےکشمیر کے تین اہم علاقے بھارتی تسلط سے آزاد کرالئے تھےجواب بھی چین کےپاس ہیںلہذا چین بھی مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے) جبکہ مکار بھارت کی جانب سےدہائیوں پرانی دوستی کے واسطے دینےکے باوجود روس کی مسلح افواج کاپہلی مرتبہ پاکستان میں مشترکہ مشقوں کےلئے آجانے کا تاریخی فیصلہ بھارتی سیاسی وعسکری قیادت کےلئے وجہ ندامت اور بجلی بن کر گرا ہے،جی ہاں چھپن سالہ تلخ تعلقات کو دوستی میں تبدیل کرنے پر آمادہ روس نےپچاس کی دہائی میں اسی مسئلہ کشمیر پر بھارت کی بھرپور تائید کی تھی اور سن اکہتر میں پاکستان کو دولخت کرنے پر بھارت کا ہرطرح سے ساتھ نبھایا جبکہ سن اسی کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ کااتحادی بن کر روس کو پسپا کرنے کےلئے اپنی فضائی حدود اور دیگر فوجی سہولتیں فراہم کی تھیں ان ساری حقیقتوں کے باوجود چین اور روس کی فوجی ،معاشی واقتصادی اور تجارتی شراکت داری میں پاکستان کا کردار "پل" کا بن چکاہے۔موجودہ کشیدہ صورت حال میں بھارت کی بدحواسی اور جنگی جنون کا سمجھداری اور حوصلہ مند دفاعی وسفارتی جواب پاکستان کےلیے مشکل اور صبرآزما ضرور ہے لیکن انتہائی سود مند بھی ثابت ہوسکتاہے،تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کوخطے میں شروع ہونے والی اس نئی"گریٹ گیم" کابغورجائزہ اورمخفی مقاصد کوسمجھنا جبکہ تمام محاذوں سمیت سفارتی محاذ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھرپورحکمت عملی کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔یہ دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہےکہ پاکستان امریکہ "بادشاہ " سے تعلق بگاڑے بغیرخطے کی ہم خیال طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو گہرے رابطوں کے ذریعے استوار کرنے کے راستے کیسےتلاش کرے ۔ موجودہ سنگین کشیدہ صورت حال میں روس کو سفارتی محاز پر اپنا ہم نوا بنانے اور دفاعی معاون بنانے کے موقع کو حقیقت کا روپ کیسےدیناہے ؟یہاں روس سے تعلقات کے بارےمیں کچھ تاریخی حقائق کو طشت ازبام کرنابھی ضروری ہے، روس نے افغانستان پر حملہ کیاتو پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن ہونے کی حیثیت سے امریکی اتحاد کا حصہ بن گیا، جنگ کےبعدمنظرعام پر آنے والی حساس روسی دستاویزات میں واضح طور پرظاہر ہوا کہ کشیدہ ترین صورت حال اور ضیاء الحق کی جنگ ،امن اورمذاکرات کے بارےمیں غیرواضح پالیسی کا ادراک ہونے کے باوجود روس نے کبھی پاکستان پرحملے کا ارادہ نہیں کیا نہ ہی گرم پانیوں تک رسائی کی کبھی کوشش کی۔ایک سفارتی ذریعے کے مطابق جون 1979 کوافغانستان میںروسی سفیر الیگزینڈرپوڈانوف نے اس وقت افغانستان کے صدر نور ترکئی سے ملاقات میں واضح طور پر کہاکہ افغانستان کی سرحد سے جنگجوئوں کا داخلہ روکنے کےلئے افغان حکومت پاکستانی صدر ضیا سے مذاکرات کرے،عدم تعاون کی افغان صدر کی شکایت کے باوجود روس کا اصرار تھا کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت ہی ہونی چاہئے،حملہ اس کا حل نہیں ،یہ بھی حقیقت ہےکہ اسی روس نے
1968میں پہلی مرتبہ پاکستان کو دفاعی ہتھیار دینے کی آفر کی تاہم پاکستان نے امریکی کیمپ جوائن کرنے کو ترجیح دی ۔
دنیا میں قوموں کی زندگی میں خود کو منوانے کے کم سہی لیکن کچھ مواقع ضرورملتے ہیں موجودہ سنگین حالات جہاں مسئلہ کشمیر کے حل کااہم موقع فراہم کررہےہیں وہیں پاکستان کواپنے اصولی موقف کے ساتھ بھارت پر سفارتی دبائو برقرار رکھناہوگا اوریہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتاہےلیکن جدید دور میں دشمن کا دشمن سب سےخطرناک ہتھیار بھی کہلاتاہے لہذا اقوام عالم سے دوستانہ تعلقات کی خارجہ پالیسی ان کے مفادات اور توقعات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کو ترجیح بناکرازسرنو تشکیل دینا ہوگی۔


.
تازہ ترین