• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرمنی کے مشہور ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر اپنی زندگی کے بارے میں جو کتاب تحریر کی ، اس کے پیش لفظ میں وہ کہتا ہے ’’ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ کسی تحریر کا اثر تقریر کی مانند نہیں ہو سکتا اوردنیا کی ہربڑی تحریک کی کامیابی کا دارومدار مصنفوں اور محرروں سے زیادہ مقررین پر ہوتا ہے لیکن پھر بھی کسی نظریے کے اظہار میں یکسانیت اور اس نظریے کی تائید میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کےلیے اس کے دائمی اصولوں کا قلم بند کیا جانا ضروری ہے ‘‘ ۔ ہٹلر خود ایک زبردست مقرر تھا ۔ وہ جس اجتماع سے تقریر کرتا تھا ، اس اجتماع میں شریک لوگ جم کر اپنے پیروںپر کھڑے نہیں رہ سکتے تھے ۔ فن خطابت میں اس کمال کی وجہ سے ہٹلر کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ اپنی تقریروں سے حالات کا رخ ، جس طرف چاہے ، بدل سکتا ہے ۔ اس لیے وہ تحریر کی طاقت کو اس طرح تسلیم نہیں کرتا تھا ، جس طرح دنیا کے بڑےبڑےلیڈرزکرتےتھے۔اسکےنزدیک لکھاریوں کی حیثیت محض ایک ’’ محرر ‘‘ کی تھی ۔ تاریخ میں کبھی کبھی ایسے حالات بھی پیدا ہو جاتے ہیں ، جب تحریر کے ذریعہ کوئی بات فوری طور پر اور مؤثر طریقے سے لوگوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی تھی ۔ ایسے حالات پر صرف ہٹلر جیسا مقرر ہی اثر انداز ہو سکتاہے لیکن ہٹلر نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ’’ تقریروں میں مصلحت پسندی والی لفاظی اور کوری لفاظی ذلت و رسوائی اور لوگوں کی غضب ناک نفرت کا سبب بنتی ہے ‘‘ ۔ ہم صحافی اور قلم کار تو ہٹلر جیسے لوگوں کے نزدیک صرف ’’ محرر ‘‘ ہی ہیں ۔ تقریریں کرنا یا تحریکیں چلانا ویسے بھی ہمارا منصب نہیں ہے ۔ یہ کام سیاست دانوں کا ہے ، جو تقریریں بھی کر سکتے ہیں ۔ تحریر کی جس تھوڑی سی افادیت کا ہٹلر قائل تھا ، شاید اسی افادیت کےلیے ہی لکھا جاتاہے ۔ یعنی تحریر کے ذریعہ ایک بات کو منظم دلائل کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے ۔ تقریر والوں نے جو حالات پیدا کر دیے ہیں ، انہیں دیکھتے ہوئے کوئی ’’ محرر ‘‘ یہ حقیقت ضبط تحریر میں لا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کا وقفہ ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ کچھ عرصہ فوجی حکومت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ایک وقفہ آتاہے ، جس میں سیاسی حکومتیں ہوتی ہیں ۔ پھر یہ وقفہ ختم ہوتا ہے اور دوبارہ فوجی حکومت قائم ہو جاتی ہے ۔ 2008ء سے جو سیاسی وقفہ چل رہا تھا ، وہ ختم ہو گیا ہے ۔ کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں اور ان کے پاس اس کے لیے ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں کیونکہ فوج نے براہ راست اقتدار نہیں سنبھالاہے اور سیاسی حکومتیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن اس بات کو نئے حالات کے تناظر میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فوج کو براہ راست اقتدار سنبھالنے کی ضرورت ہی نہیںہے اور سیاسی حکومتوں کوہٹانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اس مرتبہ سیاسی وقفہ نئے طریقے سے ختم ہوا ہے ۔ یہ طریقہ ہمارے ہاں نیا ہے مگر تاریخ میں آزمایا ہوا ہے ۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سخت گیر فوجی حکومتیں اس وقت قائم ہوتی ہیں ، جب مزاحمت کی طاقت کی حامل اور مفاہمت نہ کرنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی قوتیں فوج کی سیاسی مداخلت کو ایک حقیقت کے طورپر تسلیم کرنے اور تصادم سے گریز کی سوچ آہستہ آہستہ پیدا ہوئی اور اب یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے ۔ بدامنی اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں سیاسی حکومتوں کی ناکامی نے حقیقی قومی جمہوری قوتوں کی مزاحمت کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ انہیں حکومت کرنے کی اہلیت سے بھی محروم کر دیا ہے ۔ رہی سہی کسر بدعنوانی اور خراب حکمرانی نے پوری کر دی ۔ سندھ کے ایک انتہائی زیرک اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے سیاست دان ، جو اس وقت بھی اہم عہدے پر فائز ہیں ، کا کہنا ہے کہ فوج کو براہ راست اقتدار میں آنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب بھی فوجی حکومت قائم ہوتی ہے ، اسے فرنٹ پر مسلم لیگ (ق) جیسی سیاسی جماعتوں کو رکھنا پڑتا ہے ۔ اس وقت سارے سیاست دان چوہدری شجاعت بنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی وہی کرتے ہیں ، جو انہیں کہا جاتا ہے ۔ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کنونشن مسلم لیگ بن گئی ہیں ۔ بلوچستان کے ایک بڑے سیاسی خانوادےکے انتہائی پڑھے لکھے نوجوان سیاست دان سے جب میں نے یہ پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنے اختیارات سے مسلسل دستبردار ہوتی ہوئی سیاسی حکومتیں زیادہ دیر تک چل سکیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے ۔ انہوں نے بلوچستان کی صورت حال کو مثال کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ بلوچستان میں بدامنی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر سیاسی حکومتیں مسلسل بے اختیار ہوتی گئیں ۔ اختیارات کہیں اور منتقل ہو گئے اور فیصلے بھی وہاں سے ہوتے ہیں ۔ اب پورا پاکستان بلوچستان بن رہا ہے ۔ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ۔ قدیم روم میں جولیئس سیزر کالے پالک بیٹا اور وارث ’’ آگسٹس ‘‘ مصر کو فتح کرنے کے بعد 29 قبل مسیح جب روم واپس لوٹا تو روم کے لوگوں نے اس کا ایک نجات دہندہ کے طورپر استقبال کیا ۔ اس وقت روم کے لوگ جمہوریت اور آزادی کے مشتاق نہیں رہےتھے۔ وہ شدت پسندی سے تحفظ ، بدعنوانی سے نجات اور امن کے خواہش مند تھے ۔ وہ مبہم انداز میں یہ بات سمجھ گئے تھے کہ بدعنوانی اور تشدد کے اس ماحول میں ان کی منتخب اسمبلی سلطنت پر حکومت کرنے کی اہل نہیں رہی ۔ اب وہ سلطنت آگسٹس کے قدموں تلے بکھری پڑی تھی اور ایک جرنیل کی ریاست کاری کا انتظار کر رہی تھی ۔ معروف امریکی مصنف ( محرر ) ول ڈیورانٹ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آگسٹس نے جمہوریہ کی شرائط اور اس کی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے جمہوریہ کی موت کو آسان بنایا ۔ اس نے اسمبلیوں کو کام کرنے دیا اور اسمبلیوں سے سارے اختیارات اپنے پاس لےلیے ۔ اسمبلیاںاسے اختیارات دیتی گئیں اور وہ بادشاہ بن گیا ۔ آگسٹس کا دور امن اور خوش حالی کا دور تھا ۔ کہتے ہیںکہ اسے ایک اینٹ والا روم ملا تھا اور اس نے اس کو سنگ مرمر کا شہر بنا دیا لیکن اس کا یہ دور روم کی تاریخ میں جمہوریت یا سیاسی وقفے والا دور نہیں تھا ۔ پاکستان میں جس طرح سیاسی وقفہ ختم ہو چکا ہے ، تاریخ کا ادراک رکھنے والے اس پر حیرت زدہ نہیں ہیں ۔
تازہ ترین