• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہاں سچ کے قحط کا رونا رونے والے چوہدری محمد سرور کے اس دعوے کو سچ مان لینا چاہئے کہ پنجاب کی گورنری سے استعفے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا اور سرکاری ٹی وی کی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ صدر مملکت ممنون حسین نے گزشتہ رات انہیں مستعفی ہونے کیلئے کہہ دیا تھا۔ (ظاہر ہے، اس صورت میں یہ صدر کی نہیں، بلکہ وزیراعظم نواز شریف کی خواہش ہوتی کہ 18ویں ترمیم کے بعد سروس چیفس کے تقرر کی طرح گورنروں کی تعیناتی کا اختیار بھی صدر سے وزیراعظم کو منتقل ہوگیا ہے۔)
گورنر صاحب نے استعفے کا فیصلہ خود کیا تو انہیں یہی زیبا تھا۔ ایک عرصے سے وہ گورننس اور دیگر مسائل کے حوالے سے حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے رہتے تھے اور ظاہر ہے یہ چیز حکومت کیلئے embarrasement کا باعث بنتی تھی۔ صدر اوباما کے دورۂ بھارت پر اِنکے بیان کو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا سمجھ لیں۔ فرمایا، ’’امریکی صدر کا بھارت جانا اور پاکستان نہ آنا ، ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے۔‘‘
فراز نے کہا تھا؎
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
ایک صورت یہ تھی کہ جنابِ گورنر ایوانِ صدر کو استعفے ارسال کرنے کے بعد خاموشی سے رُخصت ہوجاتے لیکن انہوں نے اِس سے قبل باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں استعفے کی وجوہات کا بیان ضروری سمجھا۔ انہوں نے اگرچہ وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ شہبازشریف سے کسی قسم کے اختلافات سے انکار کیا لیکن رانا ثناء اللہ کے اس دعوے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ یہ پریس کانفرنس رخصت ہوتے ہوئے گورنر کی ، حکومت کے خلاف چار ج شیٹ نہیں تھی۔ چوہدری صاحب کو دُکھ تھا کہ وہ بطور گورنر عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن عوام کے مسائل کا حل تو ان کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ چوہدری سرور ایک ذہین اور معاملہ فہم شخص ہیں۔ ایک عام سے کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد سرور اپنی جوانی کے آغاز ہی میں لندن سدھار گئے۔ کچھ بننے اور کچھ کرگزرنے کے جذبے سے سرشار چوہدری محمد سرور کی محنت رنگ لائی۔ اُنہوں نے پہلے خود کو معاشی لحاظ سے مستحکم کیا اور پھر سیاست کے لئے لیبر پارٹی کا انتخاب کیا۔ گلاسکو میں وہ پاکستانی کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لئے بھی سرگرم رہتے۔ 1997 میں وہ پہلی بار لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے رُکن منتخب ہوئے۔ اگلی دو باریاں بھی انہی کی تھیں۔ اب اِن کا صاحبزادہ گلاسکو کی اس نشست پر اِن کا جانشین ہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں بھی ان کی دلچسپی برقرار رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ ابتلا میں وہ اِن کے حق میں آواز اُٹھاتے رہے۔ 12اکتوبر 1999 کی فوجی کاروائی کے بعد اُنہوں نے نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے لئے جنرل مشرف سے رابطہ کیا تاکہ جان سکیں کہ پاکستان کا معزول وزیراعظم زنداں کی کال کوٹھری میں کس حال میں ہے؟ مئی 2013 کے انتخابات کے دوران بھی وہ شریف برادران سے قریبی رابطے میں رہے۔ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو چوہدری صاحب کی انگلستان میں پاکستانی سفیر کے طور پر تقرر کی ’’قیاس آرائیاں‘‘ عام ہوئیں ۔ جون میں وفاقی بجٹ کے اعلان کے موقع پرہم بھی اسلام آباد میں تھے۔ جناب الطاف حسن قریشی کے ساتھ ہوٹل کے تھرڈ فلور پر جاتے ہوئے، لفٹ میں چوہدری صاحب سے ملاقات ہوگئی۔سفارت کی پیشگی مبارکباد پر اُنہوں نے ہنستے ہوئے کہا، ابھی تو انہیں انگلستان میں اپنے دوستوں سے مشورہ کرنا ہے، وہاں اپنی پارٹی (لیبر) کی قیادت سے بھی بات کرنا ہوگی۔ وہ سفیر تو نہ بنے، اگست کے وسط میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بن گئے۔ اس پر بعض ناقدین نے ’’امپورٹڈ گورنر‘‘ کی پھبتی بھی کسی۔ ہمارے برادرِ محترم عطاء الحق قاسمی ان میں سے تھے جن کی خواہش تھی کہ یہ منصب جنوبی پنجاب کو ملے۔ اس پر یار دوستوں نے افواہ اُڑا دی کہ قاسمی خود گورنربننا چاہتا ہے۔
عمر کے اس حصے میں بھی چوہدری صاحب کے عزائم جوان تھے اور ذہنی و جسمانی توانائیاں بھرپور۔ وہ بطور گورنر بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن اس حقیقت کو نظر اندار کر گئے کہ صوبے میں وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے ، پروٹو کول میں وہ ’’نمبر ون‘‘ سہی لیکن آئینی طور پر یہ منصب محض ’’رسمی‘‘ ہے(ملکۂ برطانیہ کی طرح)۔آئینی طور پر صوبے کا چیف ایگزیکٹو کوئی اور نہیں، بلکہ وزیراعلیٰ ہے اور مسائل کے حل کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے۔ ویسے بھی ذاتی طور پر شہباز صاحب جتنے بھی وضعدار ہوں، تقسیم ِ اختیارات اور ارتکازِ اختیارات کے حوالے سے ان کا اپنا فکر و فلسفہ ہے۔ وہ اختیارات کی تقسیم کی بجائے ارتکاز کو زیادہ باعثِ خیروبرکت سمجھتے ہیں(اور ظاہر ہے ، اسی پر عمل پیرا بھی ہیں)لیکن جہاندیدہ گورنر، جس کے سامنے خود اس کے سیکنڈ ہوم کی ملکہ کی مثال موجود تھی، اس حقیقت کا اِدراک نہ کرسکا ۔ چنانچہ جلد ہی اسے مایوسی کا سامنا ہونے لگااور میاں برادران سے بات کرنے اور اپنے لئے کوئی مناسب سی spaceتجویزکرنے کی بجائے، وہ اپنے ملاقاتیوں سے اپنی بے اختیاری کا اظہار کرنے لگا۔ ان میں حکومت کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جانے والے اخبار نویس بھی تھے،ان کی صحبت میں آسودگی پاتے۔ گورنری کے پہلے دور کی عید پر انہیں احساس ہوا کہ انہیںاپنے اسٹاف اور گورنر ہاؤس کے دیگر ملازمین کی عیدی کیلئے بھی حکومت کی ’’منظوری‘‘ درکار ہوتی ہے۔ رانا ثناء اللہ، ان کے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ انہوں نے چار ماہ بعد ہی رانا صاحب سے گورنری سے سبکدوشی کی خواہش کا اظہار کردیا تھا، کچھ عرصے بعد اُنہوں نے پھراسی خواہش کا اعادہ کیا ، تو رانا صاحب نے کہا، یہ استعفے کے لئے مناسب وقت نہیں، تب اسلام آباد میں کپتان اور ’’قائدِانقلاب ‘‘ کے دھرنے چل رہے تھے۔ اس سے قبل طاہر القادری سے ان کی ’’دوستی‘‘ کا انکشاف اس وقت ہوا، جب کینیڈا پلٹ قائدِ انقلاب نے پہلے آرمی چیف اور پھر کور کمانڈر لاہور سے مایوس ہو کر، لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے باہر آنے کے لئے گورنر پنجاب کو پکارا، اور کہا کہ ان کادیرینہ دوست آئے اور انہیں لے جائے۔ کہا جاتا ہے، 14اگست کو ، جب حکومت نے طاہرالقادری کے ماڈل ٹاؤن سے نکلنے کے تمام راستے مسدود کردیئے تھے، الطاف بھائی کے علاوہ یہ گورنر پنجاب تھے جنہوں نے ضمانت دی تھی کہ علامہ صاحب اسلام آبادمیں پر امن رہیں گے اور آب پارہ سے آگے نہیں جائیں گے۔ اس دوران ’’لندن پلان‘‘ میں جناب گورنر کی شرکت کی افواہیں بھی سنائی دیں۔ (اس میں کچھ حصہ ان کے رقیبوں کا بھی ہوگا، لیکن میاں صاحبان نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی)۔اس دوران گورنر صاحب صاف پانی کے لئے فلٹریشن پلانٹس کے منصوبے پر کام کرتے رہے۔ گورنر ہاؤس میں کتابوں کی رونمائی کی تقریبات ان کی ایک اور مصروفیت تھی۔ وہ اپنی برطانوی شہرت سے دستبردار ہوگئے تھے کہ گورنری کے منصب کا یہ آئینی تقاضا تھا (تکنیکی ماہرین کے مطابق وہ اِسے کسی بھی وقت بحال کراسکتے ہیں)لیکن وہ اپنے سیکنڈ ہوم سے لاتعلق نہیں ہوئے تھے جس نے انہیں مالی اور سیاسی لحاظ سے عروج بخشا تھا، چنانچہ اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کے دوران اُنہوں نے پاکستانی آبادی سے برطانیہ کے حق میں ووٹ ڈلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے یورپی یونین میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دلوانے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن بے اختیار گورنری میں ان کے لئے کشش کم ہوتی گئی۔ ان کا برطانیہ واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا کہ وہاں وہ اپنی سیاست اور کاروبار بچوں کے محفوظ ہاتھوں میں دے آئے ہیں۔ وہ اب پاکستان میں اپنے لئے کسی بڑے کردار (bigger role) کے متمنی تھے۔ تو کیا حکومت پر وقتاً فوقتاً ان کی تنقید اسی کردار کیلئے تیاری تھی؟ لیکن اپنی آئینی حدود سے یہ تجاوز ان جیسے بھلے آدمی کو زیبا نہیں تھا۔ اچھا ہوا، اُنہوں نے آخر کار گورنری سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا۔ گورنر ہاؤس میں اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں انہوں نے جس طرح پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی مظلومیت کا نوحہ پڑھا ہے،اس سے ان کے مستقبل کے عزائم کی کسی حد تک نشاندہی ہوجاتی ہے۔ پنجاب کا گورنر ہاؤس میاں برادران کے لئے آسودگی کا باعث کم کم ہی بنا ہے۔ ماضی قریب میں سلمان تاثیر اور پھر لطیف کھوسہ کی گورنری ان کے لئے باعثِ آزار تھی تو اب اپنے گورنر کے ساتھ معاملہ بھی کچھ زیادہ کمفرٹیبل نہیں رہا۔
تازہ ترین