• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ میرے ساتھ ہی نہیں اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ زندگی میں کرنا کچھ چاہتے ہیں اور کر کچھ اور لیتے ہیں۔ راقم صحافی یا وکیل بننا چاہتا تھا مگر رزق روٹی سول سروس میں لکھی تھی، سو ادھر چلا گیا۔ مگر ان دونوں شعبوں سے شغف ضرور رہا، اپنی صحافت سے تو ہر ہفتے آپ کو پریشان کرتا ہی ہوںاور قانون کا امتحان اس وقت پاس کیا جب کیرئیر کے وسط میں تھا اور ذہن کےکسی کونے میں یہ خواہش ضرور تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس کروں گا۔ صحت نے اس کی اجازت تو نہیں دی البتہ کبھی کبھار عدالت عظمیٰ کی طرف نکل جاتا ہوں اورکسی کورٹ روم میں بیٹھ کر شوق پورا کرلیتا ہوں۔ یہی میری خوش بختی کہ اسی مہینے کی وسطی تاریخوں میں ادھر گیا تو عوامی دلچسپی کے ایک نہایت اہم موضوع پر بہت کچھ سننے اور جاننے کو ملا، جسے آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔ نظام عدل کے مسائل، بالخصوص پولیس کے کردار کے حوالے سے فاضل جج صاحبان کے ریمارکس چشم کشا تھے۔ شاید یہ سب کچھ منصہ شہود پر نہ آتا اگر صرف ایک روز قبل جناب وزیراعظم عدلیہ کے حوالے سے غیر محتاط تبصرے کے مرتکب نہ ہوتے۔موصوف 14جنوری کو صدر ممنون حسین کے ہمراہ ایوان صدر میں تاجروں اور صنعتکاروں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ باتوں باتوں میں اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا ذکر چل نکلا تو وزیراعظم نے فرمایا کہ’’ذاتی طور پر وہ اس انتظام کے حق میں نہیں۔ مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹانے کے لیے یہ سب مجبوری کے عالم میں کرنا پڑرہا ہے۔ کیونکہ مقدمات کے التواء سے بد امنی میں اضافہ ہوا ہے۔ ٓزاد عدلیہ کی اہمیت اپنی جگہ مگر اسے کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔‘‘
اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے متعلق ہر کسی کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا اختیار ہے اور لوگ بلا تکلف اس کا اظہار کر بھی رہے ہیں، مگر وزیراعظم کے مقام و مرتبہ کا تقاضہ ہے کہ اہم فوجی اداروں کے حوالے سے احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ملک کا چیف ایگزیکٹو عمومی قسم کی گفتگو کا متحمل نہیں ہوسکتا، مقدمات زیر التواء ضرور ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں نمٹانے کے لئے عدلیہ جنگی بنیادوں پر کام کررہی ہے اور صرف دو برس میں ملک بھر کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تیس لاکھ سے کم ہو کر سترہ لاکھ رہ گئی ہے جس کا کریڈٹ عدلیہ کو بہرحال دیا جانا چاہئے۔ جناب وزیراعظم کے اس تبصرے کی صدائے بازگشت بجا طور پر اگلے ہی روز عدالت عظمیٰ میں سنی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی پر مشتمل بنچ نے کم از کم تین مقدمات کی سماعت کے دوران اس حوالے سے گاہے گاہے ریمارکس دیئے۔ پہلا مقدمہ جیلوں کی حالت زار کے بارے میں ایک سوموٹو نوٹس تھا اوردوسرے کا تعلق دہشت گردی کے حوالے سے پنجاب حکومت کی نظرثانی کی ایک درخواست سے تھا جبکہ ایک اور کیس کسی ضلعی پولیس افسر کے خلاف تھا۔
اس دوران فاضل جج صاحبان نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ خرابیاں عدالتوں میں نہیں، سرکار میں ہیں اور اگر یہ ناکام ہوگئے ہیں تو عوام کے سامنے اپنی ناکامی تسلیم کریں۔عدالتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ یہ سزائیں نہیں دیتیں، عدالتیں انصاف کیلئے ہوتی ہیں محض سزائوں کیلئے نہیں۔ بعض اہم نوعیت کے مقدمات اگر معرض التوا میں ہیں تو اس کا دوش بھی عدلیہ کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کی وجوہ کچھ اور ہیں، ملزم اگر بری ہوجاتے ہیں تو اس کی وجہ خام استغاثہ اور پولیس کی ناقص تفتیشہوتی ہے۔ غلط اور بے بنیاد مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔گواہ نہیں ملتے تو جعلی کھڑے کر لیے جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر تفتیش میں پوری ہو کر رہ جاتی ہے۔ بیشتر تفتیشی اپنے کام کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ صرف صوبہ پنجاب میں ایسے اہلکاروں کی تعداد 600 کے لگ بھگ ہے اور لطف کی بات یہ کہ ان لال بجھکڑوں کے احتساب کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ آج تک غالباً کسی کو اس کی نا اہلی کی سزا نہیں دی گئی اور شاید اس کو جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ آدھے مقدمات تو میرٹ پر پورے اترتے ہی نہیں، جنہیں کسی طور پر بھی نہ درج یں ہونا چاہئے۔ کمزور استغاثہ اور جعلی شہادتوں والے بے شمار مقدمات چلتے چلتے اعلیٰ عدلیہ تک جاپہنچتے ہیں۔ابھی پچھلے برس 60ہزار ایسے مقدمات ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے خارج کیے۔ حالانکہ ان کا چالان مجسٹریٹ کی سطح پر ہی مسترد ہوجانا چاہئے تھا۔ مقدمات کے التواء کی ایک بڑی وجہ ججوں کی کم تعداد بھی ہے۔ زیر سماعت 17لاکھ مقدمات کو نمٹانے کے لئے ملک بھر میں ججوں کی تعداد 2400 ہے۔ جب ان کی تعداد بڑھانے کے لئے کہا جاتا ہے تو وسائل کی کمی کا بہانہ کردیا جاتا ہے، جن کی فراہمی بہرحال حکومت کا ہی کام ہے۔ عدالت نے ان بدنصیبوں کا بھی نوٹس لیا، جنہیں پولیس جرم ضعیفی میں محض خانہ پری کیلئے دھرلیتی ہے۔ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں برسوں سلاخوں کے پیچھے رہنے والے یہ لاوارث بالآخربری ہو بھی جائیں تو جیل میں کٹے ان کے ماہ و سال کا حساب کون دے گا؟
فاضل جج صاحبان نے بجا فرمایا کہ آدھے مقدمات کو تو فی الحقیقت عدالتوں میں جانا ہی نہیں چاہئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چھوٹے موٹے معاملات کو مقامی طور پر طے ہوجانا چاہئے، جس کے لئےضروری ہے کہ تھانے اوریونین کونسل کی سطح پر مصالحتی کمیٹیوں یا پنچایت کو فعال بنایا جائے۔ شنید ہے کہ وفاقی حکومت اس حوالے سے سلسلہ جنبانی کررہی ہے اور فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے قانون سازی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ پنچایتی نظام کو ملک بھر میں نافذ کرنے کی تجویز ہے، مجوزہ قانون میں خاندانی، تجارتی اور کاروباری اور محکمہ مال سمیت جملہ دیوانی مقدمات کا پنچایت کو بھجوانا لازمی ہوگا۔ مقدمات کا فیصلہ 35 سے 45دنوں میں ہوگا۔ یوں عوام الناس کو سستا اور فوری انصاف ان کی دہلیز پر ملے گا اور عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ بھارت میں پنچایت نظام ایک مدت سے بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ جہاں پنچایت راج کے حوالے سے شہرت پانے والے ماہر سماجیات چیٹرجی کا کہنا ہے کہ’’پنچایتی نظام انصاف پر لوگوں کا اعتماد تیزی سے بڑھا ہے جو بخوشی اپنے معاملات پنچایت میں لے جاتے ہیں کیونکہ اس نظام کے چلانے والے انہیں میں سے ہوتے ہیں۔ ہر معاملے کی ہر تفصیل اور ہر تاویل سے آگاہ ہیں، انہیں کوئی ورغلا سکتا ہے اور نہ چکر دے سکتا ہے۔ وہاں سچ اور صرف سچ کا راج ہوتا ہے اور جھوٹ چل ہی نہیں سکتا۔ پھر بستی، محلے میں سب نے مل کر رہنا ہوتا ہے، رنجشوں کو زیادہ دور تک نہیں لے جایا جاسکتا اور سب جھگڑوں کا انت صلح پر ہوتا ہے۔ جہاں تباہی کے بعد پہنچنا ہے، بہتر ہے پہلے ہی موقع پر سنبھال لیا جائے۔ یہ نظام تو جانی دشمنوں تک کو عزیز رشتہ داروں میں بدل دیتا ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ کسی کو جیت کا احساس ہو اور نہ ہی کوئی اپنے آپ کو ہارا ہوا سمجھے۔ یہ نظام سب کو وِن وِن پوزیشن کی طرف لے جاتا ہے، گویا سب کی جیت سب کا بھلا۔‘‘
تازہ ترین