• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر کے دورہ بھارت پر بھارت میں تو خوشی کے شادیانے بجنا ہی تھے، پاکستان کا میڈیا بھی تین دن تک اسی دورے کی کوریج میں الجھا رہا۔ اب جب کہ یہ دورہ ختم ہوچکا ہے، الیکٹرانک میڈیا کے بعد پرنٹ میڈیا نے تبصروں اور جائزوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس حد تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ وہ ایٹمی قوت بھی ہے۔ اوباما کو دنیا کا سب سے طاقتور حکمران بھی کہاجاسکتا ہے۔ لہذا امریکی صدر کے دورہ بھارت کو اہمیت ملنا فطری بات ہے۔ کبھی عالم یہ تھا کہ امریکہ نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے سبب، نریندرمودی کو ویزا دینے سے انکار کردیاتھا۔ لیکن اب مودی عوام کے ووٹوں سے بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوچکا ہے۔ امریکہ کو اسی سے معاملہ کرنا ہے۔ مودی نے بھی ماضی کو بھلا دیا اور روایت سے کئی قدم آگے بڑھ کر صدر اوباما کی خوشنودی کی کوشش کی۔بھارت کے نقطہ نظر سے یہ دورہ کتنا اچھا رہا یا امریکی حوالے سے صدر اوباما کو کتنی کامیابی نصیب ہوئی، اس کا جائزہ لیاجاتا رہے گا۔ ایٹمی تعاون سے یقینا بھارت کو فائدہ ہوگا۔ اسی طرح ٰیہ بھی بھارت کی سفارتی کامیابی ہے کہ اوباما نے بھارت کے سلامتی کونسل کا چھٹا مستقل رکن بننے کی حمایت کی ہے۔ لیکن امریکہ کا پہلے ہی سے یہ موقف رہا ہے۔ اوبامانے فقط اس موقف کو دہرایا ہے جس سے یقینا بھارت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت پہلے ہی فروغ پذیر ہے۔ ایک بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے بھارت امریکی سرمایہ کاروں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔ پاکستان میں میڈیا نے اوباما کے دورے کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کی۔ خبروں اور تبصروں کے ذریعے یہ تاثر دیاگیا جیسے صدر اوباما کا دورہ بھارت، پاکستان دشمنی پر مبنی اقدام ہے۔ یا یہ کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان میں سے ایک یعنی بھارت کا انتخاب کرلیا ہے۔ آئندہ امریکی پالیسی صرف بھارت کے گرد گردش کرے گی اور پاکستان کو اس نے مستقل طورپر اپنی ترجیحات سے خارج کرکے دشمنوں کی صف میں دھکیل دیا ہے۔ کچھ مبصرین نے ایک طرف تو بھارت کو اپنا روایتی دشمن قرار دے کر اپنا غصہ نکالا اور دوسری طرف امریکہ کو بھی نشانے پر دھر لیا کہ اس کا صدر بھارت کے دورے پر کیوں آیا ہے اور دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے مابین اتنے گہرے مراسم کا تاثر کیوں دیا جارہا ہے؟اگر عوام کو تفریح اور انفارمیشن دینے کے ساتھ ساتھ انہیں آگاہی فراہم کرنا، ایجوکیٹ (Educate) کرنا بھی ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کی گئی۔ آج کی دنیا میں ملکوں کے باہمی تعلقات کا بنیادی نکتہ، باہمی مفاد ہوا کرتا ہے۔ انسانوں کے باہمی تعلق میں تو محبت، عشق اور رومانس کی گنجائش ہوتی ہے لیکن دوممالک صرف اسی صورت میں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں جب ان کے مفادات پورے ہورہے ہوں اور ان کے بین الاقوامی اہداف میں کوئی تصادم نہ ہو۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی ملک میں دوستی بہرحال کسی دوسرے ملک سے دشمنی بن جائے۔ ہمارے سامنے چین اور بھارت کے باہمی تعلقات کی مثال ہے۔ جس طرح ہم بھارت سے تین جنگیں لڑچکے ہیں اور کشمیر کے مسئلے پر ہمارا پرانا تنازعہ چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بھارت اورچین کے درمیان بھی جھڑپیں اور جنگیں ہوچکی ہیں اور اُن کا سرحدی جھگڑا بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن بھارت اور چین دونوں نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ ماضی کو یا سرحدی تنازعے کو بھلا کر مختلف شعبوں میں تعاون کےراستے تلاش کئے جائیں۔ چین نے بھارت سے قربت بڑھانے اور باہمی تجارت میں کئی گنا اضافہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اسکی پاکستان سے دیرینہ دوستی ہے اور بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔ اسی طرح بھارت نے بھی اس بات کو ایک طرف رکھ دیا کہ چین چونکہ پاکستان کا گہرا دوست ہے اس لئے اس سے راہ ورسم نہیں بڑھانا چ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب چین، بھارت سے قربت بڑھا رہا تھا تو ہمارے ہاں اس طرح کا شوروغوغا نہیں ہوا۔ کسی نے نہیں کہا کہ چین بھارت گٹھ جوڑ ہوگیا ہے جو ہمارے لئے خطرہ ہے۔ گزشتہ برس چینی صدر نے خطے کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا تو انہوں نے بھارت اور پاکستان، دونوں کو اپنے دورے میں شامل کیا۔ پاکستان میں قادری عمران دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوگیا لیکن انہوں نے بھارت کا دورہ ملتوی نہ کیا۔ وہ بھارت آئے جہاں ان کا پرتپاک خیرمقدم ہوا۔ انہوں نے وہاں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے۔ اس دوران ہمارے میڈیا نے افسوس کا اظہار تو ضرور کیا کہ دھرنا سیاست کے باعث چینی صدر پاکستان کے دورے پر نہیں آسکے---- لیکن کسی کو بھی سازش کی بو نہ آئی اور کسی نے نہیں کہا کہ خطے میں چین کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ پاکستان بدستور چین کا گہرا دوست ہے اور کسی پاکستانی کے ذہن میں رتی برابر شک بھی نہیں کہ چین سے ہماری دوستی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔امریکی صدر نے دورہ بھارت کا پروگرام بننے پر وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا۔ طویل گفتگو میں انہوں نے دورے کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ پاکستان نہ آسکنے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ امریکی سفیر نے ہماری قومی قیادت سے ملاقاتیں کرکے صورت حال واضح کی۔ پھر امریکی وزیرخارجہ جان کیری آئے اور سیاسی وعسکری قیادت سے ملے۔ اس ساری مشق کا حاصل یہی تھا کہ صدر امریکہ کے بھارتی دورے کے معنی یہ نہ لئے جائیں کہ پاکستان سے امریکی تعلقات میں کوئی رخنہ پڑگیا ہے یا کمزوری آرہی ہے۔
گر بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اسکی عالمی اہمیت ہے تو پاکستان بھی اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ بھارت جوہری ملک ہے تو پاکستان بھی ایٹمی قوت ہے۔ بھارت ایک بڑی اکانومی ہے تو پاکستان کی معیشت بھی سراٹھارہی ہے۔ بھارت جنوبی ایشیاء کی ایک طاقت ہے تو پاکستان کو نظرانداز کرکے بھی افغانستان یا کسی اور ملک میں کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں امریکہ اور بھارت کی قربت پر ٹھنڈی آہیں بھرنے کے بجائے اپنے دست وبازو پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسی مہلک بیماریوں پر قابو پانا چاہئے۔ تعلیم جیسے شعبے پر توجہ دینی چاہئے۔ نوجوانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنا چاہئے۔ خواتین کو معاشرے میں کردار ادا کرنے کے قابل بنانا چاہئے۔ توانائی کے بحران کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ اگر ہم بے معنی قسم کے تماشوں اور سیاسی سرکسوں سے جان چھڑا کرسنجیدگی کے ساتھ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا تہیہ کرلیں تو قوموں کی برادری میں ایسا مقام حاصل کرسکتے ہیں کہ دنیا کا ہر قابل ذکر رہنما جنوبی ایشیاء کا رخ کرے تو اس کی پہلی منزل پاکستان ہو۔ محض رونے دھونے اور دوسروں کو بُرا بھلا کہنے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ قوموں کی آبرو سستی جذباتیت سے نہیں، زمینی حقائق پر مبنی ٹھوس اور دانشمندانہ حکمت عملی سے ہوتی ہے۔
تازہ ترین