• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ اس دن سے ہی جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کیا گیا ایک دل گرفتگی کا عالم ہے پوری قوم غم سے نڈھال ہے 20جنوری کو سانحہ پشاور کا چہلم تھا۔ مائیں گلے مل مل کر رو رہی تھیں بین کررہی تھیں ان کا رونا اور آہیں سن سن کر کلیجے پھٹ جاتے تھے قوموں کی زندگیوں میں ایسے دن آتے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑ دیتےہیں سانحہ پشاور کا دن بھی ایسا ہی دن تھا جب پوری پاکستانی قوم ایک ہوگئی اور ایک پلیٹ فارم پر آگئی ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ فوجی عدالتیں قائم کرکے دہشت گردوں کو پھانسیاں دی جائیں۔ یہاں نواز شریف کی حکومت اس خصوصی اتفاق رائےکی بدولت دہشت گردی کے خلاف وہ قانون پارلیمینٹ سے منظورکرا سکی جس کے تحت فوجی عدالتیں قائم ہورہی ہیں لیکن کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس قانون کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اشارہ کیا تھا کہ ابھی معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔یہ عدلیہ کی دانش کا بھی امتحان ہے اور قوم کا امتحان ہے جس کے اتفاق رائے کی بدولت آئین میں ترمیم کی گئی ہے ہمیشہ یہ ہوا کہ جب سیاستدان ناکام ہوتے ہیں تو وہ معاملات کو عدالت میں لے جاتے ہیں جو اس قانون کے خلاف ہیں جو پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے وہ کم ہیں اور قومی اتفاق رائے اور قانون پاس کرانے والے جمہوری اور اخلاقی اعتبار سے اکثریت میں ہیں اور ایک طرف ہیں۔ یہ عجیب ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا کرتی رہی ہے۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کا ایشو احتجاج کی صورت اختیار کرگیا نوبت دھرنوں تک جا پہنچی۔ ساتھ ہی بجلی کا بحران گلے پڑ گیا اب پیٹرول کا بحران جان کو آگیا۔ اب حالات نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ آئینی بحران پیدا ہوتا نظر آرہا ہے اونٹ کس کل بیٹھے گا خیمے کے اندر جا گھسے گا یا صرف گردن ہی خیمے میں رکھے گا۔پاکستان کے حالات دو تین عشروں سے اسی طرح چل رہے ہیں کہ سول حکومت کی رٹ کمزور سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ہم کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ ایسا کیوں حالانکہ میں نے اپنے انہی کالموں میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بارے میں لکھا۔ 21جولائی 2007 کے اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان تھا ’’قانون کی عملداری کے بغیر جمہوریت‘‘ یہ بات زور دیکر کہی ’’یہ بات پورے شواہد کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے کہ مغرب میں بھی، امریکا میںبھی، چین میں بھی، سعودی عرب میں بھی خلیج کی ریاستوں میں اور آج کے ایران میں بھی قانون کی عملداری کی بدولت وہاں امن و امان ہے ملک و قوم ترقی کررہے ہیں اور جو بھی نظام ہے وہ کامیابی سے چل رہا ہے ہر شخص کیلئے ایک ہی قانون ہے خواہ وہ بڑا ہو چھوٹا ہو وہ اس کے شکنجے سے نکل نہیں سکتا۔ قانون کی خلاف ورزی سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں انہیں قانون کے ذریعہ ہی حل کیا جانا چاہئے سیاسی مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کرناچاہئے لیکن جب آئینی مسائل کو سیاسی رنگ دے دیا جائے اور سیاسی مسائل کو آئینی بنانے کا عمل جاری کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی ہوں گے۔‘‘قانون کی عملداری اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں اگر اس اصول پر عمل نہیں ہوا تو پاکستان میں جمہوریت تو کیا حکومت ہی چل سکتی اگر لوگ برملا یہ کہنے لگے کہ حکومت نااہل ہے تو یہ حکومت کس طرح چلے گی۔ فوج کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھا ہے انہوں نے سوات اور وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن کیا اس وقت پارلیمنٹ، حکومت اور عوام ایک ہی سوچ رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تیزی سے کی جائے۔سول حکومت روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے نہ وہ بجلی کے بحران کا کوئی حل نکال سکی، نہ گیس کے بحران کا کوئی حل نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پٹرول کے بحران نے آلیا۔ملک کی اندرونی سلامتی خطرے میں ہے ملک کے اندر انتہاپسند ذہن اور سوچ بڑھ رہی ہے یہ حکومت کے غلط رویوں کی بدولت ہوا ہے اس نے صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اول تو حکومتوں کو ادراک ہی نہیں ہوا کہ انتہاپسند پورے ملک میں پھیل رہے ہیں۔ اگر ان کے راستے مسدود کردیئے جاتے تو وہ اس پوزیشن میں نہ ہوتے کہ ان کے خلاف فوج کے آپریشن کی ضرورت پڑتی۔ایک طرف اندرون ملک فوج آپریشن کررہی ہے، بلوچستان میں فوج ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سرحدوں پر ابھرنے والے خطرات کو نظرانداز کردیں بیرونی طاقتوں کے عزائم پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ ذراسی غفلت بڑی جنگ کا محاذ کھول دے گی۔ ایسے میں چین کا رویہ حوصلہ افزا ہے اس نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ چین سے اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ بھارت بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ چین پاکستان کی پشت پر ہے اور وہ اس علاقے کی بڑی معاشی اور دفاعی قوت ہے۔گوکہ حالات ایسے سنگین ہوگئے ہیں کہ فوج کو اپنا کردار ادا کرناپڑرہا ہے پاکستان کے مخالفین جو انتشار آئین کی آڑ لے کر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
مجھے امید ہے کہ ہماری قوم عظیم ترین ادرش کی بلند حوصلوں کی قوم ہے۔ ہم بری سی بری حالت میں کڑے سے کڑے وقت میں مایوس نہیں ہوں گے اور اس امتحان سے بھی کامیاب گزر جائیں گے اتحاد اور دانش ورانہ عمل کے ذریعہ۔ اندھیروں میں ہی روشنی نظر آنے لگتی ہے ستارے چمکنے لگتے ہیں فیض کے اس شعر میں نوید صبح کا پیغام ہے۔
صبا نے پھر در زِنداں پر آکے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
تازہ ترین