• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک نئی ترمیم پر سب کو متفق کرلیا۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں تو تھا ہی مگر حلیف جماعت کے سربراہ نے اختلاف رائے کیا اور رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اب یہ اختلاف رائے کا نیا جمہوری انداز ہے۔ وزیر اعظم نے فوج کے نقطہ نظر پر اتفاق رائے بنانے کی بھرپو ر کوشش بھی کی۔ پاکستان کی سیاست کے دو حریف اس معاملہ پر ایک ہی طرح سے نظر آئے۔ کپتان اس ترمیم پر فوج کے ساتھ ہے مگر محدود مدت کے اضافہ کے بعد۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ میں سرکار کا یہ نیا ہتھیار جو اس نے فوج کو دیا ہے کتنا کامیاب ہوتا ہے ، اس ہتھیار کو دو سال کے اندر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کا دائرہ کار لفظوں کی موشگافیوں کی وجہ سے قابل فہم نہیں، پھر ہماری اسمبلی اور فوج دہشت گردی کی تعریف کے سلسلے میں ہم خیال نہیں۔
ہماری سیاسی اشرافیہ گزشتہ چند دنوں میں تین بار اکٹھے ہوئے۔ ان کے ساتھ اعلیٰ عسکری قیادت بھی مشاورت میں شامل رہی، پھر تیسری بار تمام صاحب کمال اور صاحب جلال یک جا ہوئے۔ ان سب کی چال ڈھال (باڈی لینگویج) دیکھنے کے لائق تھی۔ سنجیدگی ،پریشانی، کوفت، تھکاوٹ، بناوٹ سب کے چہروں پر نمایاں تھی۔ صرف عسکری قیادت اس موقع پر یک سو نظر آئی۔ تمام اہم سیاسی لوگ اتنی حدود و قیود پر مدبرانہ رائے رکھنے کے باوجود آئینی ترمیم پر متفق نظر آئے۔سابق صدر نے وزیر اعظم کو ڈرایا بھی اور ہلا شیری بھی دی، مگر وزیر اعظم ڈٹ گئے سو وہ بھی ہٹ گئے مگر اب کی بار معاملہ مختلف تھا دہشت گرد انصاف کے نظام اور عدالت کے وقار کو آزمارہے تھے۔ ایسے میں فیصلوں میں تاخیر دہشت گردی اور وحشت میں اضافہ کررہی تھی مگر ریاست کے لئے بروقت فیصلے لازمی تھے۔ اسمبلی کی سیاسی اشرافیہ کے پاس ہمت اور حوصلے کی کمی سی لگتی تھی۔ پاک فوج جو سرزمین پاکستان کی سرحدوں کی ضامن تصور کی جاتی ہے وہ قربان ہونے اور قربانی دینے میں کبھی دیر نہیں کرتی۔ وہ اس جنگ میں عوام کو حوصلہ اور یقین دینا چاہتی ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ مزید مکالمہ نہیں مقابلہ کرنا ہوگا اور قابل گرفت ظالموں کو فوری طور پر سزا دی جائے گی۔ اعلیٰ عسکری حلقوں نے اسمبلی کے ارکان اور سرکار کے سرخلیوں پر تمام صورتحال واضع کردی اور علاج بھی بتادیا۔اس وقت دہشت گرد ہمارے سماجی ڈھانچہ میں اپنا روپ بدل کر سرگرم عمل ہیں۔ ایسے میں ہنگامی اور جنگی قوانین وقت کی ضرورت ہیں۔ ملک میں جمہوریت بچانے کے مقدمہ نے دہشت گردوں کو آسانی فراہم کی۔ سرکار جمہوریت کے مقدمہ میں اتنی مصروف رہی کہ دہشت گردی کی تعریف بھی مشکل نظر آئی اور کوئی کار سرکار کا نمائندہ بھی اس معاملہ کو اہمیت دیتا نظر نہ آیا۔ اسمبلی کے اجلاسوں میں اس معاملہ کو صرف نظر کیا گیا۔ حزب اختلاف جمہوریت کے مقدمہ میں سرکار کی ہم نوا بن گئی۔ حلیف اور حریف کا فرق تک مٹ گیا۔ عوام بے بس اور فوج مشکل میں نظر آئی۔ سیاست کا کھیل تماشا دہشت گردی میں اضافہ کا باعث بھی بنا۔دہشت گردی خوف کے آسیب کا دوسرا نام ہے اور اس کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے۔ کوئی شخص، جماعت، ادارہ کسی بھی طرح سے پاکستان کے ساتھ جنگ کرے ،نقصان کرے، عوام کا حوصلہ پست کرے، ان کو خوف زدہ کرے، افواج پاکستان پر حملہ آور ہو، ایسی صورتحال میں وہ دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔ اس کی سرکوبی لازمی اور اس کو سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اب وقت آگیا کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اسمبلی میں اور سرکار میں ان کے حلیف فوجی عدالتوں پر عدم تحفظ کا شکار نظر آئے اور وزیر اعظم نے ان کو وقتی اہمیت بھی دی۔ ایسے میں سرحدوں پر جو جارحیت ہورہی ہے۔ اس پر بھی وزیر اعظم کی طرف سے پالیسی بیان نہیں آیا۔ دہشت گردوں کو سرحد پار سے اہمیت اور امداد ملتی ہے۔ سرکار اس کا تذکرہ پسند نہیں کرتی، پھر وزیر داخلہ کے مطابق کچھ دوست ممالک بھی ایسے لوگوں کی امداد کرتے رہے ہیں اس پر بھی سرکار شرماتی ہے اور نام بتانے میں اپنے مفادات کا خیال رکھ رہی ہے، پھر غیر سرکاری تنظیموں کو جو غیر ملکی امداد مل رہی ہے اس کے بارے میں بھی ملکی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کررہے ۔ دہشت گردی کی اس جنگ کے کارن پورے ملک کے مفادات خطرے میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں معاشی ترقی پر توجہ دینا اہم ضرور ت ہے مگر اس کی اہمیت ثانوی ہونی چاہئے ۔ امن کے ز مانہ میں معاشی ترقی ممکن ہے جنگ میں معیشت کمزور ہوتی ہے سرکار کو اس کا وجدان نہیں۔
جب قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے اس ترمیم کو منظور کرلیا تو ردعمل میں مسرت اور خوشی نظر نہ آئی۔ پیپلز پارٹی کے اصول پرست سینیٹر رضا ربانی اس ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر اپنے ضمیر سے شرمندہ نظر آئے۔ ان کے ضمیر کا سودا تو ان کی پارٹی اور ان کے سابق صدر نے کیا جب آپ پارٹی میں ہیں تو ایسے بیان دے کر کون سے طبقہ فکر کو متاثر کررہے ہیں۔ پارٹی کے باغی نوجوان نے جو ٹیوٹر پر بیان داغا ہے وہ بھی خوب ہے۔ پارٹی کی ناک یک ترمیم کے حق میں ہونے سے کٹ گئی مگر عوامی مفادات کی ناک کا خیال نہ آیا جس کو سابق صدر نے کبھی اہمیت ہی نہ دی اور آج جو پارٹی کا حال ہے ہر جیالا پریشان حال ہے کہ وہ کس کے در پر جاکر حال دل بیان کرے۔ ایسے موقع پر سیاسی دہشت گردی کی تعریف لازمی ہے جس نے معاشرہ میں برداشت اور برابری کے اصول کو ختم کردیا ہے۔ ایک طرف دہشت گرد جنگجو خواتین کی تعلیم کے معاملہ میں پاکستان سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ وہ عورتوں کے حقوق کو زیادتی خیال کرتے ہیں اور ان پر قدغن لگانے کیلئےا سکولوں کو بھی تباہ کردیتے ہیں۔ وہ معاشرہ میں عورت کے کردار کو حیثیت اور اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
اس اہم ترمیم کی منظوری سے پہلے وزیر اعظم پاکستان نے قومی اسمبلی میں تمام ارکان اسمبلی اور سینیٹرز صاحبان کو ناشتہ کرایا۔ ناشتہ کا مینو تو مغلیہ دور کی یاد تازہ کراتا ہے۔ ہماری اسمبلی کے ارکان اور کار سرکار کے ملازمین کے معدے بہت وسیع نظر آئے۔ پھر اسی نعمتوں کو تو ہضم کرنا بھی آسان ،عام عوام تو ایسے پرتکلف ناشتے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس موقع پر جملہ بازی اور قرابت داری بہت نظر آئی۔ وافر خوراک نے خوبصورت گفتگو میں اضافہ کیا۔ ایک صاحب جمال ممبر اسمبلی جو وزیر اعظم سے کافی فری لگ رہے تھے وزیر اعظم سے پوچھ ہی لیا،’’جناب عالیٰ! آپ نے زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا‘‘۔ وزیر اعظم نے موصوف کا سوال ان سنی کردیا مگر وہ بھی کمال کے ہوشیار تھے ٹلے نہیں، دوبارہ اصرار کیا تو وزیر اعظم صاحب نے شرارتی انداز میں پوچھا کہ آپ کیوں جاننا چاہ رہے ہیں کہ زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ہاں آج کا بتا سکتا ہوں اس ناشتہ کے حوالے سے۔ موصوف بولے ہاں سرجی تو وزیر اعظم پرمسرت لہجے میں بولے’’جو آپ نے ابھی کھایا میرا مطلب ہے جس کو گاجر کے حلوے میں ڈالتے ہیں وہ کھویا ہے پھر قہقہہ لگایا اور جس کو ابھی روغنی نان کے ساتھ کھایا وہ پایا ہے‘‘پھر پرمسرت قہقہہ لگایا اور محفل برخاست ہوگئی۔ سو اب اس ترمیم سے کیا کھوتے ہیں اور کیا پاتے ہیں اس کا انتظار رہے گا۔
تازہ ترین