• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی ایس پی پلس کے حصول پر میں کئی کالم تحریر کرچکا ہوں جس میں بتایا تھا کہ 67 سالہ ملکی تاریخ میں پاکستان کو سب سے بڑی تجارتی مراعات ’’جی ایس پی پلس‘‘ کا ملنا ہے جس کے تحت پاکستان، یورپی یونین کے28 ممالک کو یکم جنوری 2014ء سے بغیر کسٹم ڈیوٹی اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی کی یہ سہولت 10 سال کے لئے دی گئی ہے لیکن ہر 3 سال بعد اس پر نظرثانی کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ پاکستان جی ایس پی مراعات کے حصول کے لئے دستخط کئے گئے 27 عالمی معاہدوں پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کررہا ہے یا نہیں اور اگر پاکستان نے معاہدوں پر عملدرآمد نہ کیا تو یہ سہولت واپس لی جاسکتی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کی یہ سہولت کم ترقی یافتہ و کم آمدنی والے ممالک کو ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے دی جاتی ہے تاکہ یہ ممالک معاشی طور پر مضبوط ہوں اور وہاں غربت میں بھی کمی لائی جاسکے لیکن ترقی پذیر ملک ہونے اور یورپی یونین کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 1% کے بجائے 1.75% ہونے کے باعث پاکستان جی ایس پی پلس سہولت کا حقدار نہیں ٹھہرتا تھا مگر وزیراعظم کے مشیر برائے ٹیکسٹائل کی حیثیت سے میں نے اپنے دور میں جی ایس پی پلس کے حصول کیلئے کئی یورپی ممالک کے دورے کئے اور EU حکام سے متعدد میٹنگز کرکے انہیں پاکستان کو جی ایس پی پلس سہولت دینے کے لئے قائل کیا۔ اس کے علاوہ جی ایس پی پلس سہولت کے لئے میں نے ملک کے بڑے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے ساتھ میٹنگز کرکے وزارت ٹیکسٹائل اور وزارت تجارت کے ذریعے یورپی یونین کو ایک نظرثانی مسودہ بھجوایا جس میں جی ایس پی سہولت کے لئے یورپی یونین کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 1% سے بڑھاکر 2% کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس کی پاکستان میں متعین یورپی سفیروں اور برسلز میں تعینات پاکستان کے سفیر نے بھی حمایت کی تھی۔ مجھے اس وقت بے حد خوشی ہوئی جب سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے 6 نومبر 2014ء کی رات برسلز سے فون کرکے مجھے بتایا کہ یورپی یونین کی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیٹی نے میرے نظرثانی مسودے کو تسلیم کرکے پاکستان کو جی ایس پی پلس درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس پر میں نے چوہدری محمد سرور کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد دی۔
ٹیکسٹائل، ایشیائی ممالک کی معیشت کا انتہائی اہم سیکٹر ہے کیونکہ یہ سیکٹر ان ممالک میں سب سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے اور زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 12%، پاکستان میں 8.5%، ترکی میں 10%، چائنا میں 7.11% اور انڈیا میں 4% ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بنگلہ دیش کا حصہ 40% اور پاکستان میں 46% ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 88.10% اور پاکستان میں 53.79% ہے جبکہ چین کی مجموعی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 248 بلین ڈالر، بھارت کی 29.16 بلین ڈالر، ترکی 24.6 بلین ڈالر، بنگلہ دیش 21.5 بلین ڈالر، ویت نام 16.8 بلین ڈالر اور پاکستان کی 13.8 بلین ڈالر ہے۔ یورپی یونین کی جی ایس پی پلس سہولت ملنے کی وجہ سے آج بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل گارمنٹس کی ایکسپورٹس پاکستان سے زیادہ ہوچکی ہے حالانکہ بنگلہ دیش میں نہ کاٹن پیدا ہوتی ہے، نہ اعلیٰ کوالٹی کا کاٹن یارن بنایا جاتا ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر فیبرک تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر ممالک سے یارن اور ڈینم فیبرک امپورٹ کرکے گیس و بجلی کے سستے نرخوں، کم اجرتوں اور امن و امان کی بہتر صورتحال کی بدولت ویلیو ایڈیشن کے ذریعے دنیا کو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات مقابلاتی قیمتوں پر ایکسپورٹ کررہا ہے۔ گزشتہ دنوں EU، UNIDO اور وزارت تجارت نے پاکستانی ایکسپورٹرز کےلئے کراچی میں سیمینار کا انعقاد کیا جس میں مجھے بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ سیمینار کے دوران یورپی یونین کے سفیر لارس گونار ویجی مارک، وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر اور TDAP کے CEO ایس ایم منیر نے اپنے خطاب میں پاکستان کی یورپی یونین ایکسپورٹ کارکردگی اور پوٹینشل کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے شرکاء کو بتایا کہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان سے یورپی یونین کو آم کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ سیمینار کے دوران جی ایس پی پلس کے بارے میں اردو اور انگریزی میں شائع ہونے والے کتابچے کی رونمائی بھی کی گئی جس میں پاکستانی ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ میں اضافے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی ہے۔ اس موقع پرمیں نے جی ایس پی پلس کے کتابچے پر کالم تحریر کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے وزیر تجارت کو تجویز دی کہ EU کے تمام پاکستانی ایکسپورٹرز کو جی ایس پی پلس کا اردو کتابچہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اسٹینڈرڈ سرٹیفکیشن اینڈ لیبارٹری ٹیسٹنگ سے متعلق تیکنیکی معلومات سے واقف ہوسکیں۔
میں نے گزشتہ سال اپنے متعدد ٹی وی انٹرویوز اور اخباری کالموں میں بتایا تھا کہ جی ایس پی پلس ملنے کے بعد پاکستان کی ٹیکسٹائل، لیدر، فٹ ویئر اور پلاسٹک کی اشیاء کی ایکسپورٹ میں پہلے سال تقریباً ایک سے ڈیڑھ بلین ڈالر تک اضافہ متوقع ہے۔ اور یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ جی ایس پی پلس سہولت کے پہلے سال کے 10 ماہ میں پاکستان کی EU کو ایکسپورٹ میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، اس طرح پہلے 10ماہ میں یورپی یونین کو ملکی ایکسپورٹ 20% اضافے کیساتھ گزشتہ سال کے 5.3 بلین ڈالر کے مقابلے میں 6.38 بلین ڈالر ہوچکی ہے جو سال کے اختتام تک 1.2بلین ڈالر پہنچنے کا امکان ہے جبکہ اسی عرصے میں بنگلہ دیش کی EU کو ایکسپورٹ میں 13%، بھارت 8.5%، ویت نام 18% اور چین کی ایکسپورٹ میں 7% اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں گارمنٹس کی EU ایکسپورٹ میں 28%، ہوم ٹیکسٹائل میں 30% اور تولئے کی ایکسپورٹ میں 23% اضافہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر یورپی صارفین کے اعتماد کا مظہر ہے۔ پاکستان کی EU ایکسپورٹ میں بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے لہٰذا جی ایس پی پلس سہولت برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت EU کے 27 عالمی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنائے جبکہ صوبائی حکومتیں جن کے پاس 18 ویں ترمیم کے بعد بیشتر وفاقی محکمے آگئے ہیں، کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ EU کے27 عالمی معاہدوں پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کریں بصورت دیگر یورپی یونین کی3 سالہ نظرثانی پالیسی کے دوران پاکستان سے جی ایس پی سہولت واپس لی جاسکتی ہے جو ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔
تازہ ترین