• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلی مرتبہ ختم کی تھی ۔ 9مارچ 2007ء کی صبح گیارہ بجکر پچیس منٹ پر جسٹس افتخار چوہدری آرمی ہاؤس راولپنڈی پہنچے تو انہیں مہمان خانے میں بٹھا دیا گیا ۔ پانچ منٹ بعد پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھول کر صدر مشرف داخل ہوئے ۔ چند لمحوں کے بعد سرکاری میڈیا آیا ،تصویریں کھینچیں ، ٹی وی فوٹیج بنی اور پھر جسٹس چوہدری نے سارک لا کانفرنس اور سپریم کورٹ کے اختتامی گولڈن جوبلی سیشن پر بات شروع ہی کی تھی کہ صدر مشرف بول پڑے ’’مجھے پشاور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے آپ کےخلاف شکایت موصول ہوئی ہے ‘‘ میں جانتا ہوں مگر یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے ،اس غیر متوقع سوال پر حیران و پریشان رہ جانے والے جسٹس چوہدری نے جواب دیا۔ آپ کیخلاف کافی شکائتیں اور بھی ہیں اور میرے پاس بہت ساری چیزوں کے ثبوت بھی ہیں۔یہ کہہ کر مشرف نے جب اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ ’’باقی لوگوں کو بھی بلالیں ‘‘ تو وزیراعظم شوکت عزیز ،جنرل اشفاق پرویز کیانی،جنرل حامد جاوید ،میجر جنرل ندیم اعجاز اور بریگیڈ ئیر اعجاز شاہ بھی آگئے ۔ صدر مشرف دوبارہ بولے ’’ سپریم کورٹ کی گاڑیاں آپ کے خاندان کے زیر استعمال رہتی ہیں‘‘۔ نہیں یہ جھوٹ ہے،افتخار چوہدری نے جواب دیا ۔آپ مرسڈیز کارچلا رہے ہیں ،جبکہ قانونی طور پر آپ یہ کار استعمال نہیں کر سکتے۔مشرف نے کہا : یہ گاڑی وزیراعظم نے خود بھیجی تھی وہ یہاں موجود ہیں، آپ ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں ،جسٹس چوہدری نے جب یہ بتایا تو صدر مشرف نے حیرانگی سے شوکت عزیزکی طرف دیکھا ،مگر جھکے کندھوں میں ڈبل جھکے سر کے ساتھ بیٹھے شوکت عزیز نے کچھ کہنا تو درکنار آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ آپ نے لاہور ہائی کورٹ کے معاملات میں مسلسل دخل اندازی کی اور چیف جسٹس (لاہور ہائیکورٹ ) کی سفارشات جان بوجھ کر نظر انداز کیں۔صدر مشرف پھر بولے۔یہ محض پروپیگنڈہ ہے ،جس کا مقصد مجھے اور عدلیہ کو بدنام کرنا ہے ۔جسٹس چوہدری نے وضاحت پیش کی ۔ چوہدری صاحب ویسے تو میرے پاس اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں لیکن ان چیزوں میں پڑنے کا کیا فائدہ۔میرا خیال ہےکہ آپ استعفیٰ دیدیں ،مستعفی ہونے پر آپ کو کسی اہم جگہ پر لگا دیا جائے گا جبکہ انکار کی صورت میں آپ کو مشکلات کا سامنا بھی کرناپڑے گا اور شرمندگی الگ ہو گی ۔صدر مشرف کا لہجہ اب سخت ہوگیا تھا۔میں نے کسی ضابطے یا قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ قانون کا سرپرست ہوتے ہوئے مجھے اپنے اللہ پر مکمل بھروسہ ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ وہ میری مدد کرے گا ۔ استعفیٰ نہیں دوں گا اور میں تمام الزامات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں ۔جونہی جسٹس چوہدری نے بات مکمل کی تو صدر مشرف انتہائی غصے میں پہلے اٹھ کر کھڑے ہوئے پھر اونچی آواز میں یہ کہہ کر کہ ’’انہیں سب ثبوت دکھائیں‘‘ وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ کمرے سے نکل گئے۔جنرل مشرف کے جانے کے بعد جنرل کیانی، میجر جنرل ندیم اعجاز اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے کوئی ثبوت تو نہ دکھائے البتہ تھوڑی دیر بعد جنرل کیانی بولے ’’جب آپ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج تھے تو آپ نے اپنے بیٹے کیلئے بولان میڈیکل کالج سے خلاف ضابطہ سیٹ لی تھی۔آپ کی گاڑیوں میں ڈالے گئے پٹرول کی رسیدیں چیک کی گئیں تو 90فیصد جعلی نکلیں۔آپ استعفیٰ دیدیں ، اسی میں آپ کی بہتری ہے ۔پھر جنرل ندیم اعجاز نے بھی استعفیٰ کیلئے جسٹس چوہدری پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ۔اب لہجے توہین اور تحقیر آمیز ہو چکے تھے ۔مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی جب افتخار چوہدری نہ مانے تو تقریباً ایک گھنٹے بعد یہ لوگ بھی کمرے سے نکل گئے ۔ ا ن کے جانے کے بعد افتخار چوہدری بھی واپسی کیلئے اٹھے تو ایک آفیسر نے انہیں وہیں بیٹھے رہنے کو کہا اور پھر جسٹس چوہدری کو یہ پتہ بھی چل گیا کہ انہیں کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جارہا ہے۔ کیونکہ کافی دیر اکیلا بیٹھنے کے بعد جب اُنہوں نے دوسری مرتبہ جانے کی کوشش کی تو کہیں سے تقربیاً دوڑتا ہوا ایک آفیسر آگیا ۔ آپ کمرے سے باہر نہیں جاسکتے۔ جسٹس چوہدری کو دروازے پر روک کر وہ بولا ۔ گھنٹہ بھر کے بعد جسٹس چوہدری نے پھر جانا چاہا تو ایک اور آفیسرنے آکر کہا کہ ’’ ابھی آپ کو جانے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ وہ بار بار جانے کی کوشش کرتے رہے اور انہیں بار بار روکا جاتا رہا۔’’میرے پروٹوکول آفیسر کو بلادیں میں اُس سے کچھ ڈسکس کرنا چاہتا ہوں‘‘ ، جسٹس چوہدری کی اس درخواست پر جواب ملا ’’وہ یہاں نہیں آسکتا‘‘ ۔ آپ میرے اسٹاف آفیسر کو یہ پیغام ہی پہنچادیں کہ وہ گھر بتادے کہ میں آرمی ہاؤس میں ہوں اور مجھے دیر ہوجائیگی۔ لہٰذا آج لاہور جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا جائے ۔ انہوں نے جب یہ دوسری درخواست کی تو کہا گیا ’’ آپ کا کوئی پیغام نہیں دیا جا سکتا‘‘ ، پھر اسی دوران انہیں بتایا گیا کہ صدر مشرف دوبارہ آئیں گے ۔ مگر صدر مشرف تو نہ آئے لیکن انہیں مہمان خانے میں بیٹھے جب ساڑھے 5گھنٹے ہوگئے تو شام 5بجے میجر جنرل ندیم اعجاز نے آکر کہا آئیے ! میں آپ کو گاڑی تک چھوڑ دیتا ہوں ۔ پورچ میں گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے جنرل ندیم اعجاز بولے "This is a bad day" آپ کو بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان اور جج آف سپریم کورٹ کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اسی اثناء میں افتخار چوہدری نے دیکھا کہ انکی گاڑی سے پاکستان اور سپریم کورٹ کے جھنڈے اتار لیئے گئے تھے۔ پھر جونہی وہ گاڑی میں بیٹھے تو ان کا اسٹاف آفیسر رندھی ہوئی آواز میں بولا ’’سر میں نے ٹی وی پر دیکھا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے قائم مقائم چیف جسٹس کا حلف اٹھالیا ہے ‘‘۔
گاڑی آرمی ہاؤس سے نکلی تو ڈرائیور رو پڑا ’’سرہمیں سپریم کورٹ جانے سے منع کر دیا گیا ہے مجھے آپ کو گھر لے جانے کو کہا گیا ہے ‘‘۔ فکر نہ کرو اللہ بہتر کرے گا، تم سپریم کورٹ چلو، افتخار چوہدری مضبوط لہجے میں بولے۔ لیکن ان کی گاڑی اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد سے سپریم کورٹ کی جانب مڑی ہی تھی کہ آناً فاناً پولیس کی گاڑیوں نے انہیں گھیرے میں لے کر رکنے پر مجبور کردیا ۔گاڑی رکتے ہی ایک پولیس آفیسر نے آ کر کہا ’’ڈرائیور اورگن مین گاڑی سے باہرآجائیں ‘‘ جب ڈرائیور اور گن مین نے اترنے سے انکار کیا تو پولیس آفیسر نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ دونوں کو گاڑی سے باہر نکال لیں اور اس سے پہلے کہ صورتحال خراب ہوجاتی جسٹس چوہدری نے پولیس آفیسر سے کہا کہ’’ اوکے ہم سپریم کورٹ نہیں جاتے ، گھر چلے جاتے ہیں ‘‘ ۔پولیس پیچھے ہٹی اور 5بجکر 45منٹ پرجب افتخار چوہدری گھر پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس بیسوؤں اہلکاروں نے ان کا گھر چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔تمام ٹیلی فون ڈیڈ ہو چکے تھے ۔ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کنکشن کاٹ دیئےگئے تھے، نہ کوئی گھر کے اندر آسکتا تھا اور نہ کسی کو گھر سے باہرجانے کی اجازت تھی ۔ اوریوں نہ صرف چیف جسٹس آف پاکستان اپنے خاندان سمیت نظربند ہو گئے بلکہ پوری دنیا سے ان کا رابطہ بھی منقطع ہو گیا ۔ اس سے آگے جو کچھ ہوا وہ آپ سب جانتے ہیں لیکن یہ اور باقی سب کچھ جسٹس چوہدری کی اُس کتاب میں آنے والا ہے جو اب لکھی جارہی ہے۔ اسی کتاب میں ہے کہ جب وہ گھر پہنچے تو اہل خانہ کی حالت کیا تھی ،پہلی رات کیسے گزری ،کیسے ان کے 7سالہ بیمار بچے کی دوائیاں روک لی گئیں، کیسے ایک بیٹی کالج اور دوسری یونیورسٹی کے پیپر دینے نہ جاسکی اور ان کے گھر کے پرانے ملازمین کو کیوں اٹھالیا گیا۔ آپ اسی کتاب میں پڑھیں گے کہ جب چوہدری شجاعت انہیں ملنے آئے تو باہر کیا ہو رہا تھا ۔ سندھ ہاؤس سے لمحہ بہ لمحہ انہیں کس کے کہنے پر مانیٹر کیا جاتا رہا ۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں کیا پیغام بھجوایا ۔
وہ چیف جسٹس ہاؤس کیوں آئیں،اعتزاز احسن انہیں زرداری صاحب سے ملوانے کیوں لےگئے ،وہاں کیا باتیں ہوئیں۔نظر بندی کے دوران وہ کِن حالات سے گزرے ،انہیں کیا کیاپیشکشیں ہوئیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان اور ریاض ملک کی کہانی کا دوسرا رخ کیا ہے ۔ چیف جسٹس بحالی تحریک کے قائدین کیوں بدل گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے کِس کِس کی زندگی سنور گئی ۔شروع کے دنوں میں جج صاحبان کا رویہ کیسارہا ، جسٹس چوہدری کا بیٹا ساری ساری رات چھت پر پہرہ دینے پر کیوں مجبور ہوا ،چوہدری صاحب پیدل سپریم کورٹ جانے کیلئے محصور گھر سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے ، بلوچستان ہاؤس کے سامنے مشہور زمانہ ’’پولیس گردی ‘‘ سے پہلے سابق وزیراعظم جمالی انہیں کہاں لے گئے ، وہاں کیا گفتگو ہوئی۔ جسٹس چوہدری نے جمالی صاحب سے کیا فرمائش کی اور جمالی صاحب نے مسز افتخار چوہدری کو واپس گھر کیوں بھیج دیا ۔ اسی کتاب سے آپ کو پتہ چلے گا کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ جسٹس چوہدری شعیب سڈل کو چیئر مین نیب لگوانا چاہتے تھے ۔عمران خان کے الزامات میں کتنی سچائی ہے۔ موجودہ صورتحال پر وہ کیا سوچتے ہیں ، اب کی جوڈیشری پر ان کو تحفظات کیوں ہیں اور کل تک ان پر جانیں وار دینے کی باتیں کرنے والے آج خاموش کیوں ہیں ۔ یہ کتاب جسٹس چوہدری کا سچ ہے، یہ سچ آنے والا ہے اور مجھے اتنا تو یقین ہے کہ جب یہ سچ آئے گا تو آپ اپنے ضمیر کی پارلیمنٹ میں تیئسویں ترمیم لانے پر مجبور ہوجائینگے۔
تازہ ترین