پاکستان پیپلزپارٹی اپنی سیاسی جبلت میں ملک کی سب سے زیادہ طاقتور نظریاتی اور سیاسی جماعت ہے۔ 1967، نومبر 30کو، اپنے یوم تاسیس سے لے کر آج تک پی پی کی تاریخ مصائب و شدائد سے المناک حد تک بھری ہوئی ہے۔ یہ سب سے زیادہ طاقتور نظریاتی اور سیاسی جبلت ہی ہے جس کے پس منظر میں ایوب خان، ضیا الحق، نواز شریف، پرویز مشرف، وطن کے تمام مذہبی گروہ، جماعتیں اور عناصراس پارٹی کو نہ صرف معدوم نہیں کرسکے بلکہ اس دھرتی اور عوام سے اس کے انمٹ قدرتی رشتے کی بنیادوں کو بھی کمزور نہیں کیاجاسکا۔ بحران یا ضعف پارٹی کی اس سیاسی جبلت میں نہیں بحران یا ضعف دراصل قریب ترین گزرے حکومتی دورانئےمیں پارٹی کی مرکزی قیادت کے نقطہ نظر میں، ایک منزل کا انتہاپسندانہ تعین تھا،اس کے حصول میں جنون کی حد تک پہنچ جانااور اس دوران میں متعدد ذمہ دارپارٹی رہنمائوں اور افرادکی جانب سے اپنے حکومتی افعال و کردار میں حددرجہ غیرذمہ داری ا ور مالی بدکرداری کے پاگل پن سے پارٹی کی نظریاتی عمارت کے د ر و دیوار میں زوال کا ڈائنامیٹ رکھنے سےہے۔ مرکزی قیادت اس ساری مدت میں اس غیرذمہ داری اور مالی بدکرداری کے پاگل پن کی طرف قطعی توجہ نہ کرسکی!
اب سوال یہ ہے وہ کون سی منزل کا انتہاپسندانہ تعین تھا جس کے حصول میں معاملہ جنون کی حد تک پہنچ کر باقی تمام حکومتی ذمہ داریوں سے عدم توجہ یا اغماض برتنے کا موجب بنا۔ وہ منزل تھی ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کا عوام کے ووٹوں سے کسی منتخب سول حکومت کا اپنے آئینی عہد کی تکمیل کا خواب، ’’صدر‘‘کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا قومی بحران جس کے نتیجے میں یہ ملک اپنے نظام اور رویوں میں کینسرزدہ ہوچکاہے، اس کا صرف اور صرف ایک سبب تھا، منتخب آئینی حکومتوں کا عوامی حق غصب کیا جانا، فوجی یا غیرنمائندہ حکومتوں کی تشکیل..... ’’صدر‘‘کی تشخیص سوفیصد درست تھی، لیکن اس سو فیصد درست میں ایک جانب پلڑا بہت جھک گیا۔ مخالف میڈیا ،سازشوں اوربدخواہوں کو قدرت موقع دے، انہوں نے حسب سرشت پیپلزپارٹی کے آبائو اجداد کی قبریں تک کھود ڈالیں۔ گورکنی میں تو ان کا جواب نہیں!
’’صدر‘‘کی رہنمائی کے سائبان تلے ان متعدد پارٹی رہنمائوں، وزراء اور افراد نے پیپلزپارٹی کی شہ سواری کا ہر راستہ نوکیلے اور زہریلے کانٹوں سے بھر دیا، عوام کے تمام مسائل اور عوام سے مکمل رابطے کا میکنزم، چاروں صوبوں میں اس لعب و لالچ کےگرداب میں پھنس کر رہ گیا۔ گورکن چاروں اور اپنے پھائوڑے لے کر پیپلزپارٹی کے عوامی امیج پر پل پڑے، دیکھتے ہی دیکھتے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا سارا بوجھ اس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، رہی سہی کسر پاکستان میں موجود مذہبی دہشت گردوں کی دھمکیوں اور حملوں نےپوری کردی، چونکہ پارٹی کے عہدیداروں میں نظریات کے بجائے صرف اورصرف مادیات نے پنجے گاڑھے تھے اس لئے شجاعت اور شہادت کے بجائے خود حفاظتی کے جرثومےاور خو ف کی لہر نےپیپلزپارٹی کے فعال حصے کو اپنے گھروں میں دبکے رہنے کی راہ دکھلا دی۔ 2013 کے عام قومی انتخابات کے بین الاقوامی تناظر اور وطن عزیز کی ’’پراسرار انتخابی نقشہ گری‘‘ کے پس منظر میں پیپلزپارٹی، گرائے جانے کی حدتک گرائی گئی مگر چت نہ کی جاسکی، جیسا کہ عرض کیا:’’پاکستان پیپلزپارٹی اپنی سیاسی جبلت میں ملک کی سب سے زیادہ طاقتور اور نظریاتی سیاسی جماعت ہے‘‘.....پیپلزپارٹی کی عوام اور دھرتی کےساتھ اس کمٹمنٹ کی یہ ناگزیر طاقت، البتہ اب سوالیہ نشان بنتی دکھائی دیتی ہے جس کی اصولی جہتوں کا تجزیہ ایک مکمل جداگانہ حقائق نامہ سامنے لاتا ہے، باقی جو کچھ مخالف میڈیا، سیاسی مخالفین حتیٰ کہ ہمدردوں کےسوز و سازدروں کی جانب سے کہا جارہا ہے، وہ سب تراشیدہ کہانیاں اور اندازے ہیں، یہ کہانیاں جس دور میں جیسی بھی تھیں، ان کی تعداد شاید سینکڑوں میں اور مقدار شاید پہاڑوں کےبرابر رہی، مگر یہ تعداد اور مقدار ہمیشہ ریت کے انبار ثابت ہوئیں۔ ہر انتخابی آزمائش میں پاکستانی عوام نے اسے پھونکوں سے اڑا دیا۔ معاملہ صرف 2015میں اس نقطہ نظرسے زیادہ تشویشناک ہے جس کے باعث پیپلزپارٹی عوامی عدالت کی امیدوں کے چراغ بجھاتی جارہی ہے!
یہ جو ’’صدر‘‘آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے اختلافات کے قصے، قصہ چہاردرویش کی طرح مرصع و مسجع کئے جارہے ہیں۔ غنویٰ بھٹو ، فاطمہ بھٹو، ذوالفقار جونیئر، آصفہ، بختاور، صنم بھٹو، مخدوم امین فہیم کی کوششیں وغیرہ وغیرہ ، مزید بھی وغیرہ ، کے پتواروں سے پیپلزپارٹی کی سنسنی خیز تباہی کی داستانوں کا بازار لگایا جاتا ہے ان میں سچائی، حقیقت یا معروضیت صرف آٹے میں نمک کے برابر رہی۔ اس سے زیادہ ان داستانوں کی کبھی کوئی حیثیت نہیں تھی نہ ہے۔ ہمارے دانشوروں سے لے کر عام پاکستانی تک میں لذتیت کا ذہنی مرض سدا اپنے عروج پر رہا۔ پیپلزپارٹی کے معاملے میں تو اس کمبخت عادت نے ایسے ایسے دیوزاد افسانے گھڑے جنہوں نےخود لفظ ’’افسانے‘ ‘ کا بیڑا غرق کردیا۔ جہاں تک بلاول بھٹو اور ’’صدر‘‘زرداری کے مابین اختلافات کا تعلق ہے ، پیپلزپارٹی کے سلسلے میں نہایت منصف مزاج تجزیہکار میرے صحافتی کولیگ، شاہد جتوئی نے حددرجہ شفاف تصویر کشی کی ہے۔ لکھتے ہیں:۔
’’جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی اپنے والد سے اختلافات کی خبروں کا تعلق ہے، باپ اور بیٹے کے درمیان ان کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ اصل حقائق کو سمجھنے کے لئے ہمیں دنیا خصوصاً اس خطے کے سیاسی خانوادوں (Political Dynasties) کی تاریخ اور پیپلزپارٹی کی اپنی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ہوگا۔ ڈائنسٹیز میں باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات کی کوئی مثال نہیں ہے۔ بھٹو ڈائنسٹی کے نئے وارث بلاول بھٹو زرداری کے اپنے والد کے ساتھ اختلافات کا نہ تو کوئی جواز نظرآتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہوسکتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو ڈائنسٹی کو چلانے کی تمام تر ذمہ داری آصف علی زرداری کے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ انتہائی غیرمعمولی صورتحال میں پیپلزپارٹی کی قیادت مجبوراً تبدیل ہوئی۔ جس طرح ہر ڈائنسٹی میں قیادت تبدیل ہونے پرکچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح پیپلزپارٹی میں بھی مسائل پیدا ہوئے۔ آصف علی زرداری اپنی نئی ٹیم لے کر آئے۔ محترمہ بینظیربھٹو کے ساتھ جوٹیم تھی اس کی پارٹی امور میں مداخلت کم یا ختم ہوگئی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے آخری دنوں میں یہ محسوس کرلیا تھا کہ پیپلزپارٹی میں کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کر رہے ہیں اور انہوں نےاس ضمن میں چار کے ٹولے کی نشاندہی بھی کی تھی۔ وہ اس ٹولے کو ’’آب پارہ کے لوگ‘‘ کہتی تھیں۔ انہوں نے پارٹی میں تطہیر کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن ان کی شہادت کی وجہ سے یہ کام ادھورارہ گیا۔اگرچہ آصف علی زرداری نے بھی ان لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کی لیکن وہ ان لوگوں کو قریب نہ لاسکے جو محترمہ بینظیربھٹو کے بہت قریب تھے۔‘‘
شاہد جتوئی کا پیش کردہ سیاسی ڈرافٹ خیالی نہیں واقعاتی ہے۔ حقائق کی تصدیق اور دلائل اس کی معاونت کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ’’چار کے ٹولے‘‘ رہے اور پیپلزپارٹی میں یہ چار کے ٹولے ہمیشہ ناکام بھی رہے۔ پیپلزپارٹی کو بے حد و حساب جان لیوا مراحل میں پارٹی کے بڑے بڑے ’’ڈائناساروں‘‘، نے دھوکہ دیا یا کسی اور سبب سے آگ میں کودنے سے انکارکردیا، پیپلزپارٹی ’’چار کے ٹولوں‘‘ کی طرح ان سیاسی بےاصولوں اور وفاکشوں کی کارروائیوں کے باوجود بھی قائم رہی بلکہ پورے طمطراق کے ساتھ قائم رہی۔ اس لئے جیسا کہ عرض کیا : ’’پاکستان پیپلزپارٹی اپنی سیاسی جبلت میں ملک کی سب سے زیادہ طاقتوراور نظریاتی سیاسی جماعت ہے۔‘‘ ’’صدر‘‘نے لاہور میں یونہی نہیں کہہ دیا تھا ’’جو جانا چاہتا ہے چلا جائے‘‘ یہ کوئی مجہول نعرہ بازی نہیں تھی سیاسی جیومٹری کے ادراک کا اظہار تھا۔ دوسری جماعتیں ان جانے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول کر ان کی منتظر نہیں ہیں، ان میں سے کسی کو شاید Back Benches پر بھی جگہ نہ مل سکے۔ یہ زیادڈہ تر رنگ بازی ہوتی ہے۔ ایک مثال شاہ محمود قریشی کی ہے۔ وقت گزر رہا ہے۔ مزید گزرتا جائے گا، آپ ایک دن ان شاہ محمود قریشی کو دوبارہ پی پی کے پلیٹ فارم کی یاد میں اپنی حویلی کے کسی کونے میں اپنے عروج کا نوحہ پڑھتا دیکھیں گے۔ عاجزؔ کا یہ کالم رکھ لیں اور صرف انتظار کریں!
چنانچہ ’’صدر‘‘زرداری اور بلاول بھٹو کے اختلافات مخالفین یا کم نظروں کی ذہنی تراشیدگیوںکا مظہر ہے۔ تاریخی قومی جماعت ایسی مجلس آرائیوں سے بھربھری نہیں ہوتی جو محض وقت گزاری کا ایک لذیذ شغل ہے۔