• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں مودی سرکار کی آمد کے بعد جس تواتر کے ساتھ پاکستان کو دھمکیاں دینے، کشمیر کی کنٹرول لائن اور پاک بھارت بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزیوں، کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے نت نئے ہتھکنڈے آزمانے اور اپنے ہی لوگوں کیخلاف بے رحمانہ طورپر سانحات تخلیق کرکے پاکستان کی طرف انگلیاں اٹھانے کا روایتی بھارتی حربہ بروئے کار لایا جارہا ہے اس سے پورے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے جنونی عزم کے اندیشے سر ابھار رہے ہیں۔ نریندر مودی ایک طرف بزعم خود پاکستان کو تنہا کرنے کی مہم شروع کرچکے ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اب جنوبی ایشیائی ملکوں کی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) ان کے نشانے پر آگئی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئٹ میںحالات سازگار نہ ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ درحقیقت بھارتی حکمران ایسی ہر صورتحال سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس میں پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے ازخود سلام و کلام کی یاد دوستوں کی کوششوں سے مل بیٹھنے کے امکانات پیدا ہوں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نے خود شرکت کرنے کی بجائے اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ کشمیر کے بارے میں دنیا کے سامنے غلط بیانی کریں ۔ سارک سربراہی اجلاس میں شرکت کی صورت میں کشیدگی کم کرنے کا ایسا موقع پیدا ہوسکتا تھا جیسا 2004ء میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آمد پر ہوا تھا مگر شری نریندر مودی نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے جنوبی ایشیائی ملکوں کو باہمی تعاون کے اس راستے پر چلنے سے ایک بار پھر روک دیا جس پر پیش قدمی میں بھارت ماضی میں بھی رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر میں دراندازی اور مداخلت ہورہی ہے مگر یہ مداخلت سات عشروں سے خود نئی دہلی کی طرف سے خطے کے تمام ملکوں میں ہورہی ہے۔ یہ مداخلت حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مانا ودر، مانگرول، گوا،دیواور دمن کے سقوط سے ہوتی ہوئی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے اور بعض ہمالیائی مملکتوں کو عملاً طفیلی ریاست بنانے کی صورت میں دنیا نے دیکھی ہے۔ رہی پاکستان کو تنہا کرنے کے اعلانات کی بات۔ تو اس کا ایک اندازہ مودی حکومت کی اتحادی جماعت شیوسینا کے ترجمان رسالے ’’سامنا‘‘ میں کئے گئے اس شکوے سے ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے بھارت کو تنہا کردیا ۔شوسینا کا موقف ہے کہ اوڑی واقعہ پر عالمی رہنمائوں کے ردعمل کا فقدان، پاک روس مشترکہ جنگی مشقیںجاری رہنا اور مسلم ممالک کی طرف سے پاکستان کی کھل کر حمایت مودی حکومت کی ناکامی ہے۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کا تاثر دینے والوں کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے اس انتباہ کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائیگا۔ مشیر خارجہ نے یہ انتباہ منگل کے روز قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کی منظوری کے موقع پر دیا جس میں بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے یواین جنرل اسمبلی اجلاس میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کو حقائق کے منافی قرار دیا گیا اور واضح کیا گیا کہ کشمیر اب بھی ایک متنازع اور حل طلب مسئلے کے طور پر جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ بھارتی دانشوروں کو جنگی جنون میں مبتلا اپنے حکمرانوں کو سمجھانا چاہئے کہ مستحکم امن ہی ترقی اور خوشحالی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ جنگ ہوئی تو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک بھارت ہوگا۔ یہ بات بھی سمجھائی جانی چاہئے کہ پاکستان کا پانی بند کرنے کے اعلانات چین کے سامنے ایک بری مثال پیش کریں گے جو کسی معاہدےکے بغیر بین الاقوامی روایات کے تحت ستلج اور برہم پترا سمیت بھارتی دریائوں کے پانی میں رکاوٹ ڈالنے سے اجتناب برتتا رہا ہے۔


.
تازہ ترین