• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے ماضی میں بھی متعدد تاریخیں دی گئیں۔ جو آئیں اور گزر گئیں۔ جس سے حکومت کی سبکی ہوئی۔ 31؍دسمبر 2016ء کی تاریخ دیتے ہوئے تو خاص طور پر کہا گیا تھا کہ یہ ڈیڈ لائن حتمی ہے اور اس کے گزرنے کے بعد کوئی افغان مہاجر ارض پاک پر دکھائی نہیں دے گا۔ مگر ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ معین تاریخ سے چار ماہ پہلے ہی اسے 31؍مارچ 2017ء تک بڑھا دیا گیا۔ کیونکہ قرآئن بتاتے ہیں کہ اختتام مارچ تک کم و بیش 25؍لاکھ افغانوں کو وطن بھجوانا عملی طور پر ممکن نہیں۔ ان 25؍لاکھ میں سے 15؍لاکھ رجسٹرڈ تو ضرور ہیں، مگر ایک جگہ، مجتمع نہیں۔ باقی دس لاکھ کی تو کوئی لکھت پڑھت ہی نہیں، جو جنگ زدہ افغانستان سے نکلے اور بہتر مواقع کی تلاش میں پاکستان بھر میں پھیل گئے۔ انہوں نے یہاں رشتہ داریاں بنالیں، رہائشی اور کمرشل جائیدادیں خرید لیں، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لے لئے اور بعض نے تو سرکاری ملازمتیں بھی حاصل کرلیں۔ پاکستانی سماج میں یوں رچ بس جانے والے ان افغانوں کی کھوج ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ اور نادرا شاید ہی یہ معجزہ برپا کرپائے۔ سرکار کی مجبوریاں اپنی جگہ، کہ بہت ہوچکی مہمان نوازی۔ مہمانوں کو اب گھر جانا چاہئے، جن کی نگہداشت سے بین الاقوامی ایجنسیاں ہاتھ کھینچ چکیں، اور جو پاکستان کے وسائل پر ناقابل برداشت بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ وطن واپسی پروگرام کو دلکش بنانے کے لئے کچھ عملی اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ اول یہ کہ اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی نے رضاکارانہ طور پر وطن لوٹنے والوں کے لئے امدادی پیکیج دگنا کردیا ہے۔ اب انہیں دو سو کی بجائے چار سو ڈالر ملیں گے۔ دوم، حکومت پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ مہاجر کیمپ افغانستان منتقل کئے جانے کی صورت میں گزارے کی گندم انہیں تین برس تک مفت ملتی رہے گی۔
وطن واپسی کے حوالے سے مہاجرین کے اپنے تحفظات و خدشات ہیں۔ جن کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں اور جو بادی النظر میں کچھ غلط بھی نہیں۔ ان کا اولین خدشہ کابل سرکار کی کیپسٹی کے حوالے سے ہے۔ کہ کیا اس میں اتنی سکت ہے کہ 15/20لاکھ افغانوں کی وطن واپسی پر پیش آنے والے انتظامی، اقتصادی، نفسیاتی اور سیکورٹی مسائل سے نمٹ پائے؟ انہیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ چار دہائیوںبعد کی وطن واپسی سے پیدا ہونے والے تمدنی اور نفسیاتی مسائل سے بڑی عمر کے لوگ تو شاید نمٹ لیں، مگر پاکستان میں پیدا ہوکر جوان ہونے والی نسل کے لئے یہ صدمہ تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اپنا وطن سمجھنے والی وہ نسل افغانستان کے ساتھ ذہنی اور جذباتی رشتہ استوار نہ کر پائے گی۔ شناخت کا یہ بحران انہیں مرتے دم تک ہانٹ کرتا رہے گا۔ انہیں یہ شکایت بھی ہے کہ ان کی واپسی کی خبروں نے پاکستان میں ان کے کاروباری معاملات کو الجھا دیا ہے۔ ’’جو ہمارے مقروض ہیں، وہ ہمارا فون نہیں اٹھاتے، کہ بس دو چار مہینوں کی بات ہےکہ یہ چلے جائیں گے۔ اور جن کا ہم نے کچھ دینا ہے، ان کی پھرتیاں دیکھنے کے لائق ہیں۔ مہینے، ہفتے کجا، وہ تو ہمیں دنوں اور گھنٹوں کے حساب سے الٹی میٹم دے رہے ہیں‘‘۔ انہیں اس بات کا بھی غم ہے کہ ان کی وفاداری اور حب الوطنی یکایک مشکوک ہوگئی ہے۔ پاکستان میں انہیں سیکورٹی رسک اور انڈین ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے تو خود کابل سرکار بھی اپنی تمام تر لپ سروس کے باوجود انہیں آئی ایس آئی کے لوگ خیال کرتی ہے۔ جذباتی قسم کی مخلوق تو مہاجرین کے ایشو کو لے کر بہت آگے تک چلی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم تو ڈیورنڈ لائن کو مانتے ہی نہیں۔ اس لکیر نے پشتونوں کو زبردستی تقسیم کر کے رکھ دیا ہے، مصیبت کے وقت اگر وہ ’’نام نہاد‘‘سرحد کے اس جانب چلے آئے، تو کچھ غلط نہیں کیا، گھر واپسی کسی کو بری نہیں لگتی۔ مگر افغانستان میں تو ہماری زندگیاں محفوظ ہیں اور نہ کچھ کھانے کو ہے۔ 12؍لاکھ کے لگ بھگ افغان تو پہلے ہی اپنے وطن میں غریب الوطن ہیں۔ ان کی زندگی خانہ بدوشوں سے بھی بدتر ہے، جو خوراک اور سلامتی کی خاطر مارے مارے پھر رہے ہیں۔زیادہ دن نہیں گزرے ہرات کے قریب ایک کیمپ میں مقیم فیملیز نے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں سے اپیل کی تھی کہ انہیں ان اذیت گاہوں میں رکھنے کی بجائے جیل بھجوا دیا جائے۔ جہاں کم از کم روٹی اور رہائش تو میسر ہوگی۔
قرآئن بتاتے ہیں کہ موجودہ توسیع بھی حتمی نہیں۔ پندرہ لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین کو افغانستان منتقل کرنا چنداں آسان نہیں۔ مل ملاکر چھ مہینے کی ڈیڈ لائن ہے۔ اور وطن واپس لوٹنے والے افغانوں کی تعداد ہنوز ہزاروں میں ہے۔ جنگی بنیادوں پر بھی کام کیا گیا، تو مزید دو برس تو ضرور لگ جائیں گے۔ ایسے میں پاکستان سرکار کو تحمل سے کام لینا ہوگا۔ جہاں 35؍برس صبر کرلیا، وہاں تھوڑا اور سہی۔ ماضی میں جب بھی افغان مہاجرین کی مراجعت کی بات چلی، ہم نے ہمیشہ اسے عزت اور آبرو "dignity and honour" سے مشروط کیا اور یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا رہا ہے We want them return with dignity and honor: پاکستان کے سفارتی حلقے اب بھی اس پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کو متنبہ کرچکے ہیں کہ اس معاملے میں زور زبردستی مناسب نہیں۔ ورنہ عالمی برادری طعنہ دے گی کہ جب تک غیرملکی امداد کی فراوانی رہی، اسلام آباد میں شادیانے بجتے رہے۔ اور جونہی امداد کے سوتے خشک ہونا شروع ہوئے، عزت و آبرو dignity and honour والا عنصر بھی کہیں پس منظر میں چلا گیا۔ اور نوبت بہ اینجا رسید کہ ماضی کے ’’معزز مہمانوں‘‘ کو دھکے دے کر سرحد پار دھکیلنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے بہت سبکی ہوگی اور پاکستان کی چار دہائیوں کی کمائی کھوہ کھاتے چلی جائے گی۔ بھارت کے ساتھ تنائو میں اضافہ کے علی الرغم خطے کی موجودہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ افغانستان، بالخصوص مہاجرین کو ہرگز ناراض نہ کیا جائے، جو عدم تحفظ کا شکارہوکر پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ جہاں 35؍برس صبر کرلیا، دو چار برس اور بھی کرنا پڑے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔


.
تازہ ترین