• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رائٹر کی ایک خبر کے مطابق ہالینڈ میں 10سال کے دوران مذہبی رواداری اور عدم برداشت میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے اور اب ہالینڈ کے لوگوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ رائے سرکاری ملازمین کے ہفت روزہ اخبار کے ایک سروے میں سامنے آئی ہے۔ دوسال قبل ایسے ہی سروے میں لوگوں نے اس پابندی کی کھل کر حمایت نہیں کی تھی لیکن اس بار 533جواب دہندگان میں سے اکثریت نے سرکاری ملازمین کے ہیڈ ا سکارف پہننے پر پابندی کے حق میں رائے دی ہے۔ 58 فیصد جواب دہندگان چاہتے ہیں کہ مقامی حکام سرکاری ملازمین کےہیڈ سکارف پر پابندی لگائیں جبکہ 83فیصد مزید اسلامی لباس پر پابندی لگانے کے حق میں ہیں ۔ اسی کے ساتھ جڑی ہوئی رائٹر ہی کی ایک اطلاع کے حوالے سے ایک بُری خبر یہ ہے کہ ہالینڈ کے عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ہالینڈ میں بھی پشاور اور بمبئی کی طرح کے حملے ہوسکتے ہیں۔ ہالینڈ میں ایک ملین سے زائد مسلمان قیام پذیر ہیں چند سال قبل فلم میکر اور دانشور تھیو فان فوخ کے قتل کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔ ادھر ہالینڈ کے ہمسایہ جرمنی میں مسلمانوں نے استانیوں کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں ناقابل قبول ہیں کیونکہ اسکولوں میں عیسائی علامات استعمال کرنے کی اب بھی اجازت ہے۔ ریاست کے پابندی کے فیصلے سے جرمن قانون میں تمام مذہب کو دی گئی آزادی اور مساوی سلوک کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے کہ اسلام عورتوں سے غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے۔ مسلمان حجاب نہ پہننے پر امتیاز کی اتنی ہی مذمت کرتے ہیں جتنا ان عورتوں کے ساتھ امتیاز کی مذمت کرتے ہیں جو اپنی مرضی سے حجاب پہنتی ہیں۔ جرمنی نے اسکولوں میں استانیوں کے حجاب پہننے پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی تھی کہ حجاب خواتین پر جبر کا ایک سمبل ہے۔ جرمنی کی آئینی عدالت نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ جرمنی کی ہر ریاست اسکولوں میںا سکارف کے بارے میں خود فیصلہ کرے اس پر 16میں سے 10فیڈرل ریاستوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کلاسوں میں حجاب پر پابندی لگائیں گی۔ ایسے ہی مسائل نے یورپ میں ایک تنازع کھڑا کررکھا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو یورپی معاشرہ میں مدغم کرنے پر تقسیم اجاگر ہورہی ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی رکھنے والے ملک فرانس نے مذہبی علامات کے استعمال اور حجاب پہننے کے بارے میں جو گائیڈ لائنز جاری کررکھی ہیں۔ ان میں اسکارف، یہودی ٹوپی اور بڑی صلیب پر پابندی ہے لیکن سکھوں کی پگڑی پر پابندی نہیں لگائی گئی یہ اس قدر مبہم ہے کہ ان سے طلباء اور اسکولوں کی انتظامیہ کے درمیان اکثر تنازع کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ فرانس نے جب سے یہ قانون منظور کیا ہے اسکولوں کی پرنسپلوں کی یونین کا کہنا ہے کہ گائیڈ لائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کو کئی طریقوں سے موڑا جاسکتا ہے اور ہر کوئی قانون کی مختلف توجیہات نکال رہا ہے۔ اسکول ٹیچرز نے کہا ہے کہ وہ گائیڈ لائنز کے مسودہ کی منظوری کے سلسلے میں اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں۔ ادھر ’’گریٹ بریٹن‘‘ نے اپنی گریٹنس دکھاتے ہوئے برطانوی اساتذہ کو حجاب کے حوالے سے فرانس کی تقلید نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ نیشنل یونین آف ٹیچرز نے برطانیہ بھر کے ٹیچرز کو وارننگ دی ہے کہ اسکولوں میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی سے نسل پرستی کیخلاف جنگ کو زبردست دھچکا لگے گا۔ یونین نے کہا ہے کہ کلاسوں میں حجاب سمیت دوسری نمایاں مذہبی علامات پر فرانس کی پابندی کی تقلید نہ کریں اور فاشسٹ نسل پرست برٹش نیشنل پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف جنگ لڑیں۔ نیشنل یونین آف ٹیچرز کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے مسلمان یورپ میں خطرہ بنتے جارہے ہیں اور ان کی ثقافتی علامات غالب آتی جارہی ہیں۔ یونین کا کہنا ہے کہ ہمیں بچوں کو ایک مخلوط النسل معاشرہ میں رہنے کے لئے تیار کرنا ہوگا اور یہ کہنا بے عقلی ہے کہ حجاب یورپ میں جبر کی علامت ہے۔
تازہ ترین