• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم صحرائے تھر کے دورے سے واپسی کے فوراً بعد لکھا جا رہا ہے ۔ یہ وہ ریگستان ہے ، جسے ہمارے دوست سعید خاور نے ’’ پیاس اور افلاس کا صحرا ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ بھوکے اور تسّے لوگوں سے نہ جانے کیوں ایک رومانوی رشتہ محسوس ہوتا ہے ۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ فرماتے ہیں ’’ فرید درد ہمیشہ ہونا چاہئے کیونکہ اس سے دوئی ( انسانوں کی تقسیم ) کا پاپ ( گناہ ) دھل جاتا ہے اور ہمیشہ اس بات کی خواہش اور بے قراری رہتی ہے کہ پریم نگر پہنچا جائے ‘‘ ۔ جیسے ہی گاڑی تھر کے علاقے میں داخل ہوتی ہے ، وہاں پہلی دفعہ جانے والوں کو ہر گاڑی کا ڈرائیور یہ خوش خبری سناتا ہے کہ اب اس علاقے میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اس صحرا میں اگرچہ زندگی گذارنا بہت مشکل ہے لیکن یہاں انسان سب سے زیادہ محفوظ ہے ۔ ویران علاقوں میں ، جہاں دور دور تک کوئی انسانی آبادیاں نہیں ہوتیں ، ریت کے ٹیلوں پر جانور اکیلے گھوم رہے ہوتے ہیں اور شام کو اکیلے واپس اپنے مالک کے ہاں چلے جاتے ہیں ۔ وہاں کے 90 فیصد لوگوں کا گذر بسر مال مویشی پر ہے اور یہ مویشی ان کی اصل متاع ہیں لیکن یہ متاع چوری نہیں ہوتی ۔ پیاس اور افلاس کا یہ صحرا وہاں آنے والے لوگوں کو سب سے پہلے یہ پیغام دیتا ہے کہ یہاں کے ’’ مارو ‘‘ اور ’’ مارویاں ‘‘ بادشاہوں سے بھی زیادہ دل کے امیر ہیں ۔
ماروی کے اس دیس کے دورے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ہمارے صحافی دوست خصوصی مہمان تھے تاکہ انہیں زمین پر یہ دکھایا جا سکے کہ سندھ حکومت تھریوں کے لیے کیا کر رہی ہے ۔ اس دورے کا انتظام پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر تاج حیدر نے کیا تھا ۔ تاج حیدر جس طرح تھریوں کے لیے کام کر رہے ہیں ، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسکین جہان خان کھوسو کا دوسرا جنم ہیں ۔ مسکین جہان خان کھوسو تھرکا ایک عظیم کردار ہے ۔ انہوں نے ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں تھر کے غریب لوگوں کے حقوق کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی ۔ وہ تھر کے سرحدی شہر ننگر پارکر سے سفر کرتے ہوئے راستے میں تمام گوٹھوں اور قصبوں میں سائلوں کی فریادیں سنتے اور میرپورخاص اورکبھی کبھی حیدر آباد تک چلے جاتے اور انگریز حکمرانوں سے تھریوں کو انصاف اور بنیادی سہولتیں دلانے کے لیے کوشش کرتے ۔ سینیٹر تاج حیدر رات دن اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے تھر کے باشندوں اور میڈیا میں ان کا بہت احترام ہے ۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ تھر کے ایشوز پر انہیں آگے لے آتی ہے ۔
تھر کے مسائل کی کہانی بہت پرانی ہے ۔ اس علاقے میں قدرتی طور پر پانی کے وسائل نہیں ہیں اور تھریوں کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اسی سے باقی سارے مسائل جڑے ہوئے ہیں ۔ پانی زندگی ہے ۔ تھریوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پانی کے بغیر زندگی گذاری۔ تپتے ہوئے صحرا میں تھری ریت کے ٹیلوں پر ’’ چنورے ‘‘ بنا کر رہتے ہیں ۔ ’’ چنورا ‘‘ تھریوں کا گھر ہے ۔ گولائی میں کچی دیوار کھڑی کی جاتی ہے ۔ اس کے اوپر ٹوپی نما گھاس پھوس کی چھت ڈال دی جاتی ہے ۔چھوٹا سا دروازہ بھی ہوتا ہے اور ہوا کے لیے دیوار میں سوراخ بھی ہوتے ہیں ۔آبادیاں بہت دور دور تک ہوتی ہیں لیکن لوگوں میں قربت بہت زیادہ ہے ۔ لاہور کے کچھ صحافی دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ تھر کے باشندوں کی زندگی اس قدر مشکل ہے ۔ یہ لوگ کسی دوسری جگہ ہجرت کیوں نہیں کر لیتے ؟ اس سوال کا جواب صرف یہ ہے کہ تھر کے لوگ اپنی دھرتی سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ یہ بات ہم جیسے لوگوںکو شاید سمجھ نہیں آتی ، جنہوں نے خوش حالی کے لیے ہجرت کی ۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ وہ لوگ ہیں ، جن کا دھرتی سے رشتہ کمزور ہے ۔ کسی تھری گلوکار کے گیت کے وہ الفاظ ذہن میں گونجنے لگے ، جو ماروی کی زبان میں کچھ یوں تھے ’’ کوٹ میں کیسے جی لگے گا میرا ۔۔۔ لاج تھر کی مجھے بلاتی ہے ‘‘ ۔ تھریوں کو اپنے چنورے محلوں سے زیادہ عزیز لگتے ہیں ۔ قحط کے زمانے میں تھری عارضی ترک سکونت کرتے ہیں لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا قطرہ صحرائے تھر پر پڑتا ہے ، وہ واپس آ جاتے ہیں ۔ وہ کسی بھی حالت میں اپنی دھرتی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ پانی کے بعد تھر کا دوسرا بڑا مسئلہ سڑکیں اور پکے راستے ہیں ۔ ریت میں ایک قدم آگے چلنے اور دو قدم پیچھے جانے والے تھری انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پیچھے رہے ۔ تھریوں کا تیسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں غیر مسلم آبادی زیادہ ہے اور یہ صحرا ہندوستان کی سرحد پر واقع ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد ’’ محب وطن ‘‘ لوگوں نے تھریوں کی حب الوطنی پر شک کیا اور اس علاقے کی ترقی کو سکیورٹی معاملات سے جوڑ دیا حالانکہ یہ روپلوکولہی اور مائی بختاور کا دیس ہے ، جو سندھیوں کے لیے وطن پرستی اور حقوق کے لیے جدوجہد کی علامت ہیں ۔ روپلو کولہی اس دور میں تھر میں انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھے ، جب ہوشو شیدی تالپور میروں کے ساتھ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور شہید ہو گئے تھے ۔ روپلو کولہی نے بھی اپنے وطن پر جان قربان کر دی ۔ شہید مائی بختاور نے بھی غریب لوگوں کے حقوق کے لیے موت قبول کی ۔ تھر کا صحرا بہت بڑا ہے ۔ پنجاب کا چولستان اور بھارت کا راجستھان بھی اسی کا حصہ ہیں ۔ سندھ میں اس صحرا سے تعلق رکھنے والے کئی’’ محب وطن ‘‘ لوگوںکو اعلیٰ عہدوں سے نوازا گیا لیکن انہوں نے حب الوطنی میں تھر کے لیے کوئی کام نہیں کیا ۔
ہمارا پڑاؤ ’’ مائی مٹھاں ‘‘ کے بسائے ہوئے شہر مٹھی میں تھا ۔ مٹھی آج تھر میں زندگی کی علامت ہے ۔ مٹھی سے اسلام کوٹ تک ہم نے مختلف علاقوں کا سفر کیا ۔ میں تھر سے مایوس نہیں لوٹا ہوں ۔ تھر میں سب سے بڑا کام یہ ہوا ہے کہ لوگوں کو میٹھے پانی کی فراہمی شروع ہو چکی ہے اور کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ۔ اس حوالے سے ریورس آسموسز ( آر او ) ٹیکنالوجی بہت موثر ثابت ہوئی ہے ۔ تھر میں ہم نے آر او پلانٹس چلتے ہوئے دیکھے ہیں ۔ لوگوں اور مال مویشیوں کو پانی کی فراہمی دیکھی ۔ ہم نے تھر میں موٹرویز دیکھیں اور کئی شاہراہوں پر کام ہوتے ہوئے دیکھا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے تھر کول فیلڈ کے بلاک ۔ 2 میں کول مائننگ کے لیے سائٹ پر جا کر کام ہوتے ہوئے دیکھا ۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے ۔ سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں کام کرتے ہوئے بڑی تعداد میں مقامی تھری باشندوں خصوصاً غیر مسلم باشندوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تھر کا صحرا اب اپنے آپ کو بدلنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ این جی اوز بھی تھریوں کے نام پر بہت سے فنڈز حاصل کر رہی ہیں لیکن حکومتی اداروں کی پہلی دفعہ اس قدر دلچسپی سے سارنگا اورسدھونت کادیس صحرائے تھر کروٹ لے رہا ہے ۔ اسلام کوٹ میں ہزاروں روپے فی ایکڑ بکنے والی زمینوں کی قیمت لاکھوں روپے فی ایکڑ ہو گئی ہے ۔ امید ہے ، تھریوں کا عزم ہے اور مسکین جہان خان کھوسو جیسے لوگوں کا جنون ہے ۔ واپسی پر ریت کے ٹیلوں سے کی ہیبت ناک خاموشی میں ’’ مائی بھاگی ‘‘ کے گیت کہیں کہیں سے سنائی دیتے ہیں ۔ مائی بھاگی میں پورا تھر بستا تھا ، اب وہ تھر بول رہا ہے ۔
تازہ ترین