• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کوئی اچھا ڈکٹیٹر مل جاتا تو ملک آگے چلا جاتا‘‘، وہ جسے انگریزی میں Benevolent Dictatorکہا جاتا ہے، اردو میں، فیاض یا فیض رساں آمرکہہ لیں ۔ لیکن یہ آئیڈیا نیا نہیں۔ ڈکٹیٹر شپ کے ہر دور میں یہ فلسفہ بیان کیا جاتا رہا ہے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے عمران خاں نے پاکستان کی 67 سالہ تاریخ کا نوحہ بھی پڑھا۔ اِن کا کہنا تھا، اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اسے نہ تو حقیقی جمہوری لوگ ملے اور نہ ہی حقیقی آمر ملے۔ آمروں نے بھی منافقت سے کام لیااور اپنے آپ کو جمہوری ثابت کرنے کی کوشش کی اگر کوئی ٹھیک ڈکٹیٹر مل جاتا تو ملک آگے چلا جاتا۔ اپنی جمہوریت پسندی کے حق میں عمران خاں وقتاً فوقتاً یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی طرح وہ بھی آکسفورڈ کے فارغ التحصیل ہیں، انگلستان میںاٹھارہ، بیس سالہ قیام کے دوران انہیں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے فیوض و ثمرات دیکھنے کا موقع ملا، چنانچہ پاکستان کی دو نمبری جمہوریت ان کی آنکھوں میں جچتی نہیں۔ اپنی اس تقریر میں بھی انہوں نے جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی بات کی، بلدیاتی انتخابات کی بات، جس میں دیہات کی سطح تک بھی لوگوں کو اپنے مسائل اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حل کرنے، اپنے علاقے کے ترقیاتی منصوبوں کا فیصلہ خود کرنے اور کرپشن کے بغیر انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے صوبے، خیبر پختونخوا میں تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرادیں گے، صاف شفاف انتخابات جو دوسرے صوبوں کے لیے بھی ایک مثال ہوں گے۔ اب ان کی حکومت کو پونے دو سال ہونے کو ہیں، گزشتہ روز فرمایا ، پنجاب اور سندھ کی وجہ سے کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکے۔ فارسی میں اِسے کہتے ہیں، خوئے بدرابہانہ ہائے بسیار۔ شاعر کے الفاظ میں’’تیرا ہی دل نہ چاہے تو بہانے ہزار ہا‘‘۔پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا اور یوں بلدیاتی ادارے رُوبہ عمل آگئے حیرت ہے کہ کپتان کے صوبے میں پنجاب اور سندھ اس کارِ خیر میں رکاوٹ بن گئے اور یہ جو کپتان کو آمروں سے گلہ ہے کہ اُنہوں نے حقیقی آمر بننے کی بجائے خود کو جمہوری ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا ان کا اشارہ دُنیا کے دیگر آمروں کی طرف ہے؟ مثلاً مڈل ایسٹ کے فوجی آمر جنہوںنے بادشاہوں کا تخت الٹ کر یہاں اپنی شخصی، خاندانی یا یک جماعتی حکومتیں قائم کر لیں اور سیاسی اختلاف کی ہر آواز کو ریاستی جبر سے کچل دیا، اور یوں ان کی آمریتیں عشروں پر محیط ہوگئیں، معاف کیجئےپاکستان میں یہ کام آسان نہیں تھا۔ برصغیر پر انگریز کی حکومت، دیگر علاقوں پر مسلط استعماری طاقتوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس نے یہاں سیاسی اداروں کی بنیاد ڈالی۔ یہاں آزادی کی جدوجہد مسلح نہیں، سیاسی و جمہوری تھی۔ پاکستان کا قیام بھی جمہوریت پر یقین رکھنے والے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت، ایک سیاسی جماعت (مسلم لیگ) کی سیاسی و آئینی جدوجہد کے ذریعے ہی عمل میں آیا تھا، چنانچہ یہاں کے عوام کا سیاسی و جمہوری شعور،طویل آمریت کے لئے سازگار نہ تھا، اسی باعث جمہوریت کا جھوٹا سچا سوانگ رچانااور یوں خود کو جمہوری ثابت کرنا ، ڈکٹیٹروں کی مجبوری تھی۔ یہ یہاں کے عوام کے سیاسی شعور اور جمہوری مزاج کا جبر تھا جس نے ڈکٹیٹروں کو یہاں خالص ڈکٹیٹر شپ نافذ نہ کرنے دی اور وہ بھی دکھاوے کے لیے ہی سہی ، زود یا بدیر جمہوری راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر (ایوب خاں) کا دور، عمران کے کھیلنے کودنے کے دن تھے، دوسرے ڈکٹیٹر کے مختصر دور میں وہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم تھے۔ تیسرے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا دور پاکستان کی تاریخ میں ڈکٹیٹر شپ کا طویل ترین دور تھا۔ یہ کپتان کی کرکٹ کے عروج کا دور تھا۔ 1992 ءکا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم ہسپتال ان کا خواب تھا۔ انہیں سیاست اور سیاستدانوں کے نام ہی سے وحشت سی ہونے لگتی۔ ان ہی دنوں ہم نے شامی صاحب کے ہفت روزے کے لیے ان سے طویل انٹرویو کیا، جس میں عملی سیاست سے اِن کی بیزاری انتہا پر تھی۔وہ پاکستان کے مسائل کا حل غیر جماعتی نظام میں پاتے تھے۔ چار سال بعد وہ اپنی سیاسی جماعت بنا کر عملی سیاست میں آگئے۔ تین سال بعد پاکستان میں پھر ڈکٹیٹر شپ مسلط ہوگئی اور کپتان نے پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے اس سے اُمیدیں وابستہ کر لیں۔ وہ ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم کا پُرجوش حامی تھالیکن یہ بھی تو ڈکٹیٹر کی طرف سے خود کو جمہوری ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ڈکٹیٹروںکے سبھی ادوار میں اگرچہ انہیں موقع پرستوں کی تائید حاصل ہوجاتی رہی لیکن یہاں جینوئن سیاسی لیڈر اور سیاسی ورکر بھی موجود رہے، جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیںبرداشت کیں لیکن جمہوریت کا پرچم سربلند رکھا۔
سُرخی ٔ خارِ مغیلاں سے پتہ چلتا ہے
تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے، یہاں تک آئے
جبر کا ہروار، ان میں نئے جذبے اور نئے حوصلے کا باعث بنتا رہا۔
سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہوگا
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے
بعض خوش بخت اس جدوجہد میں جاں سے بھی گزر گئے ، فیض یاد آئے؎
جورُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا
تو جنابِ کپتان! یہ ڈکٹیٹروں کا جذبۂ ترحم نہیں، بلکہ سیاسی قیادت اور سیاسی کارکنوں کاجمہوریت پر ایمان اور عوام کا سیاسی وجمہوری شعور تھا جس نے یہاں ’’حقیقی آمریت‘‘ قائم نہ ہونے دی، جس کا نوحہ آپ آج پڑھ رہے ہیں۔
یہ یومِ یکجہتی کشمیر تھا، جب پاکستان سمیت ساری دُنیا میں پاکستانی اور کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں مظاہرے کر رہے تھے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق۔۔ لیکن کپتان پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ماتم کررہا تھا۔ اس کا کہنا تھا، دیگر حقوق کی تو بات ہی کیا، یہاں تو عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق بھی نہیں۔ اس تقریب میں بیرسٹر سلطان محمود نے تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اپنے سیاسی سفر میں بیرسٹر صاحب نے کہاں کہاں پڑاؤ کیا، کس کس جماعت سے وابستہ رہے، کس کس کی قیادت پر ایمان لائے، یہ ایک طویل داستان ہے۔ اِن کی آخری بڑی سیاسی سرگرمی گزشتہ دنوں لندن میں کشمیریوں کے حق میں ملین مارچ تھا جس میں بلاول کو کپتان کے ٹائیگر ز کی طرف سے ’’گو،گو‘‘ کا سامنا تھا۔ اب بیرسٹر صاحب نے کپتان کی قیادت میں اپنے سیاسی سفر کے نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔
’’نئے پاکستان‘‘ کے بعد’’نیا آزاد کشمیر‘‘
تازہ ترین