• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید آپ کیلئے باعث حیرت ہو کہ فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے بہت پہلے فرانس کے مقتدر حلقوں میں اس بحث کا آغاز نہایت شدومد کے ساتھ ہوچکا تھا کہ مسلم تارکین وطن کے ساتھ مسلسل بڑھتا ہوا تناؤ کسی شدید قسم کی بدمزگی کا باعث بن سکتا ہے، مسلح ٹکراؤ اور خونریزی کے امکانات کا ذکر بھی ہوا۔ ملک کے دانشور طبقے کو حکمرانوں سے گلہ ہے کہ مسلمانوں کی خوشنودی میں مصروف ہیں اور یہ منطق قوم کے فہم سے باہر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گومگو کی یہ کیفیت ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہے۔ مقبول فرانسیسی ادیب مائیکل پاؤل بیک کا حال ہی میں چھپنے والا بیسٹ سیلر ناول "Submission" اسی موضوع پرہے۔ جو اس بات پر نالاں ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت یورپ میں جمع کرلیا گیا ہے، جبکہ انکے ساتھ ہماری کوئی بھی قدر مشترک نہیں۔بلکہ تضادات و اختلافات کی خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اس کا پاٹنا ناممکنات میں ہی شامل ہے۔ ایسے میں فریقین لامحالہ اپنی اپنی برتری کیلئے کوشاں ہیں۔ جوبالآخر خانہ جنگی پر منتج ہوگی جو کہ اٹل ہے اور صرف وقت کا تعین ہونا ہے۔ یورپ کا مفاد اسی میں ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے یہ ٹنٹنا ختم کردے۔ جوں جوں دیر ہوتی جائیگی، معاملہ گمبھیر ہوتا جائیگا۔
یہ سب راتوں رات نہیں ہوا، امر واقع ہے کہ مختلف مذاہب اور خطوںسے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے بارے میں یورپ کا طرز عمل کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا۔ سنجیدہ مزاج پڑھا لکھا طبقہ چونکہ جذبات کو قابو میں رکھنے کا فن جانتا ہے لہذا بات گھما پھرا کر کرتا ہے اور ملٹی کلچر ازم کو بیچ میں لے آتا ہے۔ جبکہ نوجوان اور جذباتی قسم کے لوگ اس قسم کا تردد نہیں کرتے اور دو ٹوک بات آپ کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملٹی کلچر ازم کی بات کرنے والے نرے احمق ہیں۔ برسوں سے رنگ برنگے انسانوں اور ان کے عجیب وغریب تمدن کی یلغار سے مغرب کو سوائے خواری کے کیا حاصل ہوا ہے؟ وہ برملا کہتے ہیں کہ بطل ارض (Son of the soil) کی فوقیت کو دنیا مانتی ہے اور ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ اپنی ہی دھرتی پر اس حق سے محروم ہیں۔ وہ ہماری زمین، ہمارے وسائل اور روزگار کے ذرائع پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو عقل کب آئیگی کہ جب تک مقامی آبادی کے معاش اور روزگار کے مسائل حل نہ ہوجائیں، غیر ملکیوں کی آمد پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ اور یہ ایمبارگو خواہ سو برس تک کیوں نہ چلتا رہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے انہیں یہ گلہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی متوازی سوسائٹی تشکیل دے رکھی ہے۔ وہ الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں، اپنے لوگوں سے ملتے ہیں، مقامیوں سے ان کا میل جول نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں وہ مقامی سماج کا حصہ کیونکر بن سکتے ہیں؟ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اندر جذب ہوں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہمارے کس کام کے؟ ہم جانتے ہیں کہ تہذیبوں کا ادغام آسان نہیں ہوتا، مگر کوشش تو ہو۔ اگر وہ اس کے لئے بھی تیار نہیں تو بہتر ہے ان سے معذرت کرلی جائے۔ ان کے خیال کے مطابق اس معاملہ میں مسلمان نسبتاً زیادہ کٹر واقع ہوئے ہیں۔ فرانس میں نقاب پہننے پر پابندی کا معاملہ ہو یا سوئٹزر لینڈ میں مسجد کے میناروں پر پابندی کی بات، مقامی قوانین کا احترام کرنے کی بجائے، انہوں نے اپنی سوچ کو افضل جانا۔ ایک فرانسیسی ہفت روزہ ’’لی ایکسپریس‘‘ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 74فیصد فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ اسلام کا ان کے سماج کے ساتھ تال میل ممکن نہیں۔ اہل یورپ کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ اسلامی جہادی تحریکیں ان کے نوجوانوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مغرب میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے بچے اس راہ پر کیونکر لگ جاتے ہیں۔
مسلمان تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اہل یورپ کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فی الوقت 45ملین مسلمان یورپ میں بس رہے ہیں۔ موجودہ شرح میںاضافہ برقرار رہا تو بیس برس بعد 60ملین مسلمان یورپ میں رہ رہے ہونگے۔ ایک طرف مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب مقامی آبادی خوفناک رفتار سے کم ہوتی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گویا یورپی مائیں بانجھ ہوتی جارہی ہیں اور وہ دن دور نہیں، جب مغرب کی بستیوں میں ہر جانب کالوں پیلوں کی ریل پیل ہوگی۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق 2050تک سفید فام یورپی آبادی میں ایک کروڑ نفوس کی کمی آچکی ہوگی۔ اس حوالے سے ایک اور بات بھی اہم ہے کہ جہاں یورپ میں بسنے والے بے شمار مسلمان اپنے عقائد واقدار کو حرزجاں بنائے ہوئے ہیں، وہاں ایسے ’’مسلمانوں‘‘ کی بھی کمی نہیں، جنہیں مغرب کی چکا چوند نے خیرہ کر رکھا ہے اور وہ اس کی محبت و عقیدت میں کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ اس کی جیتی جاگتی مثال ہالینڈ کے شہر راٹر ڈیم کے مراکش نژاد میئر ابو طالب کی ہے کوئی چالیس برس ادھر اپنے امام مسجد باپ کے ہمراہ فکر معاش میں ہالینڈ آنے والے میئر نے ایک مقامی ٹی وی چینل پر ببانگ دہل کہا کہ اگر مسلمانوں کو مغربی تمدن کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور وہ اس کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پارہے، تو انہیں چاہئے کہ سامان باندھیں اور فی الفور وطن لوٹ جائیں،ہالینڈ میں رہنے والے باقی مسلمانوں کی زندگی عذاب نہ کریں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ابو طالب کے ان افکار کی تحسین مسلسل ہورہی ہے۔ لندن کے میئر لورس جانسن نے اسے ہیرو قرار دیا اور کہا کہ موصوف نے لفظ چبانے کی بجائے سیدھی اور دو ٹوک بات کی ہے اور سب سے اہم یہ کہ یہ سب کچھ کہنے کی توفیق کسی مسلمان کو ہوئی ہے۔
پیغمبر اسلام کے ساتھ عقیدت و محبت ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی عنصر ہے اور وہ جناب رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ 1988ءمیں سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب "Satanic Vcrses" چھپی تو بھی دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ مرحوم آیت اللہ خمینی کی طرف سے ملعون رشدی کے قتل کا فتویٰ بھی آیا تھا۔ وہ تو مارے خوف کے زیر زمین چلا گیا اور بچ گیا، مگر کتاب سے جڑے ہوئے دیگر کئی لوگوں کو بہت کچھ بھگتنا پڑا تھا۔ فرانسیسی جریدے کی حالیہ مذموم حرکت نے ایک بار پھر دنیائے اسلام کو مشتعل کیا ہے۔ جس کا اظہار ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کر رہا ہے۔ بزرگ سیاسی رہنما غلام احمد بلور نے ابھی چار روز پیشتر اعلان کیا کہ جریدے کے مالک کو جہنم واصل کرنے والے کو دو لاکھ ڈالر انعام دیں گے۔ بے شک آقا و مولا ﷺ کے ناموس کیلئے جدوجہد کرنے والوں کیلئے اللہ رب العزت کے ہاں اجر عظیم ہے، مگر عالمی سطح پر جو حالات بنتے جارہے ہیں اور دنیائے اسلام جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مسلمانوں کو جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کا دامن بھی تھامے رکھنا ہوگا۔ انفرادی افعال شاید زیادہ کارآمد نہ ہوں۔ شرپسندوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے شاید کچھ حاصل نہ ہو، یہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ کا مسئلہ ہے، مغرب کو اپنی تہذیب اور قانون پسندی کا بڑا زعم ہے۔ مقامی تو رہے ایک طرف عالمی مسائل سے نمٹنے کیلئے بھی نہایت دیدہ دلیری سے ہر موضوع اور مسئلہ کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین بنا رکھے ہیں۔ ایسے میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کے نمائندے مل کر ایک ایسا بین الاقوامی قانون بھی بنادیں جس کی رو سے کسی بھی مذہب اور پیغمبر کی اہانت جرم قرار پائے۔ اٹھاون مسلم ممالک پر مشتمل بلاک کا فرض بنتا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے اٹھائے۔ اس معاملہ میں ہمیں دنیائے اسلام سے باہر بھی تعاون میسر آ سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارا موقف بہت مضبوط ہے کہ کوئی مسلمان کسی بھی پیغمبر کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ان پر ایمان لائے بغیر ہمارا تو اپنا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ ایسے میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی چاہئے کہ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی حرمت کا خیال رکھیں۔
تازہ ترین