• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس نے پرامن جنوبی ایشیا کے لئے جدوجہد کے جس عزم کا اعادہ کیا وہ درحقیقت پوری دنیا کے استحکام کی ضرورت ہے کیونکہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی تشویش انگیز تعداد سمیت ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے اس خطے تک 21ویں صدی کی ترقی اور خوشحالی کے ثمرات پہنچا کر نہ صرف اس خطے کو امن و استحکام کا گہوارہ بنانے میں مدد ملے گی بلکہ عالمی امن کے مقاصدبھی آگے بڑھیں گے۔ پاکستان 1947ء میں اپنے قیام کے وقت سے کوشاں رہا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت پیدا ہونے والے تنازعات کو پرامن طور پر حل کیا جائے اور پاکستان اور بھارت خیرسگالی و مفاہمت کی ویسی ہی فضا قائم کریں جیسی امریکہ اور کینیڈا کے درمیان نظر آتی ہے مگر بدقسمتی سے یہ خواہشات تشنہ رہیں اور دونوں ممالک کئی جنگوں سے گزر کر ایک بار پھر ایسی بڑھتی ہوئی کشیدگی سے دوچار ہیں جس میں معمولی سی غلطی بھی پورے خطے کیلئے ہولناک ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے درست طور پر نشاندہی کی کہ پاکستان نے بھارتی اشتعال کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تحمل اور برداشت کی اس اخلاقی قوت کا مظاہرہ پاکستان بار بار کرتا رہا ہے جسے شاید پاکستان کی کمزوری سمجھ کر اسے دھمکیاں دینے اور اس کے خلاف مہمیں چلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سات لاکھ فوجیوں کے جبر و ستم کے نتیجے میں ابھرنے والی آزادی کی نئی لہر طوفان کا روپ دھارتی محسوس ہورہی ہے۔ جبکہ نئی دہلی کے حکمراں دہشت گردی اور جدوجہد آزادی کے فرق کو نظرانداز کرکے کشمیری عوام کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی جدوجہد کو ایک طرف پاکستان کی مداخلت قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے اوڑی کے فوجی کیمپ پر 18ستمبر کے حملے کے واقعے کو پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی کارروائی قرار دے کر نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔ نئی دہلی کے حکمراں اس سے پہلے بھی 1991ء کی چھٹی کولمبو کانفرنس، 1999ء کی گیارہویں کٹھمنڈو کانفرنس، 2003ء کی بارہویں اسلام آباد کانفرنس اور 2005ء کی تیرہویں ڈھاکہ کانفرنس کے مواقع پر خطے کی ترقی و تعاون کی فضا سبوتاژ کرنے کے لئے اُس روایت کو بطور ہتھیار استعمال کرچکے ہیں جس کے تحت ایک ملک کی بھی عدم شرکت کی صورت میں سارک کانفرنس نہیں ہوسکتی۔ بنگلہ دیش ، افغانستان اور بھوٹان کی عدم شرکت کا اضافی اعلان پاکستان کو تنہا کرنے کی اس جارحانہ مہم کا حصہ ہے جو ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے شہرت پانے والے نریندر مودی کے بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بھارت کے ماضی کے خود تخلیق کردہ المیوں کے تناظر میں اوڑی واقعہ کو بھارت کی خود ساختہ کارروائی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے جبکہ اوڑی واقعہ سے کافی پہلے بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی30اگست کی اشاعت میں بھارتی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کی سفارتی مہم کے جواب میں نئی دہلی میں اس بات کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ اس خبر کو مودی حکومت کی طرف سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان کے خلاف نئی زیر زمین جنگ کی ہدایات دیئے جانے کی اطلاعات بلوچستان سے گرفتار کئے گئے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو کے اعترافات اور کنٹرول لائن پر بھارت کی نئی اشتعال انگیزیوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ عالمی برادری کو تازہ ترین صورت حال سے مسلسل اگاہ کیا جاتا رہے اور واضح کیا جاتا رہے کہ مسئلہ کشمیری کا کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جلد حل ہونا جنوبی ایشیا میںامن و خوشحالی کی کلید ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے استحکام کی ضرورت بھی ہے۔

.
تازہ ترین