• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں ہم نے کراچی کے بارے میں کچھ تاریخی اور معروضی حقائق کا احاطہ کیا تھا اور یہ امر واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ کراچی نہ صرف ڈھائی کروڑ لوگوں سے زیادہ کا مسکن ہے بلکہ یہ اس خطے کا اکنامک حب تھا اور اکنامک پاور کے طور پر ابھر رہا تھا کہ اچانک یہ عمل رک گیا یا روک دیا گیا ۔ کراچی میں آج بھی اس خطے کی اکنامک پاور بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اونر شپ کا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے 1960ء کی دہائی تک کراچی اور اس وقت مشرقی پاکستان کا شہر ڈھاکہ نہ صرف دونوں بڑے شہر تھے بلکہ صنعتی اور اقتصادی مراکز بھی تھے ۔ میگا سٹی صرف صنعتوں ، بندرگاہوں اور ایئرپورٹس سے نہیں بنتے بلکہ ان کا ثقافتی ورثہ اور ان میں چلنے والی تحریکیں ان شہروں کو میگا سٹی بناتی ہیں۔ مذکورہ بالا عرصے میں ساری تحریکیں کراچی اور ڈھاکہ سے چلتی رہی ہیں ۔ حتیٰ کہ سندھ کی ہاری تحریک میں بھی کراچی کا بہت بڑا حصہ تھا ۔ اس دور میں کراچی میں جن لوگوں کی حکمرانی تھی ، ان میں اس وقت کے لبرل ، مسلم لیگ ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کے لوگ شامل تھے اور وہی اصل اسٹیک ہولڈرز تھے ۔ با الفاظ دیگر اس وقت کراچی کی اونر شپ ان لوگوں کے پاس تھی جو کراچی کے باسی بھی تھے۔ اس کی وجہ سے کراچی بہت پھلتا ، پھولتا اور بڑھتا رہا ۔ اس دوران پیپلز پارٹی بھی اس شہر کی اونر شپ میں شامل ہوگئی ۔ یہ صورت حال 1977ء تک برقرار رہی لیکن جنرل ضیاء الحق کے آنے کے بعد کراچی کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں ۔ کراچی کی اونر شپ کراچی والوں کے پاس نہیں رہی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کی ترقی کی زیادہ فکر نہیں تھی بلکہ وہ سیاسی بیداری ، ذہنی بالیدگی اور جمہوری تحریکوں میں ان کے بھرپور کردار سے پریشان تھے۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ سندھ حکومت کا کراچی میں کوئی اسٹیک نہیں ہوتا تھا اور وفاقی حکومت کا بھی شہر کی اونر شپ میں حصہ نہیں رہا ۔ کراچی کو ملک کے اجتماعی سیاسی دھارے کے خلاف کردیا گیا ۔ ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو کچھ عرصے کے لئے کراچی کی اونر شپ کراچی والوں کے پاس آئی ۔ ضیاء الحق کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی دو دو مرتبہ حکومتیں رہیں لیکن انہوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ، جس سے پھر کراچی کی اونر شپ کراچی والوں کے ہاتھ سے چلی گئی ۔ جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ، کراچی کی اونر شپ کراچی کے لوگوں کے پاس آئی اور کراچی نے ترقی کی ۔ عبدالستار افغانی ، نعمت اللہ خان ، ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے ادوار کراچی کی ترقی میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ اس شہر کے باقی سارے مسائل مذکورہ بالا مسئلے کے گرد گھومتے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں کراچی کو ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کا شہر قرار دیتی ہیں جبکہ اعداد و شمار کے دیگر اداروں کے مطابق اس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔ حکومتیں اپنے اعداد و شمار پر منصوبہ بندی کرتی ہیں ۔ اس لئے آبادی کی ضرورتوں کے مطابق اس شہر میں ہر سہولت ناکافی ہے۔ مردم شماری بھی نہیں کرائی گئی۔ شہر کاری کراچی کا تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ کراچی بہت بڑا شہر بن چکا ہے لیکن ہمارے حکمراں کراچی کا مقابلہ شکار پور ، ملتان یا ملک کے دیگر شہروں سے کرتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس وژن نہیں ہے کہ شہر کاری سے نمٹنے کے لئے کیا منصوبہ بندی ہونی چاہئے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم شکار پور کو کراچی بنانے کی کوشش کریں ، اس کے برعکس کراچی کو شکارپور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی شہروں کی منصوبہ بندی کے لئے کوئی کام نہیں ہوا ۔ کراچی کا موازنہ دنیا کے دیگر میگا سٹیز سے کرنا چاہئے تاکہ حقیقی مسائل کا ادراک ہو سکے ۔ 1960 ء کے بعد کراچی میں کوئی ماسٹر پلان نہیں بنا ہے ۔ 1960 ء سے پہلے کراچی اس خطے کا ماڈل سٹی تھا لیکن اب یہ شہر قابل انتظام نہیں رہا ۔ کراچی کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس شہر کو غیر مستحکم کرنے کی شعوری طور پر کوششیں کی گئیں ۔ 1988ء کے بعد یہ بھی کوششیں کی گئیں کہ کراچی کو معاشی طور پر تباہ کردیاجائے ۔ ان کوششوں میں کچھ ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کا بڑا عمل دخل ہے ۔ دو تین فیصلے ایسے ہیں ، جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کراچی کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لئے شعوری کوششیں کی گئیں ۔ ایک زمانے میں کراچی اس خطے کا مصروف ترین ایئرپورٹ تھا ۔ ضیاء الحق کے دور میں سول ایوی ایشن نے ایئرپورٹ چارجز میں اضافہ کر دیا ۔ اس فیصلے کا یہ جواز بتایا گیا کہ کراچی کی اسٹرٹیجک پوزیشن ہے اور دنیا بھر کی فضائی کمپنیاں اپنے جہاز یہاں بھیجنے پر مجبور ہیں ۔ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بھی خراب ہو گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بڑی فضائی کمپنیوں نے کراچی میں آپریشنز منسوخ کر دیئے ۔ جتنی پروازیں کراچی ایئرپورٹ پر 70 ء کی دہائی میں آتی تھیں ، اب ان کی ایک چوتھائی پروازیں بھی یہاں نہیں اترتیں ۔ دوسرا غلط فیصلہ یہ کیا گیا کہ ملک میں ڈرائی پورٹس کا جال بچھا دیا گیا اور کراچی کی بندرگاہ کی اہمیت اور آمدنی کو کم کر دیا گیا ۔ فیصلہ کرنے والوں کے بس میں ہوتا تو یہ سمندر کو بھی یہاں سے لے جاتے ۔ ریلوے کو تباہ کرنے سے بھی کراچی کو بہت نقصان ہوا ۔ بد امنی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی آج اگرچہ اس شہر کا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ان سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت میں حالات پر قابو پانے کی اہلیت نہیں رہی ہے ۔ گزشتہ تین عشروں سے تمام حکومتیں اس حوالے سے ناکام رہی ہیں ۔ اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مختلف سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور یہ کام اس وقت کیا جا رہا ہے ، جب دنیا امن کا گہوارہ بن رہی ہے ۔ ہم نے خود اپنے آپ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کراچی کی ضرورتوں کے مطابق شہری سہولتوں کی عدم فراہمی نے صورت حال کو اور گمبھیر بنا دیا ہے ۔ کراچی اس ملک کو 60 فیصد ریونیو دیتا ہے لیکن کراچی کو اس کے حصے کے مطابق وسائل نہیں ملتے ۔ حکمراں تمام اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل نہیں کرتے حالانکہ دہشت گردی اور تشدد ختم کرنے کے لئے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ضروری ہے ۔
دنیا میں ہر جگہ امن وامان برقرار رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں گزشتہ تین دہائیوں سے آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئیں ، انہوں نے دیگر سروسز کی طرح پولیس میں بھی نوکریاں فروخت کیں اور سفارش پر نااہل لوگوں کی تعیناتیاں کیں ۔ اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ پولیس کو عہد نو کی دہشت گردی سے نمٹنا ہے ۔ کراچی میں پولیس کی نفری اس کی آبادی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ 27 ہزار کی نفری میں سے 13 ہزار پولیس اہلکار وی آئی پی ڈیوٹیز اور پروٹوکول پر لگے ہوئے ہیں ۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لئے صرف 14 ہزار پولیس اہلکار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رینجرز کو لانا پڑتا ہے یا کبھی کبھی فوج کو بلانا پڑتا ہے ۔کراچی میں پہلی دفعہ کراچی پولیس چیف کی تقرری میرٹ پر نظر آتی ہے جو صحیح معنوں میں پروفیشنل اور محنتی نظر آتے ہیں، وہ کراچی کو پرامن شہر بنانے میں کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امن وامان کی صورت حال قدرے بہتر ہوئی ہے لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ موجو د ہے کہ کرپشن ، سفارشی بھرتیوں اور تقرریوں لوٹ مار اور سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ اور تربیت کی کمی کے باعث کراچی کی پولیس دہشت گردوں سے نمٹنے کی مطلوبہ اہلیت نہیں رکھتی۔ کراچی میں جب تک غیر سیاسی اور صرف میرٹ پر پولیس کی تعداد ضروری طور پر دگنا نہیں کی جائے گئی حالات بہتر نہیں ہونگے ۔
تازہ ترین