• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سردار جی نے پہلی بار تھرماس دیکھا تھا۔ دکاندار سے پوچھا، یہ کس کام آتا ہے؟ .......اس میں گرم چیز گرم اور ٹھنڈی چیز ٹھنڈی رہتی ہے۔ سردار جی اگلے روز دفتر پہنچے تو تھرماس بھی ساتھ تھا۔ اس کے ساتھیوں کے لئے بھی یہ نئی چیز تھی۔ سردار جی نے بتایا، اس میں ٹھنڈی چیز ٹھنڈی اور گرم چیز گرم رہتی ہے۔ ’’توتم اس میں کیا ڈال کے لائے ہو؟‘‘....... تین ٹھنڈی’’بوتلیں‘‘ اور چار کپ گرما گرم چائے کے....... سردار جی نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بتایا۔
لیکن حکومتِ پنجاب کا لگژری ریفرکنٹینر سردار جی کے تھرماس سے مختلف ہوگا۔ اس میں گرم چیزوں کو گرم اور ٹھنڈی چیزوں کو ٹھنڈا رکھنے کا الگ الگ انتظام ہوگا۔ گزشتہ روز کی خبر کے مطابق حکومتِ پنجاب نے ساڑھے 33لاکھ کی لاگت سے ایک لگژری کنٹینر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں وزیراعلیٰ، وزراء اور وی وی آئی پیز کے لئے لائے گئے گرم کھانے کو گرم اور ٹھنڈے کو ٹھنڈا رکھا جاسکے گا۔ اس پر چوہدری شعیب سلیم نامی ایک وکیل صاحب لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے کہ ’’عوام کا پیسہ حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ کیاجارہا ہےـ‘ ‘ اور عدالتِ عالیہ نے اسے سماعت کیلئے منظور کر لیا ۔خبر کے مطابق چند روز قبل وزیراعلیٰ کو کھانے کی اشیاء پیش کی گئیں تو وہ ٹھنڈی تھیں، کئی اور میٹنگز کے دوران بھی یہی ہوچکا تھا۔ آخرِ کار وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے متعلقہ حکام کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ چنانچہ اسپیشل سیکریٹری کو حکم دیا گیا کہ فوری طور پر خصوصی کنٹینر کی خریداری کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ خبر کے مطابق وزیراعلیٰ نے قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دیدی ہے۔ Austerity کمیٹی سے اس کی منظوری لینا باقی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم نے یہ خبر پڑھی تو دیر تک یقین ہی نہ آیا۔ ہوسکتا ہے، فائلوں کے انبار میں ایک فائل یہ بھی ہو، کام کے بے پناہ دباؤ میں وزیراعلیٰ اس فائل پر ضروری توجہ نہ دے پائے ہوں اور اس پر بھی دستخط کردیئے ہوں۔ وہ اگرچہ ہر چیز پر عقاب کی نظر رکھنے والے، حد درجہ محتاط اور ہوشیار وزیراعلیٰ ہیں لیکن ہیں تو بندہ بشرجس سے بھول چوک ہو ہی جاتی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کا بجٹ کھربوں روپے کا ہوتا ہے، جس میں اربوں روپے کے منصوبے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ریفر کنٹینر کے لئے ساڑھے 33لاکھ روپے ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ سے بھی کم تر حیثیت رکھتے ہیں لیکن خادمِ پنجاب تو سرکاری خزانے کے ایک ایک پیسے کو عوام کی امانت سمجھتے ہیں۔ اس میں فضول خرچی ان کے لئے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ اپنی ذات پر سرکاری اخراجات میں تووہ حد درجہ محتاط ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ہم یہ خبریں پڑھتے سنتے رہتے ہیں کہ کسی غیر ملکی سرکاری دورے پر بھی انہوں نے اپنے ٹکٹ اور دیگر اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے اور سرکاری خزانے سے اخراجات، سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لئے ساتھ جانے والے افسروں پر ہی کئے گئے۔
وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی سادگی اور کفایت شعاری کی شہرت رکھتے ہیں۔ برادرمِ محترم عطاءالحق قاسمی تو ان کے سستے سے بیڈ روم کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا پہناوا بھی عموماً سادہ سا ہوتا ہے۔ وہ کبھی کبھار ٹائی کے ساتھ تھری پیس میں بھی ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر بند گلے والے ماؤزے تنگ کوٹ ہی میں دکھائی دیتے ہیں۔ شریف فیملی اور خصوصاً نوازشریف پر تنقید میں مبالغے کی آخری حد عبور کرجانے والا کالم نگار اور تجزیہ کار بھی شہباز صاحب کی سادگی اور کفایت شعاری کا ذکر کئے بغیرنہیں رہتا، ایک حالیہ کالم میں خادمِ پنجاب کے صرف 6کوٹوں کا ذکر کیا۔نازو نعم میں زندگی گزارنے والی چھوٹی بیگم صاحبہ کے متعلق گزشتہ دِنوں خبر آئی کہ گلبرگ والی پُرآسائش رہائش سے دس مرلے کے چھوٹے سے گھر میں منتقل ہوگئی ہیں۔ جہاں تک خوردونوش کا تعلق ہے، اس حوالے سے شہباز صاحب کی سادگی اور کفایت شعاری کے تو ہم بھی عینی شاہد ہیں۔
جدہ کے سرور پیلس میں رات کا کھانا بڑے میاں صاحب (مرحوم) کے سوا، گھر کے سبھی مرد اکٹھا کھاتے۔ سرور پیلس کے وسیع و عریض ڈائننگ ہال میں، دور تک پھیلی ہوئی ڈائننگ ٹیبل پر ذاتی دوست اور مہمان بھی ہوتے۔ پاکستانی اور سعودی ڈشز پر مشتمل ڈنر خاصا پُرتکلف ہوتا۔ میاں نوازشریف خوش خوراک تو ہیں، بسیار خور نہیں۔ وہ ’’ستھرا‘‘ لیکن تھوڑا کھاتے ۔ اُن کی نظر اپنی پلیٹ پر کم اور مہمانوں کی پلیٹوں پر زیادہ ہوتی۔ چاق و چوبند بیرے اُن کی نظر کا اِشارہ سمجھتے تھے چنانچہ وہ مہمانوں کی پلیٹ خالی نہ ہونے دیتے۔
شہباز صاحب یہاں بھی حد درجہ کفایت سے کام لیتے۔ پلیٹ میں سادہ اُبلے ہوئے چاول لیتے، اُوپر دال یا شوربہ ڈالتے، چمچ اور کانٹے کے ’’تکلف‘‘ کی بجائے ہاتھ ہی سے کام چلاتے۔ ہمیں شہباز شریف صاحب کے ساتھ ناشتے کا موقع تو نہیں ملالیکن سنا ہے کہ علی الصبح ہونے والی بریک فاسٹ میٹنگز کے شرکاء کی تواضع کے لئے ایک کپ چائے اور 2سینڈوچ ہوتے ہیں۔ وہ اصل ناشتہ میٹنگ کے بعد اپنے دفتر پہنچ کرکر تے ہیں۔
اور اب کچھ ذکر شام کی ’’ہائی ٹی‘‘ کا....... چند ماہ پہلے کی بات ہے، سی ایم ہاؤس سے فون آیا، یہ چیف منسٹر صاحب کی طرف سے اگلی شام ’’ہائی ٹی‘‘ کی دعوت تھی۔ پہنچتے ہی ایک گلاس جوس.......کچھ دیر بعدچائے اور اس کے ساتھ چھوٹا سموسہ اور ایک آدھ سینڈوچ۔ یہ تھی سی ایم صاحب کی ’’ہائی ٹی‘‘۔
ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ ایسے کم خور چیف منسٹر کے کھانے کیلئے ریفر کنٹینرکی کیا ضرورت؟ اس کے لئے تو درمیانے درجے کا ہاٹ پاٹ بھی شاید کچھ زیادہ ہو۔
اوراب چلتے چلتے ، کچھ ذکر بابائے قوم کا ....... زیارت میں یہ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے۔ بیماری آخری درجے کو پہنچ چکی ، بھوک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا، دواؤں کے ساتھ کچھ خوراک بھی صحت کے لئے ضروری ہے لیکن مریض کو کھانے کی رغبت ہی نہ ہوتی۔ ڈاکٹر کو ایک خیال سوجھا، قائد کے دیرینہ باورچی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا، شاید ان کو راغب کر سکے۔ اس نے محترمہ فاطمہ جناح سے بات کی۔ باورچی کی تلاش شروع ہوئی وہ ہجرت کے بعد لائل پور (اب فیصل آباد) میں آبسا تھا۔ حکومت نے اِسے زیارت پہنچا دیا۔ قائداعظم کی خدمت میں اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پیش کیا گیا۔ طبیعت قدرے راغب ہوئی، اور اپنا دیرینہ باورچی یادآیا۔ بتایا گیا، یہ وہی ہے۔ قائد نے اس کے اخراجات کا پوچھا تو بتایا گیا، یہ حکومت نے ادا کردیئے ہیں۔ قائد کے لئے یہ بات قطعاً ناقابلِ قبول تھی۔ گورنر جنرل کے ذاتی باورچی پر سرکاری خزانے سے اخراجات کیوں؟چیک بک نکالی، چیک کاٹا اور حکومت کو بھجوا دیا۔
تازہ ترین