• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل کتابوں اور مدرسوں پر عجیب وقت پڑا ہے۔ ہر طرف شور ہی شور ہے کچھ کتابوں پر پابندی لگ بھی چکی ہے۔ یہ ضروری بھی ہو مگر جب گندم کے ساتھ گھن بھی پسنے لگے تو ضرورحیرت ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں سرکار کی پالیسی کیا ہے وہ واضح نہیں ہے۔ابتدائی طور پر وہ کتابیں قابل گرفت ہیں جو ملک کے اندر چھاپی گئی ہیں۔ ان کے مصنفین سے کوئی نہیں پوچھتا، پھر اس سلسلہ میں پالیسی کیا ہے۔ وہ سرکاری نوکر شاہی بتانے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار اس وقت دو دھاری تلوارپر چل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کو سرپھرے لوگ طرح طرح کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ سب کی سنتے ہیں اور محتاط انداز میں فیصلے کرتے ہیں۔ وہ کتابوں اور مدرسوں کے بارے میں جلد بازی میں فیصلے نہیں کررہے، مگر حالات کی تلخی ایسی ہے کہ سب معاملات پر غور و فکر کے لئے زیادہ وقت بھی نہیں دیا جاسکتا۔ اس ساری صورتحال میں کتب فروش سب سے زیادہ پریشان نظرآتے ہیں وہ سرکار اور پولیس کے رویے سے شاکی ہیں ،اگر کسی کتاب پر پابندی ضروری ہے تو اس کے بارے میں اطلاع دینی ضروری ہے تاکہ وہ اس کی فروخت نہ کریں۔ اطلاع ملتی ہے کہ آپ قابل گرفت کتاب فروخت کررہے ہیں اور پرچہ ہوتا ہے اور پولیس والے من مانی کرنے لگتے ہیں ۔ اب تمام کتب قابل ضبطی تو نہیں ہوسکتی ہیں، اس لئے کوئی ایسا رہنما اصول ضروری ہے جو فیصلہ کرسکے کہ کس قسم کی کتابوں پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
آج کی صورتحال میں تو یوں لگتا ہے کہ بس دنوں کی بات ہے جب منٹو اور نسیم حجازی کی کتب پر بھی پابندی لگوائی جاسکے گی۔ ابھی حال ہی میں ایک ترقی پسند خاتون نے ان دونوں حضرات پر دہشت گردی کے تناظر میں مضمون باندھا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں اسلامی تاریخ کے ناولوں کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ ادبی تاریخی اسلامی ناول ہمارے مدرسوں میں اہم تصور نہیں کیئے جاتے اور اگر ان کی فروخت دیکھی جائے تو چند ہزار سے زیادہ نہ ہوگی۔ کروڑوں کی آبادی والے ملک میں چند ہزار کے تاریخی اسلامی ناول کیا انقلاب لاسکتے ہیں۔ دوسری طرف منٹومرحوم نے جو کچھ لکھا وہ معاشرتی گھٹن کے تناظر میں تھا اور ویسی گھٹن تو اب بھی ہو ، مگر منٹو کی کتب بھی اتنے سالوں میں چند ہزار ہی چھپی ہوں گی ،ایسے میں ایسا موازنہ ،پسند اور نہ پسند کے حوالہ سے ہوسکتا ہے۔ اس کوحیثیت اور اہمیت دینی ممکن نہیں، پھر فاضل مصنف کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اسلامی تاریخی ناولوں سے دوسرے لکھنے والے بھی متاثر ہیں، مگر وہ کیسے اس کا جواب ان کے پاس نہیں مگر اس کے نتیجہ میں سرکار کو موقع مل جائے گا کہ وہ منٹو اور نسیم حجازی جیسے لکھنے والوں پر پابندی کا قانون لاگو کرسکیں ،پھر پابندی کا دائرہ تمام ایسی تحریروں پر لاگو کیا جاسکتا ہے جو ہماری سرکار اور اشرافیہ کو پسند نہ ہو۔ خواتین کا لکھنا مناسب نہیں ، حبیب جالب اگر شکوہ شکایت کرتا ہے تو وہ سازشی ہے اور سرکار اور ریاست کے امن کا دشمن ۔ اس کو پڑھ کر لوگ وحشت اور دہشت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ فیض احمد فیض پر بھی قدغن لگ سکتی ہے اور تو اور حفیظ جالندھری کا شاہ نامہ اسلام بھی قابل گرفت ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا نام احترام سے نہیں لیا، اس لئے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ بے چارے علامہ اقبال کا شکوہ جواب شکوہ کو بھی نوٹس جاری ہوجائے گا کہ آپ کو کس نے حق دیا کہ اللہ کے حضور شکوہ کریں اور صبر کا دامن چھوڑ کر جواب شکوہ لکھیں۔
یہ ساری صورتحال اس وجہ سے ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اسکول اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے ، اگرچہ اسکولوں اور مدرسوں میں فرق ہے مگر تربیت کا انداز کسی بھی جگہ مناسب نہیں ہے اور سرکار بھی تعلیم کے معاملہ کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ رہی کتاب کی بات کتاب پہلے بھی قابل گرفت تھی اور اب تو اور زیادہ ہوگئی۔ کتابوں کو پڑھ پڑھ کر ہمارے لوگ کچھ حاصل نہیں کرسکے اس لئے ان پر بھی پابندی ضروری ہے۔ہماری سرکار کے پاس سب سے موثر ہتھیار پابندی کا ہے کسی بھی سلسلے اور معاملے میں پابندی ضروری ہے اور آئے دن ہم اصول اور قانون کی پابندی سے آزاد ہورہے ہیں۔ اب یہ بھی خبر ہے کہ میڈیا پر ملکی صورتحال کے نتیجہ میں پابندی لگانے کا سوچا جارہاہے اور اس کے لئے جنرل پرویز مشرف کے ہم خیال لوگوں کی مشاورت لی جارہی ہے۔ حالیہ پٹرول کے بحران میں عوام کی حالت زار کو میڈیا نے استعمال کرکے سرکار کو بدنام کرنے کی جسارت کی۔ میڈیا کی اس شرارت سے عوام بغاوت بھی کرسکتے تھے، اس لئے ضروری ہے کہ خبر اور اخبار، لفظ پر پابندی کا قانون نافذ کیا جائے تاکہ ملکی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ یہ سب کچھ اپنے اپنے مطلب کے لئے بہت ضروری بھی ہے۔ اب یہ سچ اور حق کی جنگ ہے۔ سرکار حق پر ہے اور عوام سچ پر اور سچ کو کبھی بھی جگہ نہیں ملتی۔
میں جہاں کھڑا ہوں
بس اتنی جگہ میری ہے
گرم ہوائوں سے
میرا بدن چھلنی ہے
سرد پانیوں سے
میرے پائوں شل ہیں
میں جہاں کھڑا ہوں
کہ دنیا میں سچ کو
بس اتنی جگہ ملتی ہے
بس سرکار حق پر ہے پابند کرنا اس کا حق ہے
تازہ ترین