• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج اگر میں نوجوانوں کے کسی گروہ سے یہ کہوں کہ تم تو بہت بہادر، نڈر اور جانباز لوگ ہو، تمہارے آبائو اجداد بھی بہت عظیم تھے۔ تم ایسے مجاہدوں کے وارث ہو جنہوں نے شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کی ہزارسالہ زندگی سے بہتر جانا۔ تم مسلمان ہو اور مسلمان کبھی موت سے نہیں ڈرتا، وہ تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ تمہارے دشمن تو اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اس لئے وہ موت سے ڈرتے ہیں، وہ بزدل ہیں جبکہ مومن کیلئے یہ دنیا مردار ہے، لہٰذا …اٹھو! اور اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر ٹوٹ پڑو، اللہ تمہارے ساتھ ہے، اس کی غیبی مدد تمہارے شامل حال ہوگی اور تم دونوں صورتوں میں سرخرو ہو جائو گے۔ مر گئے تو شہید، بچ گئے تو غازی۔ تو نہیں معلوم کہ نتیجتاً نوجوانوں کے اس گروہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس کے برعکس ایک دوسرا شخص ہے جو اسی نوجوان گروہ کو اصل صورت حال کا آئینہ دکھاتا اور یہ بتلاتا ہے کہ میرے بچو! ہوش کرو، عقل کے ناخن لو، یہ دنیا خوبصورت اور زندگی انمول ہے، اس سے پیار کرو جس خالق نے تمہیں یہ زندگی بخشی ہے، اس نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اسے ہلاکت میں مت ڈالو، اگر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی بھی کرتا ہے تو اپنا سینہ بڑا رکھو۔ تمہارے مذہب نے تو تمہیں انسانیت کیلئے فلاح و سلامتی اور محبت کے بہت سے اصول سکھلائے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری تم پر ہے کہ ان اصولوں کاپرچار کرو، دلوں کو فتح کرو، اس کیلئے توپوں اور تلواروں کی نہیں میٹھے بولوں کی ضرورت ہے۔ تم جن حالات میں ہو، کوڑا ڈالنے والوں کی بھی عیادت کرنے جائو، دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنے کیلئے محبت اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، دلیل کیلئے علم درکار ہے لہٰذا تم سب سے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دو، اپنے اور اپنے کنبے کے شعوری ہی نہیں معاشی حالات بھی بہتر بنائو۔اگر آپ کے دل میں حق کیلئے جان دینے کی تڑپ ہے تو پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرو، تصورات اور خوابوں کی مصنوعی دنیا سے نکلو، زمینی حقائق کو پہچانو اور حقائق کی دنیا میں آجائو۔ تم اصلاح کے واحد ٹھیکیدار نہیں ہو، اوپر خدا کی بھی ایک ذات بیٹھی ہوئی ہے۔ لہٰذا میرے بچو! انسانیت کی بھلائی سوچو، حالات کی کروٹ پہچانو،علمی و فکری جدوجہد بھی جہاد ہی کی ایک اعلیٰ قسم ہے جبکہ تلوار تو ناگزیر ترین حالات میں تب اٹھائی جاتی ہے جب آپ کے اظہار رائے پر پابندی لگا دی جائے، جب آپ کے اعلیٰ انسانی خیالات و جذبات کو دوسروں تک پہنچائے جانے کو بالجبر روک دیا جائے۔ شرف انسانی تو تمام اولاد آدم کیلئے ہے، دیگر تمام اقوام عالم بھی اسی آدم کی اولاد ہیں جس کی تم اولاد ہو، تم سب بھائی بند ہو۔ کیا دنیا میں انسانی حقوق سے بھی بڑا کوئی حق ہے؟
اگر دوسرے یہ حقوق ادا نہیں کر رہے تو کیا دوسرے کی برائی تمہیں یہ حق دیتی ہے کہ تم بھی برے بن جائو۔ کیا گالی کا جواب گالی ہوتا ہے؟ دوسروں کو تو شاید یہ وطیرہ زیب دیتا ہو لیکن امن اور سلامتی کی علمبردار وہ قوم جس کے تم فرزند ہو، اس کی تو خوبی ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ داعی قوم ہے۔ اس کو تو اٹھایا ہی اسی مقصد کے تحت گیا تھا کہ وہ انسانوں کی بھلائی کیلئے کام کرے گی۔ تمہارے اجداد کو تو اصل کامیابیاں ہی اسی پیغام محبت سے نصیب ہوئیں۔
شک ہے تو تمام صوفیائے کرام کے طریق دعوت اور اس کے نتائج کا تفصیلی مطالعہ کرلو۔اس دوسرے شخص کی باتیں سن کر نوجوانوں کا وہ گروہ نفرت کی جگہ محبت، غصہ کی بجائے سکون، جذباتیت کے بالمقابل عقل و شعور کی طرف آ جاتا ہے اور ہم عصر حریفوں کو سلامتی کی راہ دکھلاتا ہے۔ کیا اس نسل کے سامنے ترقی کی راہیں وا ہوں گی یا بند؟
تازہ ترین