• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت عجیب صورت حال سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف تو جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اقو م متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیر پر اتنا واضح موقف اختیار کیا گیا ہے۔ برہان وانی کا نام لینے سے، بھارتی مظالم کا ڈوزیئر پیش کرنے سے وہی رد عمل ہوا جس کی توقع تھی۔ بھارتی میڈیا میں آگ لگ گئی۔ ہندوستان ٹائمز کی یہ شہ سرخی ہی پاکستان کے موضوع کی قوت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ نواز شریف کی تقریر سے پہلے کبھی بھارت پر کشمیر کے حوالے سے کسی بھی بین الا قومی فورم پر اس شدت سے حملہ نہیں ہوا۔ بھارتی میڈیا کا بس نہیں چل رہا کہ کل کی ہوتی ہوئی جنگ آج ہو جائے۔ کچھ نقاد وزیر اعظم کی تقریر کے بعد اس بات پر مصر تھے کہ کلبھوشن یادیو کا نام اس تقریر میں لینا چاہئے تھا۔ بلو چستان میں بھارت کی دراندازی کا تذکرہ کرنا چاہئے تھا۔ لیکن آنے والے واقعات نے وزیر اعظم کی تقریر اور اس کے پیرائے کو درست ثابت کیا۔ بلوچستان کا تذکرہ ہماری داخلہ کمزوری کو ظاہر کر سکتا تھا اور ایک کلبھوشن کا ذکر وزیر اعظم کا منصب نہیں تھا۔ اس تقریر کے جواب میںبھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وہ زہر اگلا کہ جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اس تقریر سے واضح ہو رہا تھاکہ بھارت پر ضرب کاری لگی ہے۔ زخم گہرا ہے اور اس کی تکلیف بہت مدت تک رہے گی۔سشما سوراج کی تقریر کا جواب ملیحہ لودھی نے نہایت مدلل طریقے سے دے کرسفارتی سطح پر اپنی مہارت کو منوا لیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی تقریر میں وہ سارے مسائل زیر بحث آئے جو وزیر اعظم کی تقریر میں تشنہ رہ گئے تھے۔ پاکستان کا موقف نہایت مضبوطی اور استدلال سے بیان کیا گیا۔ سارے معاملات کا باریکی سے جواب دیا گیا اورسشما سوراج کے پھیلائے زہر کا بہت حد تک تریاق کیا گیا۔ لیکن بھارت کے سینے پر لگا زخم اس بات سے اور گہرا ہو گیا۔ سرحدوں پر فوج تعینات ہونے لگی۔ فوجی مشقیںشروع ہو گئیں۔ کبھی کولڈ اسٹارٹ اور کبھی ہاٹ اسٹارٹ کی بات سامنے آنے لگی۔ پانی بند کر دینے کی دھمکیاں سامنے آنے لگیں۔ سرجیکل اسٹرائیک کے آپشن کی آواز سنائی دینے لگی۔سرحدوں پر گولہ باری کے اکا دکا واقعات سامنے آنے لگے۔ پاک فوج اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں سے نمٹنے کیلئے تیار نظر آنے لگی۔حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ دنیا کی دو نیوکلیئر طاقتوں پر ایک خوفناک جنگ کے خطرات منڈلانے لگے۔
داخلی محاذ پر پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں دست و گریبان ہیں۔ پی ٹی آئی ایک دفعہ پھر پاناما لیکس پر ایک بہت بڑے احتجاج کی عوامی اپیل کر چکی ہے۔ اس دفعہ جلسے کیلئے رائے ونڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ابتداء میں چند جوشیلے بیان جاتی امرا میں وزیر اعظم کی ذاتی رہائش کا گھیرائو کرنے کے حوالے سے بھی سامنے آئے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی اس احتجاج سے الگ ہو گئی کہ کسی سیاسی شخصیت کے گھر کا گھیرائو انکی پالیسی نہیں ہے۔ ق لیگ کی طرف سے بھی اسی موقف کواختیار کیا گیا اور وہ بھی اس احتجاجی صف سے باہر ہو گئے۔ عمراان خان کے ایک بہت بڑے حلیف طاہر القادری ایک دفعہ پھر عین موقع پر داغ مفارقت دے گئے۔اب لے دے کر پی ٹی آئی کے پاس شیخ رشید کی جماعت کا سہارا ہے جسکی عوامی مقبولیت پر سوال کیا جا سکتا ہے۔عمران خان کو یہ سب حقائق انکے احتجاج سے نہ روک سکے اور تادم تحریر وہ رائے ونڈ کے جلسے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ لاہور میں جگہ جگہ خطاب کرکے کارکنوں کی احتجاج میں شمولیت کو یقینی بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔علیم خان کواس احتجاجی مہم کا سربراہ بنایا گیا ہے اور لاہور میں تحریک انصاف کے اپنے اختلافی گروپ میں وقتی طور پر صلح کروا دی گئی ہے۔ کارکنوں کے بلا بردارگروپ تیار کئے جا رہے ہیں اور راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو بزور بازو شکست دینے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔حکومت نے اس احتجاجی تحریک کے حوالے سے نہایت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ زعیم قادری اور عابد شیر کے بیانات جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈنڈا بردار گروپ ، جان نثاران نواز شریف کی بیٹھکیں، اور گلو بٹ کے بھائی کی انٹری صورت حال کو نہایت افسوسناک بنا رہی ہے۔گو کہ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ اب ان سب باتوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر صورت حال اب مکدر ہو گئی ہے۔ رائے ونڈ ایک چھوٹی سی سڑک ہے۔ شام کے وقت یہاں پانچ ہزار کا مجمع بھی بہت لگتا ہے۔جوشیلے کارکنوں میں تصادم کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔ اس جوش میں اگر کہیں سے گولی چلی تو کیسے پتہ چلے گا کہ پہلی غلطی کس کی تھی۔ کس نے کس کا جھنڈااٹھایا تھا، کون کس کا نعرہ لگا رہا تھا۔ کس نے کس کی وردی پہنی تھی۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی حادثہ ہوا تو لوگ شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کے امن پسند بیانات نہیںیاد رکھیں گے۔سارا الزام زعیم قادری کی ڈنڈا بردار فورس اور جاں نثاران نواز شریف پر آئے گا۔ چینل انہی کے دھمکی آمیز خطاب بار بار لوگوں کودکھائیں گے۔ہنگامی ، حادثے اور سانحے کا انہی لوگوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔
ملکی، خارجی اور داخلی صورت حال کا احوال بیان کرنے کے بعد یہ بات بڑے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عران خان کی ٹائمنگ ہمیشہ کی طرح درست نہیں ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی پر احتجاج اپوزیشن کا بنیادی حق ہے۔ حکومتی امور میں کرپشن کا شائبہ بھی ہو تو اس پر جلسے جلوس جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن ایسے موقع پر جبکہ ملک اپنی سرحدوں پر جنگ کے خطرے سے دوچار ہو اس قسم کا احتجاج صرف اور صرف خود غرضی اور موقع پرستی کے زمرے میںآتا ہے۔ جب آپ اقوام متحدہ میں اپنے دیرینہ موقف کاپہلی دفعہ مضبوطی سے اظہار کر چکے ہوں تو اپنے وزیر اعظم کو مودی سرکار کے اشاروں پر چلنے والے کا الزام دینا حماقت ہے۔ جب بھارت ہماری سرحدوں پر در اندازی کر رہا ہو ایسے موقع پر اپنی حکومت کو غدار کہنا قومی جرم ہے۔ جنگ کی حالت میں خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا کرنا ملک سے بے وفائی ہے۔جب ہمارا طاقتور دشمن ہمیں اپنی طاقت سے مرعوب کرنے کی مجرمانہ کوشش کر رہا ہو ایسے موقع پر اپنی حکومت کو کمزور کرنا ریاست کے ساتھ ظلم ہے۔ خان صاحب اب اس ملک کے عوام کے سامنے ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آ رہے ہیں جو ہوس اقتدار کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ خان صاحب کا یہ خود غرضانہ رویہ پی ٹی آئی کے سمجھدار ووٹر کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس ملک کی تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس ریاست کی سالمیت اور استحکام کے ساتھ زیادتی ہے۔
یہ وقت اتحاد کا ہے اختلاف کا نہیں، یہ وقت تعاون کا ہے تصادم کا نہیں، یہ وقت جدا ہونے کا نہیں اکھٹے ہونے کا ہے۔ یہ وقت جذبہ حب الوطنی دکھانے کا ہے۔ ہجوم سے قوم بن جانے کا ہے۔



.
تازہ ترین