• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ایک کہانی سنئے۔ ذہن میں آنے والے ایک خیال کی کہانی۔ آپ کو اس میں ساجھے دار بنارہا ہوں کیونکہ خدا جانے کیوں یہ سوچتا ہوں کہ یہ خیال کبھی نہ کبھی آپ کے ذہن میں بھی آیا ہوگا۔ خیال یہ ہے کہ عمر کے کسی اہم موڑ پر اپنا روزنامچہ لکھنا شروع کیا ہوتا تو آج تک اس میں کیسی کیسی کہانیاں جمع ہو جاتیں۔ زندگی میں کتنے ہی مرحلے آئے جو روزنامچہ لکھنے کے لئے بے مثال نقطہء آغاز ہوتے۔ مثال کے طور پر جب لکھنا پڑھنا سیکھا، یاجب اسکول جانا شروع کیا، یاجب آزادی کی تحریک دیکھی، یا برصغیر کو آزادی ملنے والی رات آئی، یا ہر جانب فسادات ہوئے ، یا جب ہندوستان چھوڑا اور سرزمین پاکستان پر قدم رکھا اس روز کیسا لاجواب روزنامچہ شروع ہو سکتا تھا۔ پھر وہ پہلا پہلا عشق اور دنیا کا اچھا لگنا، کالج کا زمانہ، اخبار کی ملازمت، پھر صحافت کی دنیا میں جد و جہد اور زندگی کا وہ روز جس دن روزنامچے کا پہلا ورق لکھا جاتا تو کتنا اچھا ہوتا، یعنی پاکستان کو خیرباد کہہ کر برٹش ائرویز کے طیارے میں سوار ہونا اور اگلی صبح ایک عالمی نشریاتی ادارے میں شمولیت اختیار کرنا۔ بی بی سی سے تیس سال سے زیادہ کا تعلق ایک غیر معمولی داستان بنتا اور حالات اور واقعات کا ایسا مرقع ترتیب پاتا کہ بعد میں اسے پڑھ کر سب سے زیادہ میں خود حیران ہو ا کرتا۔
مگر اب تو دیر ہوگئی اور زندگی کی گاڑی اتنی آگے نکل گئی ہے کہ اس کے پچھواڑے کی روشنی بھی مدھم مدھم سی نظر آتی ہے۔ادھر چند برسوں کے دوران میں نے اپنی اخباری اور نشریاتی زندگی کی وہ داستانیں لکھیں جو ذہن کے کسی گوشے میں رہ گئی تھیں مگر یہ خیال ستاتا رہا کہ ان میں کافی کمی رہ گئی ہے۔
اب سنئے کیا ہوا۔ ابھی کچھ روز ہوئے دماغ میں ایک بجلی سی کوندی۔ سوچا کہ ایک فارسی کہاوت کا کیا خوب ترجمہ ہوا ہے کہ دیر سے آئے ، خوب آئے۔ چلو کیوں نہ آج کے دنوں کا احوال لکھیں اور اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لئے چھوڑ جائیں۔ کاغذ آراستہ کئے گئے، قلم درست کئے گئے، نشست کا یوں اہتمام ہوا کہ روشنی کی سمت درست ہو، اب آیا مرحلہ تحریر کا۔بس پھر نہ پوچھئے اور میرے روزنامچہ کا وہ ورق پڑھئے جو اس تاریخی ڈائری کاپہلاورق بھی ہے اور آخری بھی۔
منگل۔ تین فروری سنہ دو ہزار پندرہ
لندن میں ویسا ہی جاڑا ہے جیسا ہر سال فروری کے مہینے میں ہوا کرتا ہے۔ وہ جو ہمارے زمانے میں لڑکے قلمی دوستی کےلئے اپنا حال احوال رسالوں میں چھپواتے تھے اور لکھا کرتے تھے کہ میں زندگی کی ، مثال کے طور پر پندرہ بہاریں دیکھ چکا ہوں ،اسی طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ لندن کے کوئی بیالیس جاڑے دیکھ چکا ہوں۔ ان سردیوں کا ایک نقصان یہ ہے کہ انسان بند ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کے بہت سے کام بند ہوجاتے ہیں۔ میری مشکل یہ ہے کہ ایک آنکھ سے موتیا نکالا گیا ہے اس کے بعد ابھی تک حالت یہ ہے کہ چاند تو صاف نظر آتا ہے لیکن کتاب نہیں پڑھی جاتی۔ ایسے میں غنیمت ہے کہ ٹیلی وژن دیکھ لیا جاتا ہے۔میری ڈائری کے اس صفحے پر ٹی وی چھایا ہوا نظر آئے تو حیران نہ ہوئیے گا اور یہ بھی نہ سمجھئے گا کہ ’’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘۔ہاں، تو دن بالکل ویسے ہی شروع ہوا جیسے ہر دن ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ رات کو بے سُدھ سوئے، دن کا اجالا ہوا تو خود کو جیتا جاگتا پایا۔ بس ایسے میں یہ خیال ستاتا ہے کہ یہ جو ایک اور دن کی مہلت ملی ہے اس کا کوئی اچھا سا مصرف نکل آئے تو کتنا اچھا ہو۔ یہی سوچتے سوچتے ٹی وی کھولا اور خبریں شروع ہوئیں۔ یہی ہے دل کو سنبھال کر بیٹھ رہنے کا مقام۔ سنئے:اناڑی ڈاکٹروں نے بچہ پیدا کرایا اور اس کارروائی کے دوران پھول جیسے بچے کے ایک بازو کی ہڈی ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو گئی۔دوسری خبر یہ کہ تیز رفتار گاڑی کے نیچے آکر بچہ مرگیا۔ گاڑی کا ڈرائیور موقع سے بھاگ گیا۔ پشاور میں تو غضب ہی ہوگیا۔ پندرہ نو عمر لڑکیاں گندے پانی کے کنویں میں گر گئیں۔ نو لڑکیوں کو تو لوگوں نے اپنی مدد آپ کرکے بچا لیا لیکن چھ پچیاں وہیں ڈوب کر مرگئیں۔ یہ لڑکیاں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں قران پڑھنے آتی تھیں جہاں انہیں ایک اندھے کنویں کے اوپر رکھے ہوئے بڑے پتھروں پر رکھی کھاٹوں پر بٹھا کر پڑھایا جاتا تھا۔ آج صبح وہ پتھر گر گئے جن کے ساتھ ہی بچیاں بھی کنویں میں جارہیں۔ چھ کی لاشیں نکالی گئیں تو علاقے میں کہرام مچ گیا۔ ایک اور خبر یہ کہ لاہور میں موٹر سائیکل پر سوار ایک بھیانک صورت شکل کا آدمی ایک اسکول پردو کریکر پھینک کر فرار ہوگیا۔ اس آدمی کو کلوز سرکٹ کیمرے نے دیکھا ہے۔ کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن حملے کا مقصد بچوں اور اسکول کے عملے کو ڈرانا تھا۔ بعد میں بچوں نے جنہیں پشاور میں بچوں کا قتل عام یاد تھا اعلان کیا کہ وہ ڈریں گے نہیں اور پڑھتے رہیں گے۔ کراچی سے ایک اور خبر آئی۔ بے رحم باپ اپنے چھ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایدھی سینٹر میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ پتہ چلا کہ میاں بیوی میں رات دن جھگڑا ہوا کرتا تھا اور بچوں نے بتایا کہ وہ ان کی ماں کو قمچیوں سے مارا کرتاتھا۔ بڑا بچہ چھ سال کا اور چھوٹا آٹھ مہینے کا ہے۔ ایدھی سینٹر نے ان کی دیکھ بھال شروع کردی ہے۔کسی جگہ ایک بے رحم شخص نے ڈیڑھ سال کی بچی پر وحشیانہ حملہ کیا اور اس کا گلا دبا کر بچی کو مار ڈالا۔ ناتھا خان کے مقام پر ایک کار حادثے کا شکار ہوئی جس میں سوا ر بڑے تو بچ گئے لیکن ایک بچہ مرگیا۔ دن بھر اسی طرح کی خبریں آتی رہیں۔ رات گہری ہو چلی تھی اور سونے کا وقت قریب تھا کہ ایک اور خبر آئی۔ ماں باپ اپنی کمسن بیٹی کو لے کر شہر میں پہنچے ہیں۔ بچی کو جلد کا سرطان ہے اور وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہے۔ علاج کے لئے کئی لاکھ روپے درکار ہیں جو ماں باپ کے پاس نہیں۔ وہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی درد مند آئے اور ان کی بیٹی کو مرنے سے بچائے۔ آخری خبریں آنے تک کوئی نہیں آیا تھا۔
میں نے اس بات کا شکر ادا نہیں کیا کہ دن ختم ہوا بلکہ اس احساس نے میرا سر جھکا دیا کہ خبریں ختم ہوئیں۔ یہ کسی ایک روز کا قصہ نہیں ، یہ ہر روز کی داستان ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کا جو حال ہے وہ مارے ڈالتا ہے۔ سُنا ہے کہ کتنے ہی والدین جو صبح بچوں کو اسکول لے جاتے ہیں،دن بھر وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور سہ پہر کو بچوں کو واپس لاتے ہیں ۔بس میں یہاں اپنے روزنامچہ کا ورق نہیں بلکہ روزنامچہ ہی ختم کرتا ہوں۔ میرے لئے ممکن نہیں کہ جب تک جیئوں اپنی اس تحریر کو پڑھ پڑھ کر دل کو اور چھلنی کرتا رہوں جس میں مزید چھلنی ہونے کی گنجائش ہی نہیں۔
سوچتا ہوں،دنیا والے بچوں کا عالمی دن مناتے ہیں۔ افریقہ میں فاقو ں اور بیماریوں سے مر جانے والے بچوں کی جانیں بچانے کے لئے دنیا بھر سے امداد بھیجی جارہی ہے۔ مشرقی یورپ کی عورتوں میں ایڈز کی وبا پھیل رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان عورتوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے اپنے اندر ایڈز کی بیماری لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی جانیں بچانے کےلئے وہاں دوائیں بھیجی جارہی ہیں۔ برطانیہ میں ایک ادارہ ہے جو بے رحم والدین کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کو ظلم سے بچانے کی تدبیریں کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر دنیا میں بچّوں کے حقوق کا ایک منشور بھی ہے جس پر شاید سارے ہی ملکوں نے دستخط کئے ہیں اور یہ پیمان باندھا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کا حق دیں گے۔ ان کی صحت کی ذمہ داری لیں گے، ان کے لئے تعلیم یقینی بنائیں گے اور انہیں دنیا کا کارآمد شہری بنائیں گے۔
پتہ نہیں۔ مجھے تو پاکستان کے ضلع جھنگ کے اس اسکول کی عمارت یاد آتی ہے جس کے بچے غائب تھے اور جس کے کلاس روم میں مویشی بندھے تھے ۔اس وقت یہ مویشی اور ترقیاتی فنڈ ہڑپ کر جانے والے حکام ، دونوں مل کر ایک ہی کام کررہے تھے۔ دونوں جگالی کر رہے تھے۔
تازہ ترین