• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانی ٔ پاکستان کی بوڑھی آنکھیں چمک اُٹھتیں، چہرے پر اعتماد اور یقین کا نور سا پھیل جاتا، جب وہ پُرعزم لہجے میں مملکتِ خداداد کے روشن تر مستقبل کا ذکر کرتے۔ اس میں کیا شک ہے کہ کانگریس نے تقسیم کا کڑوا گھونٹ بادلِ نخواستہ بھرا تھا لیکن کانگریسی لیڈروں میں سے بیشتر اس خوش گمانی کا شکار تھے کہ تقسیم کی یہ لکیر عارضی ہے۔ پاکستان چلنے والا نہیں، چند مہینے نہ سہی، زیادہ سے زیادہ چند برسوں کی بات ہے، خود پاکستانی لیڈر، ہاتھ جوڑ کر ہندوستان میں شمولیت کے لئے درخواست گزار ہوں گے۔ تب حالات واقعی ناسازگار تھے، ایسے میں بانی ٔ پاکستان کے الفاظ مایوس دِلوں کو یقین سے معمور کردیتے کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ وہ اپنی تقاریر میں نوزائیدہ مملکت میں قدرت کے عطا کردہ وسائل کا حوالہ دیتے، جو کسی بھی قوم کو، کسی بھی ملک کو، اقوام کی برادری میں اقتصادی لحاظ سے سرفراز و سربلند کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ حکیم سعید مرحوم اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے، سورۂ رحمن میں، اور قرآنِ پاک میں کچھ اور مقامات پر بھی، جن نعمتوں کا ذکر آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اس سے کچھ زیادہ ہی نعمتیں عطاکی ہیں۔اس میں کیا شک ہے کہ سٹرٹیجک پوزیشن کے علاوہ بھی قدرت نے پاکستان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔
بدھ کی سہ پہر وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف چنیوٹ میں انہی خداداد خزانوں کا ذِکر کر رہے تھے، ہم لوہے کی تلاش میں نکلے تھے، قدرت نے سونے اور تانبے کے ذخائر سے نواز دیا۔ مشرف دور میں(جب گجرات کے چھوٹے چودھری صاحب ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ تھے)قدرت کا یہ عظیم عطیہ جس لوٹ مار کا شکار ہونے والا تھا اور پھر شہباز شریف نے اسے جس طرح لوٹ مافیا کے جبڑوں سے نکالا، اس کی تفصیل ٹی وی چینلز کی لائیو کاسٹ میں ساری دُنیا سن چکی، کچھ ذکر برادر محترم عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں بھی کر دیا۔ یہاں سینڈک اور ریکوڈک پر گزر جانے والا المیہ بھی یاد آیا لیکن اب معاملہ مختلف ہے کہ وفاق اور صوبے میں بھی وہ لیڈر شپ ہے، کشکول توڑنا اور پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانا جس کا دیرینہ خواب ہے، جس نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں پاکستان کو موٹر وے دی اور یوں پاکستان جنوبی ایشیاء میں اس اعزاز کا حامل پہلا ملک قرار پایاجس نے پنجاب میں اپنے گزشتہ دور میںلاہور میں تقریباً 30 کلومیٹر کا میٹرو منصوبہ صرف گیارہ ماہ میں مکمل کردیا۔ اس برق رفتاری پر ہمارے ترک دوست بھی حیران رہ گئے۔ (ڈھائی، ڈھائی سال پر مشتمل ، نوازشریف کے گزشتہ ، دونوں ادوار کی اقتصادی اصلاحات اور تعمیر و ترقی کے مختلف منصوبوں کی تفصیل ایک الگ کالم (بلکہ سلسلۂ مضامین) کی متقاضی ہے۔موٹر وے یا لاہور میٹرو کا ذکر تو ہم نے محض مثال کے طور پر کیا)۔ پاک چائنا کوریڈور کے بعد، چنیوٹ میں سونے، تانبے اور لوہے کے یہ ذخائر قدرت کی ایک اور نعمت عظمیٰ ہے، جناب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے جسے بجا طور پرایک اورگیم چینجر قرار دیاہے۔ اٹھارویں ترمیم کی رو سے قدرتی وسائل پر پہلا حق ان وسائل کے حامل صوبے کا ہے لیکن خادمِ پنجاب اِسے صرف اپنے صوبے کی نہیں، بلکہ پاکستان کے 18کروڑ عوام کی ملکیت قرار دے رہے تھے۔سیاستدان اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت شعبدہ بازی کو بھی روا رکھتے ہیں۔ بے پناہ ذہین و فطین ذوالفقار علی بھٹو، اداکاری کو بھی سیاست کا حصہ سمجھتے تھے۔ ایک روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں پٹرول سے بھری شیشی لے آئے اور مفتی صاحب (مرحوم) کو سنگھاتے ہوئے کہا، دیکھو، پاکستان میں ہمارے دور میں تیل بھی نکل آیا ہے لیکن چنیوٹ میں یہ کوئی پولیٹیکل trick نہیں تھا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کی لیبارٹریاں بھی اِن بیش وقت قدرتی ذخائر کی تصدیق کر چکیں۔ ان کے مطابق اس خام ذخیرے میں ساٹھ، پینسٹھ فیصد اعلیٰ درجے کا فولاد پایا جاتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں تقریباً دوہزار مربع کلومیٹر پر50کروڑ ٹن خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں۔چنیوٹ کی خوشیوں بھری اس تقریب میں وزیراعظم نے ملک کے موجودہ تلخ معاشی حقائق کا ذکر بھی ضروری سمجھا، گویا اپنا دِل قوم کے سامنے کھول کے رکھ دیا۔ نواب زادہ صاحب تو برسوں پہلے کہا کرتے تھے کہ پاکستان ’’اَن گورن ایبل‘‘ ہوتا جارہا ہے۔ کسے یاد نہیں کہ جون 2013 میں نوازشریف نے (تیسری بار) اقتدار سنبھالا تو پاکستان کس حال میں تھا؟ وزیراعظم نے یہاں اپنے پیش رو کا حوالہ دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں کہا تھا، پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پھولوں کا بستر نہیں، کانٹوں کی سیج ہے جس پر آپ آبیٹھے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ 2008 میں گیلانی نے اقتدار سنبھالا تو ملک میں مشرف کے بوئے ہوئے کانٹوں کی فصل لہلہا رہی تھی لیکن بدقسمتی سے جناب گیلانی اور ان کے رفقاء نے بھی اُن کانٹوں میں اضافہ ہی کیا۔ نوازشریف تو 2010 ہی میں کہنے لگے تھے کہ میثاقِ جمہوریت کے بعد اب قوم کو میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے۔ تمام پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں، ملک کے اکنامک سروائیول کو کامن کاز بنائیں اور عہد کریں کہ اس پر سیاست نہیں کریں گے۔ وہ آئندہ پندرہ، بیس سال کے لئے معاشی اہداف کا تعین کریں اور فیصلہ کریں کہ عوام عام انتخابات میں جسے بھی اپنے اعتماد کے قابل سمجھیں، وہ اِن اہداف کی طرف سفر کو آگے بڑھائے گا۔ ہم جس نوازشریف کو جانتے ہیں، وہ عام حالات میں قدرے آرام طلب لیکن چیلنج درپیش ہو تو ایک مختلف نوازشریف ہوتا ہے، تب کوہ کنی میں اسے دن رات کا ہوش نہیں ہوتا۔ 11مئی 2013 کے پانچ سالہ مینڈیٹ کے 20ماہ گزر چکے ۔ اس میں چار، پانچ ماہ دھرنے والوں کی نذر ہوگئے، کچھ وقت منصوبہ سازی میں گزر گیا۔ دہشت گردی کا چیلنج اپنی جگہ تھا۔ یہ اُمید بے جا نہیں ہوگی کہ اپنے موجودہ مینڈیٹ کے باقی سوا تین سال کے ہر دِن کو نوازشریف اور ان کی ٹیم عرصۂ امتحان کے طور پر لے گی۔گزشتہ ماہ ہفتہ بھر کا تیل کا بحران اہلِ پنجاب کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ بہت سوں کو یہ بھول چکا، باقیوں کو بھی بھول جائے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ کسی اور بحران کا سامنا نہ ہو۔ یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ حکومت اسے نہیں بھولی۔ بحران کے اُنہی دِنوں میں وزیراعظم کے حکم پر چار اعلیٰ افسران معطل کر دیئے گئے تھے۔ گزشتہ روز چیئرمین اوگرا کی تین ماہ کی جبری چھٹی اور ان کے خلاف ریفرنس فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو بھیجنے کی خبر آئی۔پاکستان اسٹیٹ آئل کا بورڈ بھی تحلیل کردیا گیاہے۔ ان میں سے کون کتنا ذمہ دار ہے؟ غیر جانبدار اور صاف شفاف تحقیقات کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن مناسب ہوتا کہ سب سے پہلے وزیر پٹرولیم جناب خاقان عباسی اس بحران کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوجاتے۔ جناب عباسی کا امیج ایک باوقار، صاف ستھری اور سلجھی ہوئی شخصیت کا ہے۔ ان کے والد جناب خاقان عباسی بھی امانت و دیانت کی شہرت رکھتے تھے۔(1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین راجہ ظفر الحق کو شکست دی تھی جس کے بعد وہ جونیجو کابینہ کا حصہ بھی رہے اور 10اپریل 1988 کے سانحۂ اوجڑی کیمپ میں اس دُنیا سے رخصت ہوگئے)۔ جناب شاہد خاقان عباسی نے خود کو میراثِ پدر کے لائق ثابت کیا۔ نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) سے ان کی وفاداری کسی بھی شک و شبہے سے بالا تر ہے۔ اس میں وہ ہر آزمائش میں پورے اُترے۔
12اکتوبر1999 ءکی فوجی کارروائی کے وقت وہ پی آئی اے کے چیئرمین تھے۔ مشرف نے طیارہ اغوا کیس میں انہیں میاں صاحب کے خلاف گواہ بنانے کی بہت کوشش کی۔ اس کے لئے اسٹک اینڈ کیرٹ کا ہر حربہ ڈکٹیٹر نے آزمایالیکن قید تنہائی سمیت کوئی بھی آزمائش شاہد خاقان کی وفا داری کو متزلزل نہ کرسکی۔ انہیں اپنی سیاسی ساکھ وزارت سمیت کسی بھی سرکاری منصب سے کہیں زیادہ عزیز تھی۔تیل کے بحران میں وہ بے گناہ تھے، تب بھی اعلیٰ سیاسی روایات کا تقاضہ یہی تھا کہ وہ اپنا استعفیٰ پیش کردیتے۔ اس سے خود ان کے اور مسلم لیگ(ن) کے وقار میں اِضافہ ہوتا۔ نوازشریف اور ان کی مسلم لیگ تو اس حوالے سے شاندار روایات کی حامل رہی ہے۔ میاں صاحب کے گزشتہ دور میںبزرگ سیاستدان میاں معراج الدین کے سینما میں بجلی کی چوری پکڑی گئی تو ان سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا، حالانکہ سینما ٹھیکے پر تھا اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی ٹھیکیدار کے ذمہ تھی۔جھنگ میں بیگم عابدہ حسین کے اصطبل میں بجلی چوری پر ان سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا، حالانکہ وہ اسلام آباد میں ہوتی تھیں اور اصطبل کے جملہ معاملات ملازمین کے سپرد تھے۔ شاہد خاقان صاحب کا رضاکارانہ استعفیٰ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی مسلم لیگی حکومت کی شاندار روایات میں اِضافہ ہوتا۔
تازہ ترین