• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب نریندر مودی اپوزیشن میں تھے تو اُنھوں نے خود کو پاکستان کے حوالے سے ایک سخت گیرموقف رکھنے والے رہنما کے طور پر پیش کیا ، لیکن اب جب وہ بھارت کے وزیر ِاعظم ہیں، وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل کرنا دشوار پاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری رہنمائوں میں ایسی سوچ اور احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے جو اُس غرور اورتفاخر کو پیچھے دھکیل دیتی ہے جسے اُنھوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کے لئے ایک زینہ بنایا تھا۔ اور یہ ایک قابل ِ غور بات ہے ۔
گورداسپور حملے پر مسٹر مودی کا رد ِعمل جچا تلا تھا۔ پٹھان کوٹ کے بعد بھی ایک حد کا خیال رکھا گیا، لیکن اُڑی پر حالات مختلف ہوگئے ۔ ایک تو یہ بھارتی فورسز پر ہونے والا لگاتار تیسرا حملہ تھا اور پھر اس میں ہلاکتوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ اب تک اطلاعات کے مطابق اس حملے میں اٹھارہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ۔ بھارتی فوج اپنی ’’ساکھ ‘‘بحال کرنے کے لئے آپے سے باہر ہورہی ہے۔ اُسے اپنی عزت بچانے کے لئے آزادکشمیر میں ’’مبینہ جہادی کیمپوں‘‘ پر سرجیکل اسٹرائیک کرنی ہے، یا اس کا تاثر دینا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی خون کا پیاسا ہورہا ہے ۔ جہاں تک نئی دہلی کا تعلق ہے تووہ ان واقعات کی اصل وجہ کی طرف سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش میں ہے ، جو کہ کشمیریوں کا حق ِ خودارادیت کا مطالبہ ،اور اسے دبانے کے لئے ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے بھارتی ظلم و جبر اور غیر انسانی ہتھکنڈے ہیں۔
تاہم جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں پاکستان کے ساتھ جنگ، حتیٰ کہ محدود جنگ بھی، دستیاب آپشن نہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کا آپشن موجود نہ تھا۔ اُڑی حملے کے بعد بھی یہی صورت ِحال ہے ۔ تو اب نریندر مودی کیا کرسکتے ہیں؟سب سے پہلے ، وہ مغرب کی طرف مہم جوئی کرتے ہوئے مشرق میں اپنے دونکاتی ایجنڈے کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ ایک تو معیشت کو ترقی دینا ، اور دوسرا امریکہ کی شہ پر چین کے خلاف ایشیا کا چوہدری بن کر ابھرنا۔ لیکن یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ پر موجود کہ پاکستان کو سزا نہ دیتے ہوئے اپنے عوام، جن کے جذبات بھڑکے ہوئے اور توقعات بلند ہیں، کی ناراضی بھی مول نہیں لے سکتے ۔ اُن کی کیرالہ میں کی گئی حالیہ تقریر اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔ اُنھوں نے کہا کہ انڈیا تیز رفتار معاشی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان کو ’’غربت کے خلاف جنگ ‘‘ میں شکست دے گا۔ اس کا منطقی نتیجہ، بھارتی سوچ کے مطابق، یہ ہوگا کہ انڈیا طاقتور اور پاکستان کمزور ہوتا جائے گا۔ اس دوران انڈیا پاکستان کے اندر علاقائی، لسانی، نسلی اور مذہبی کشمکش کی آگ بھڑکائے گا، اور اسے بیرونی طور پر عالمی تنہائی سے دوچار کردے گا، یہاں تک کہ زوال اس کا مقد ر ٹھہرے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے دوول ڈاکٹرائن کے توسیع شدہ ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔
سارک کانفرنس کی منسوخی اس سمت میںپہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی حد تک ایک علامتی کارروائی ہے کیونکہ سارک کبھی بھی کوئی بامقصد یا فعال پلیٹ فارم نہیں رہا۔ یہاں نیک خواہشات اور اچھی امیدوں کے اظہار کے ساتھ وقت گزار کر ارکان اپنے اپنے گھرکی راہ لیتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس کی منسوخی کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے بھی اسے چار مواقع پر منسوخ کیا جاچکا ہے ۔ یہ بحث کہ پاکستان کی تجارت پر کس طرح انداز ہوا جائے ، بھی بے معانی ہے کیونکہ پاکستان کی بھارت کی طرف برآمد کا حجم صرف پانچ سوملین ڈالر ہے ،جبکہ بھارتی تاجر پاکستان میں تین بلین ڈالر مالیت کی اشیا فروخت کرتے ہیں۔ تاہم بھارت میں سندھ طاس معاہدے پر ہونے والی باتیں پاکستان کے لئے زیادہ خطرناک ہیں۔ انڈیا اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا۔ اس پر عالمی برادری کو جواب دینا ہوگا۔ اور پھر پانی زندگی ہے ، اور زندگی پر حملہ اعلان ِ جنگ تصور ہوگا۔ لیکن چونکہ انڈیا دریائوں کے اوپری بہائو(upstream)پر ہے ،اس لئے وہ آبی گزرگاہوں میں کچھ تبدیلی کرکے پاکستان کے لئے زندگی مشکل ضرور بناسکتا ہے ، جیسا کہ ضرورت کے وقت پانی کا بہائو کم کردینا ، یا سیلاب کے وقت زیادہ پانی چھوڑ دینا۔ اس سے پاکستان قحط اور سیلاب کی آفات کا شکار ہوتا رہے گا۔ اس پر حکومت ِ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے احتجاج کو بیرونی دنیا نظر انداز کردے گی کیونکہ ملک میں اس حکومت کے خلاف مخالف جماعتیں بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات لگا کر احتجاجی مظاہرے کررہی ہوں گی۔ اس کے علاوہ بھارت کئی ایک پراکسی آپشن بھی استعمال کرسکتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے نسل پرست گروہوں اورشدت پسند مذہبی فرقوں کو رقم اور ہتھیار وغیرہ فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ ان گروہوں کے عسکری ونگز بھارت مخالف سیاست دانوں اور دانشوروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ سیکورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔انڈیا کی پوری کوشش رہے گی کہ سی پیک اور گوادر انتشار اور داخلی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوجائیں۔ بڑے بڑے شہر، جیسا کہ کراچی اور لاہور ، دہشت گردی کے اہم اہداف ہوسکتے ہیں۔
تاہم ایسی خفیہ جارحیت کی بھارت کو بھی قیمت چکانی پڑے گی۔ پاکستانی انٹیلی جنس اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہے گی۔ یہ 1990 ء کی دہائی جیسا کشمیر جہاد شروع کردے گی اور اس مرتبہ بھارت کو ہونے والا نقصان اس کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ بھارت کو اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ نائن الیون کے بعد کی دنیا ہے جس میں اس طرح کے غیر ریاستی عناصر امریکہ جیسی طاقت کو بھی ایک طرح کی شکست سے دوچار کرچکے ہیں۔ کشمیر کے علاوہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور دیگر علیحدگی پسند گروہوں کو بھی بھڑکایا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس قسم کی پالیسی کا کسی کوبھی فائدہ نہیں ہوگا، نقصان البتہ دونوں کا ہوجائے گا۔ تاہم اپنے حجم اور سماجی تنوع اور معاشی ترقی کی وجہ سے بھارت کا نقصان زیادہ ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے لئے معاشی گراوٹ اورعالمی تنہائی کوئی نئی بات نہیں۔
تاہم ابھی امید کی کرنیں باقی ہیں۔ اصولی طور پر دونوں ملکوں کی مرکزی جماعتوں کو امن کا عزم لے کر آگے بڑھنا چاہئے۔ انڈیا کو سوچنا چاہئے کہ کشمیر کی حالیہ تحریک کے پیچھے کسی ملک کا ہاتھ نہیں، یہ بی جے پی سرکار کی جابرانہ پالیسیوں کا رد ِعمل ہے۔ اگربھارتی وزیر ِاعظم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے آگے بڑھیں، اُن کی داد رسی کریں، وادی میں سیاسی عمل کو آگے بڑھنے کا موقع دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں امن نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جب بھی پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے، اُنہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ تاہم اس کے لئے بھارت کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کوسوچ، سمجھ اور احساس کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین