• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین پاکستانی معیشت کے چھٹے جائزے کیلئے ہونے والے مذاکرات میں کامیابی کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو 518 ملین ڈالر کی قسط دینے کی رضامندی ظاہر کردی ہے جس سے نہ صرف پاکستان کو نئے قرضوں سے پرانے قرضوں کی ادائیگی کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ پاکستان کے نادہندہ ہونے کے خدشات بھی ختم ہوگئے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن کے سربراہ جیفری فرینک اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دبئی میں مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف نے رواں سال ٹیکس ہدف میں 60 ارب روپے کی کمی اور جون 2015ء تک ٹیکس ہدف 2750 ارب روپے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف پر واضح کردیا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا حالانکہ پاکستان کو نیشنل ایکشن پلان اور آئی ڈی پیز کیلئے 150 ارب روپے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے مالیاتی خسارہ 5% سے زائد ہوسکتا ہے۔
قارئین! آئی ایم ایف دراصل مالیاتی خسارہ (Fiscal Deficit) پورا کرنے کیلئے کسی بھی ملک کو قرضے دیتا ہے جس کی اہم شرائط میں اس ملک کے بجٹ میں مالیاتی خسارہ کم کرنا بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف اپنے قرضوں کی وصولی کیلئے مقروض ممالک کو مختلف اقدامات اٹھانے کا پابند کرتا ہے جو بعض اوقات اس ملک کے غریب عوام پر اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں لیکن مقروض ممالک کا آئی ایم ایف سے ان کی شرائط پر قرضہ لینا ان کی مجبوری ہوتی ہے جبکہ ان قرضوں کی وصولی کے لئے سخت اقدامات اٹھانا آئی ایم ایف کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس طرح غریب مقروض ممالک آہستہ آہستہ ان عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ کالم لکھتے وقت مجھے صدر مملکت ممنون حسین سے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کراچی میں ہونے والی ملاقات یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ حکومت اعلان کے باوجود قرضوں کا کشکول توڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ قرضے پاکستان کیلئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں اور افیون کی عادت ختم کرنے کیلئے پاکستان کو مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے، اس طرح پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ کالم کی مناسبت سے مجھے مشہور معاشی قاتل جان پرکنز کی 2004ء میں شائع ہونے والی تہلکہ خیزکتاب ’’معاشی قاتل کے اعترافات‘‘ (Confessions of Economic Hitman) یاد آگئی جس میں جان پرکنز جو اپنے آپ کو ’’کرائے کا معاشی قاتل‘‘ کہتا تھا، نے بتایا ہے کہ اکنامک ہٹ مین (معاشی قاتل) دنیا کی معروف یونیورسٹیوں سے معیشت اور فنانس میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ ہوتے ہیں جنہیں بین الاقوامی مالیاتی ادارے، ملٹی نیشنل کمپنیاں، یو ایس ایڈ اور آئل اینڈ گیس کمپنیاں غیر معمولی پیکیج پر مشیر کی حیثیت سے ملازمت پر رکھ کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے خصوصی ٹریننگ دیتی ہیں۔ جان پرکنز کے بقول ان معاشی قاتلوں کی ٹریننگ انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہے جبکہ ٹریننگ دینے والے ٹریننگ دینے کے بعد ہمیشہ کیلئے غائب ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ ترین سوٹوں میں ملبوس نفیس انگریزی بولنے والے ان معاشی قاتلوں کا کام تیسری دنیا کے ممالک کو امداد کے نام پر قرضوں میں جکڑنا ہوتا ہے جن کیلئے مقروض ممالک اپنے تمام قومی اثاثے بھی مغربی کارپوریشنوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پرکنز کے بقول عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ بالاخر تیسری دنیا کے حکمرانوں، بین الاقوامی کارپوریشنوں اور مشاورتی کمپنیوں کے پاس چلا جاتا ہے کیونکہ یہ کمپنیاں اپنے مقصد کے حصول کیلئے غلط اقتصادی جائزے، غیر حقیقی مالیاتی رپورٹس، انتخابات میں دھاندلیوں، لابنگ، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ پرکنز کے مطابق دنیا میں کرائے کا پہلا معاشی قاتل امریکی صدر روز ویلیٹ کا پوتا کیرمیٹ روزویلیٹ تھا جس نے 1953ء میں برطانوی M-16 اور امریکی سی آئی کی مدد سے ایران کے حکمراں محمد مصدق کی حکومت کا خاتمہ کرکے ایرانی فوج کے سربراہ جنرل فضل اللہ زاہدی کو اقتدار منتقل کیا تھا۔ جان پرکنز کے بقول وہ طویل عرصے تک ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ کی حیثیت سے کام کرتا رہا، اس دوران اُس نے لاکھوں ڈالر کمائے مگر جب ضمیر نے ملامت کی تو اپنی کمپنی سے استعفیٰ دے دیا تاہم 9/11 کے بعد جب وہ تباہ شدہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مقام پر پہنچا تو اس نے دنیا کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے مذکورہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ واضح ہو کہ جان پرکنز کی بیسٹ سیلر کتاب کی اب تک کئی ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں جبکہ کتاب کے 24 زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔
جان پرکنز نے اپنی کتاب میں مزید انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے دراصل معاشی کرائے کے قاتلوں کے آلہ کار ہیں جن کا ہدف قدرتی وسائل اور اہم جغرافیائی محل وقوع رکھنے کے باوجود معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان جیسے ممالک ہوتے ہیں جن کیلئے معاشی قاتل عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے بڑے قرضے حاصل کرتا تھا لیکن جب عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط کی وجہ سے نادہندہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تو وہاں عقاب (Hawks) یعنی ایسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندوں کو بھیجا جاتا ہے جن کی نظریں ان ممالک کے تیل، لوہے، تانبے، سونے اور دیگر معدنی و قدرتی وسائل پر مرکوز ہوتی ہیں۔ پرکنز کے بقول ’’عقابوں‘‘ کے بعد مقروض ملک میں آئی ایم ایف کو گھسنے کا موقع ملتا ہے جو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ اُس ملک کے تیل اور دیگر قدرتی وسائل امریکی و یورپی کمپنیوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے یا ان ممالک کے فوجی اڈے قائم کرنے سے مشروط کرتا ہے۔ اس طرح مقروض ملک، آئی ایم ایف اور مغربی ممالک کا سیاسی دبائو قبول کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پرکنز کے بقول اُسے حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسے مقروض ممالک جہاں ہزاروں لوگ بھوک سے مررہے ہوتے ہیں، وہاں برگر، پیزا اور غیر ملکی فوڈ ریسٹورنٹ دھڑا دھڑ کھل رہے ہوتے ہیں۔پرکنز کے مطابق معاشی قاتلوں کو جس ملک میں بھی بھیجا جاتا ہے، وہ وہاں کی سڑکوں، ایئر پورٹس اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی دلفریب اور خوشنما رپورٹس تیار کرتے ہیں جس کا مقصد تیسری دنیا کے اس ملک کو قرضے کی دلدل میں زیادہ سے زیادہ ڈبونا ہوتا ہے اور جب رپورٹس تیار ہوجاتی ہیں تو’’ہٹ مین‘‘ اس ملک کی سیاسی قیادت اور بیورو کریسی کو انتہائی خوشنما طریقے سے ان رپورٹس کی بریفنگ دیتا ہے۔ اس دوران ’’ہٹ مین‘‘ کی نظر ایسی بددیانت، لالچی، بے وقوف اور شہرت کی بھوکی سیاسی قیادت یا بیورو کریسی پر ہوتی ہے جو منصوبوں کی تشہیر سے ’’سستی شہرت‘‘ اور ’’مال‘‘ کمانا چاہتی ہو، اس مقصد کیلئے وہ ’’ہٹ مین‘‘ کے جعلی اعداد و شمار کی خوشنما رپورٹس کا پروپیگنڈا کرتی ہے۔ مثلاً موٹروے بننے سے کئی گنا تجارت بڑھ جائیگی، نئی بندرگاہ کی تعمیر سے ملک اکنامک کوریڈور بن جائیگا، میٹرو ٹرین یا بسیں چلنے سے ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔
آج پاکستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ ملک کی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تیار کی جارہی ہیں جبکہ امریکی دبائو کے باعث پاک ایران گیس پائپ لائن جیسا ملکی مفاد کا منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ پاکستان میں بھی ملک کو ایٹمی طاقت بنانے، تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوششیں کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ ماضی میں پاکستان نے بھی نیٹو، امریکہ اور اتحادیوں کو افغان جنگ کیلئے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے دے رکھے تھے۔ ملک میں ایک طرف حکمراں اور سیاستدان اربوں ڈالر کے مالک ہیں جن کے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر جمع ہیں تو دوسری طرف عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2008ء تک پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً 37000 روپے کا مقروض تھا لیکن آج ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہوچکا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے پس منظر میں قارئین سے میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان بھی ’’عالمی معاشی قاتلوں‘‘ کا آلہ کار بن چکا ہے؟
تازہ ترین