• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ دو کالموں میں ہم نے کراچی کے بارے میں کچھ معروضی حقائق اور اس شہر کے مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ آج کی سطور میں ہم کراچی کے مسائل کے حل کے لئے ایک وژن کے حوالے سے بات کریں گے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کراچی ڈھائی کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے ۔ اتنی بڑی آبادی والے شہر یا تو صوبے ہوتے ہیں یا ملک ہوتے ہیں ۔ یہ بات کہنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ میں کراچی کو الگ صوبہ بنانے یا ایک خود مختار شہر بنانے کی دلیل دے رہا ہوں بلکہ اس حقیقت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شہر کے مسائل کو ایک پورے صوبے یا ایک ملک کے مسائل کی طرح سمجھنا چاہئے اور ان مسائل کا حل بھی اسی ادراک سے تلاش کرنا چاہئے ۔ اس شہر کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ کراچی 2030ء میں دنیا کا سب سے بڑا شہر بننے جا رہا ہے ۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر مسائل کے حل کےلئے حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ میگا سٹی ہے ۔ شہر کی آبادی کے مطابق ہر شعبے میں بہتر منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ بہتر منصوبہ بندی کیلئے صحیح مردم اور خانہ شماری ہونی چاہئے ۔ اس سے ہی پتہ چلے گا کہ اس شہر کی کیا کیا ضروریات ہیں ۔ اس شہر کو کتنی بجلی ، گیس ، کتنا پانی اور دیگر یوٹیلیٹیز اور انفرا سٹرکچر کی ضرورت ہے اور کتنے اسکول ، اسپتال اور پولیس اسٹیشن قائم کئے جائیں ۔ شہر میں امن وامان کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کی کتنی نفری کی ضرورت ہے ۔روزگار کے مواقع کس طرح پیدا کئے جا سکتے ہیں اور مجموعی منصوبہ بندی کس طرح کی جا سکتی ہے ۔ کراچی پاکستان کا چہرہ ہے ۔ یہ میگا سٹی ہونے کیساتھ ساتھ پاکستان کی واحد کاسموپولیٹن سٹی بھی ہے ۔ یہ شہر پاکستان کا صنعتی ، تجارتی ، تہذیبی اور ثقافتی مرکز ہے ۔ یہاں ہر زبان ، ہر علاقے ، ہر مذہب اور مسلک کے لوگ آرام سے رہتے ہیں۔ اس شہر میں لوگوں کو اپنے اندر سمونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے ۔ کراچی ہر ایک کو گلے لگا لیتا ہے ۔ ہمیں اس تناظر میں بھی کراچی کے مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہے اور یہ طے کرنا ہے کہ ہم اس شہر کو کیا بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ شہر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر طرح کی امتیازی سوچ سے بالاتر ہو کر اس شہر کے باسیوں کے مسائل حل کئےجائیں۔ میگا اور کاسموپولیٹن سٹی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک متحرک ( Vibrant ) سٹی بھی ہے ۔ طویل عرصے سے کراچی دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے ۔ اس شہر کو پرتشدد کارروائیوں سے مفلوج کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن شہر کے باسیوں نے انتہائی ناموافق اور پرتشدد حالات میں بھی جینا سیکھ لیا ہے ۔ یہاں نہ صرف تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں بلکہ پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ یہاں ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ آرٹس کونسل میں روزانہ ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں کراچی میں ایک کامیاب لٹریری فیسٹیول بھی منعقد ہوا ہے ۔ روزانہ اس شہر میں ثقافتی اور ادبی پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ ناموافق حالات میں جینے کا سلیقہ اس شہر کے باسیوں سے زیادہ کسی اور میں نہیں ہے ۔ یہاں کے لوگوں کی یہ حیرت انگیز صلاحیت منصوبہ سازوں کیلئے حوصلہ افزاء ثابت ہو سکتی ہے ۔
جیسا کہ گذشتہ کالم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ’’ اونر شپ ‘‘ کا ہے ۔ جس طرح کراچی سب کا ہے ، اسی طرح سب کو کراچی کو اپنا سمجھنا ہو گا ۔ پورے ملک میں کہیں بھی کوئی مسئلہ ہو ، اس کا سب سے زیادہ ردعمل کراچی میں آتا ہے ۔ تمام سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کراچی میں کرتی ہیں لیکن وہ کراچی کو اس طرح ’’ اون ‘‘ ( Own ) نہیں کرتیں، جس طرح کرنا چاہئے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بیشتر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں کراچی کے مسائل سے لاتعلق ہو گئی ہیں یا کراچی سے دستبردار ہو گئی ہیں۔ انہیں کراچی کی اونر شپ لینا پڑے گی اور حقیقی معنوں میں کراچی کا اسٹیک ہولڈر بننا پڑے گا ۔ اس کے بغیر کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ اسکے علاوہ کراچی کے مسئلے کا حل ہمیں اسی شہر سے ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ اس کیلئے ضروری یہ ہے کہ شہر کے لوگوں کو ہر عمل میں شریک کیا جائے۔ کراچی کی قیادت کراچی سے ہی نکالی جائے ۔ کراچی کے لوگوں کو ہی پتہ ہے کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کس طرح حل کیا جا سکتا ہے ۔ لوگوں کو مسائل کے حل میں شریک اور ملوث کرنے کیلئے فعال بلدیاتی اداروں سے بہتر کوئی اور ادارہ نہیں ہو سکتا۔ بلدیاتی انتخابات کے باقاعدہ انعقاد کیساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کا با اختیار ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ آج کی دنیا میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم ( Devolution ) پوری دنیا میں مسائل کے حل کیلئے ایک آزمودہ اور کامیاب طریقہ ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانا چاہئے ۔ اسکے علاوہ سیاسی جماعتوں کو وہ اپروچ اختیار کرنی چاہئے ، جو اس شہر کے لوگوں کی اپروچ ہے۔ اس شہر کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کا ادراک کیا جائے ، انہیں انصاف فراہم کیا جائے ، میرٹ کے مطابق انہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ انہیں پر امن ماحول فراہم کیا جائے ۔ نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اس شہر کے لوگوں کے مسائل کو سمجھا اور ایسی سیاسی اپروچ اختیار کی ، جو لوگوں کو اپیل کرتی تھی ۔ اس پارٹی نے اپنا انتخابی نشان ’’ جھاڑو ‘‘ رکھا ۔ اس نے شہر کے غریب لوگوں سے اپنی شناخت کرائی ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کا راز بھی یہی تھا کہ اس نے اس شہر کے باسیوں کے مسائل سے اپنی شناخت کرائی اور لوگ اسے اپنی سیاسی جماعت سمجھتے رہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسی طرح کی سیاسی اپروچ نہ صرف کراچی کے مسائل کو حل کر سکتی ہے بلکہ اس سے کراچی کو اونر شپ بھی ملے گی ، جو کہ سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ دنیا کی ہر میگا سٹی میں امن وامان کا چیلنج بھی درپیش ہوتا ہے اور وہاں گروہی اور طبقاتی تضادات بھی موجود ہوتے ہیں لیکن ہر میگا سٹی میں امن وامان کو شہر کی پولیس ہی کنٹرول کرتی ہے لیکن کراچی میں پولیس از خود ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے ۔ سیاسی مداخلت ، کرپشن اور میرٹ سے ہٹ کر تقرریوں نے اس ادارے میں کراچی جیسے شہر کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ختم کردی ہے ۔ اس سے بدامنی پیدا کرنے والے گروہوں کے لئے گنجائش پیدا ہوئی ہے ۔ کراچی کے لوگ پر امن زندگی چاہتے ہیں ۔ کراچی کے لوگ 1960ء کے عشرے کے ماحول میں واپس جانا چاہتے ہیں ، جب شہر میں راتوں کو اکیلے گھومتے ہوئے کسی کو خوف نہیں ہوتا تھا ۔ کافی اور ٹی ہاؤس 24 گھنٹے کھلے رہتے تھے ۔ ثقافتی اور تہذیبی طور پر ہر لمحہ شہر اپنی شناخت کرا رہا ہوتا تھا اور لوگوں کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد تھا ۔ ایسا ماحول دوبارہ پیدا کرنے کیلئے کراچی پولیس میں سیاسی مداخلت ، کرپشن اور سفارش پر تقرریاں ختم کرنا ہوں گی ۔
کراچی ایک شہر ہی نہیں ، پاکستان کی اقتصادی شہ رگ اور پاکستان کی شناخت ہے ۔ کراچی کے مسائل کے حل کے بارے میں ہمیں اپنے وژن کو تبدیل کرنا ہو گا اور یہ وژن کراچی سے ہی حاصل کرنا ہو گا ۔ کراچی سے پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ یہ کلچر صرف کراچی ہی نہیں بلکہ تمام میگا سٹیز کے مزاج کے خلاف ہوتا ہے ۔ کراچی کے لوگ بجلی ، گیس ، پانی اور دیگر یوٹیلیٹیز پر سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ۔ لہذا یہ سہولتیں انہیں ملنی چاہئیں ۔ کراچی میں پانی ٹینکر کے ذریعہ فروخت کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی موجود ہے مگر اس کے باوجود ٹینکر کے ذریعے لوگوں کو بیچا جاتا ہے ۔ قلت ہوتی تو ٹینکر مافیا کو بھی پانی نہ ملتا ۔ پانی کو لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ بنانے والوں کا احتساب ہونا چاہئے ۔ اس شہر کے لوگوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کام میرٹ پر ہو ۔ اس شہر کی اپنی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہونی چاہئے جو اس شہر کے لوگوں کے اپنے کنٹرول میں ہو اسی طرح دیگر اداروں کو بھی شہر کی ضرورتوں کے مطابق خود مختاری ملنی چاہئے ۔ کراچی کی حکمرانی کراچی کے لوگوں کے پاس ہو ۔ یہی مسئلے کا بنیادی حل ہے ۔
تازہ ترین