• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے بھی مہربان کیسے کیسے ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں مگر کبھی سخت نقاد اور کبھی تھپکی،ان کے مزاج کی سمجھ نہیں۔ کوئی تحریر بڑی دل جوہی اور مشقت سے لکھی مگر تبصرہ ایسا کہ ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ میری دوست شانتی دیوی کا ای میل آیا۔ ’’حوصلے سے لکھو۔‘‘میں نے جواب دیا ’’بھگتے کا کون؟‘‘ پھر ٹیلیفون آگیا۔’’ گدھوں پر کیوں لکھتے ہو؟‘‘ میں پہلے پریشان اور حیران ہوا۔ گدھوں پر....؟ ہاں گدھوں پر چلو اگر بین بجانی ہے تو بھینس کے آگے بجایا کرو۔ تائو تو بہت آیا مگر صبر میں شانتی ہے سو خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد بولا ’’اگر ہماری کسی سیاسی جماعت کا نشان گدھا ، بھینس یا ہاتھی ہوتا تو ضرور لکھتا۔ ‘‘تو فوراً گویا ہوئی۔ تمہارے شاعر انقلاب نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا۔
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
(اس قت آبادی اتنی ہوگی)
سو اب بھی فرق نہیں پڑا۔ مجھے بھی حوصلہ ہوا اگر امریکہ جیسی تعلیم یافتہ امیر قوم گدھوںکو ووٹ دے سکتی ہے تو معاشرتی جبر سے بنے عوام کے لئے گدھا نہ سہی گھوڑا سمجھ کر بہتر لکھا جاسکتا ہے۔ پھر آئے دن ہماری سیاست اور ریاست میں گھوڑوں کی تجارت ہوتی رہتی ہے جس کو زبان فرنگی میں ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں۔ مال مفت کی تجارت میں نقصان کا اندیشہ کم۔ اب اپنےہاں ہی دیکھ لو ہماری اسمبلی میں گھوڑے کی طرح مضبوط ہٹے کٹے لوگ آئے دن ٹریڈنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری سرکار تجارت کو عبادت کا درجہ دیتی ہے۔ آئی ایم ایف سے امداد بھی اس تجارت کو مضبوط و مربوط بنانے کے لئے لی جاتی ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے قرض نہ بھی لیا جائے تو عوام کے لئے ایسی مشکلات میں اضافہ نہیں ہوگا۔ وہ قرض دے کر ہم مجبور لوگوں کو محکوم بھی بنا لیتے ہیں۔ قرض کے مذاکرات پاکستان کی سرزمین پر نہیں ہوتے۔ گھوڑے ، گدھے، خچر شور مچانا نہ شروع کردیں کیا مان کر کیا لے رہے ہو وہ بھی اشرافیہ کےلئے۔ جس کا نا حساب ہے نہ کتاب، ہاں واپسی کی قیمت آزادی اور خودمختاری کا سودا ضرور ہے۔ آئی ایم ایف کے پردھانوں کو باور کرایا گیا ہے کہ ملک میں ایسا سودا مناسب نہیں۔ میڈیا بات کا بتنگڑ بنانے کا ماہر ہے۔ پھر وہاں پر نوکرشاہی ہی خبر عام کرتی ہے۔ اعداد و شمار کا جادو ملک سے باہر ہی چل سکتا ہے۔ ہمارے غریب نفس وزیر خزانہ بینکر ضرور ہیں بزنس منیجر ہیں یا پھر وہ بزنس کو تجارت کے انداز میں کرنے کے ماہر ہیں۔ آئی ایم ایف کو ان پر بھروسہ بھی خوب ہے۔ وہ واحد پاکستانی ہیں جن پر وہ تکیہ ہی نہیں بھروسہ بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں عوام اپنا مقدمہ کس کے سامنے پیش کریں۔ عوام کی جان تو مہنگائی کے جن میں پھنسی ہے۔ پٹرول سستا ہوتا جارہا ہے سرکار کو کتنے کا فائدہ ہے۔ مگرزمین پر رینگتے عوام ان نمائشی قرضوں کی وجہ سے کچلے جارہے ہیں۔میں ابھی عوام کا نوحہ شنانتی دیوی کو سنا ہی رہا تھا کہ وہ پھر پلٹی، پٹڑی بدل کر کہنے لگی۔ ’’تمہارے قومی ایکشن پلان کا کیا ہوا؟‘‘ اب کہ میں دوبارہ گڑبڑا سا گیا۔میں نے بے زاری سے پوچھا ۔ تم دور بیٹھ کر کیا گن سن لینا چاہتی ہو۔ وہ میری بات سے بدمزہ سی ہوگئی۔ کہنے لگی ’’عدم برداشت کا بھاشن دینے والے تم بات کرنےسے پہلے سوچتے کیوں نہیں۔‘‘ مجھے بھی احساس اور شرمندگی ہوئی۔ اس کو بھی میرے مزاج کا اندازہ ہے کہنے لگی ’’سوچنے اور لکھنے سے تم اکیلے دنیا بدلنے سے رہے۔ لوگوں میں خوش نفسی اور خوش دلی سے رہنا سیکھو۔ اس سے اپنی ذات کا نقصان نہیں ہے۔ پھر تمہارے دین میں تو غصہ شاید حرام بھی ہے سو ایسا اچھا دین رکھنےوالے حوصلہ اور برداشت نہ رکھیں تو دوسروں کو دوشی نہیں کہا جاسکتا۔ کبھی کبھی حالات کا جبر گردوپیش کے حالات آدمی کو ضرور طیش دلاتے ہیں مگر یہ تو صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ یار تم ہم سب کو درس دیتے تھے کہ سوچو تولو اور پھر بولو۔ چلو مجھے بھی معاف کرنا بات لمبی ہوگئی۔‘‘ میں نے کمال فراخ دلی سے کہا’’چلو معاف کیا۔ تم بھی کیا یاد کروگی۔ ہاں تمہار ا سوال کیا تھا؟ ‘‘وہ چپ رہی۔ میں نے پھر کہا۔ ’’سوال کیا تھا؟‘‘ وہ بولی ’’چھوڑ و سوال کو تمہارے شہر میں کتب میلہ لگا تھا۔ میں نے فیس بک پر تمہاری تصویر کے ساتھ ایک بڑے گرو کو بیٹھا دیکھا تھا۔ وہ کون تھے اور بک فیئر کیسا رہا؟‘‘ ’’ہاں ہاں بک فیئر تو بہت ہی اچھا رہا۔ بہت لوگ آئے۔ لوگوں میں کتابوں کا شوق او ر ذوق نظر آیا۔ اب تو ہمارے شہر میں ادب میلہ بھی لگنے والا ہے۔ وہاں بھی کتابوں کے اسٹال لگیں گے۔ ہمارے لوگ دہشت اور وحشت کے ماحول سے نکلنا چاہتے ہیں۔‘‘اس نے مجھے ٹوک دیا۔ ’’یار! میں پوچھ رہی تھی تم نے کون سا گرو گانٹھ لیا ہے ؟ اس کی لمبی خوبصورت داڑھی، کالا جبہ، گلے میں منکا اور کیا کمال کی انگوٹھیاں اس نے پہن رکھی تھیں۔ ایک ایک پتھر لاکھوں کا لگتا تھا اور بناوٹ بھی خوب تھی۔ تمہارے بزرگ کی سرما لگی آنکھوں میں کمال کا سرور تھا۔ تم بھی اس کی بغل میں خوب سج رہے تھے۔
پھر مجھےیاد آیا وہ تو بابا یحییٰ خان تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف، سدا کے سیلانی، ایک زمانہ انہوں نے ولایت میں گزارا۔ اتنی عمر کے باوجود وہ اپنے آپ کو اشفاق خان کا بالکا کہتے ہیں۔ ہمارے آج کے تمام ادیب منوبھائی، عطاالحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلا م امجد، کشور ناہید، ظفر اقبال کتنے نام اور ہیں وہ سب ان کے اسیر ہیں۔ بابا یحییٰ خان انسانوں کے قبیلے کے نہیں لگتے۔ وہ تو ادبی گرو اور انسانی شکل میں جن ہیں۔ ان کی کتابوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ایک جادونگری ہے۔ مشرق کےرنگ اور مغرب کا ترنگ پڑھنے والے کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ پھر قیمت کے لحاظ سے ان کی کتاب بہت بھاری ہے۔ لوگ پھر بھی خریدتے ہیں۔ پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ بابا یحییٰ لوگوں کو مایوس بھی نہیں کرتے مگر وقت بھی نہیں دیتے۔ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر وقت شکر ہی شکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ بھی کتابوں کا میلہ دیکھنے آئے تھے۔ مگر اس دن یوں لگا کہ جیسے انہوں نےمیلہ لوٹ لیا ہو۔ لوگوں کا ہجوم ان سے دعا لینے اور ملنے پر بیتاب۔‘‘ میری اتنی لمبی کتھا پر شانتی دیوی حیران سی تھی۔ تم نے پہلے کبھی ان کا ذکر نہیں کیا۔ پھر کہنے لگی ’’ہاں وہ ’’پیا رنگ کالا‘‘ والے حضرت صاحب تو نہیں۔‘‘ اب میری حیرانی کی باری تھی۔ ’’تو تم نے ان کی کتاب پڑھی ہے؟‘‘ ’’ ہاں ڈیئر ان کی کتاب کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ بھئی کمال کا لکھتے ہیں۔ ان میں اسلوب، لکھت، لفظوں کی جادونگری ہے۔ وہ صوفی، درویش، قلندر، گرو کس کس روپ میں تحریر کو سجاتے ہیں۔ تمہاری ان سے کیسے یاد اللہ ہے؟ پہلے کبھی ذکر ہی نہیں کیا‘‘۔ ’’ہاں شانتی!تمہاری بات درست ہے۔ ایسے درویش یا گرو اپنے آپ کو زمانے سے چھپا کر ہی رکھتے ہیں۔ مجھے تو کبھی کبھی خوف بھی آتا کہ بابا کی شخصیت کسی جن کا دوسرا جنم ہی نہ ہو۔ بابا یحییٰ کو ملتا کہاں سے ہے معلوم نہیں۔ مگر وہ بانٹتا بہت ہے۔ ہاں بانو قدسیہ کو ماں کا د رجہ دیتے ہیں۔ شانتی !وہ ایک نیک روح لگتی ہیں اور سب سے کمال ان کی تحریر ہے جس کے آسیب میں، میں بھی گرفتار ہوں۔ کسی دن تمہاری بات بھی کروا دوںگا۔ جب پاکستان آئو تب مل لینا۔ اگر ان کا کینیڈا کا چکر لگا تو تم کو اطلاع کردوں گا‘‘۔ ’’اچھا اچھا آگے میں خود دیکھ لوں گی۔ خیر میرا سوال قومی ایکشن پلان کے بارے میں تھا‘‘۔ ’’ہاں یاد آیا شانتی! سرکار اورہماری عسکری قیادت اس پر کام کر رہی ہے۔ کچھ اندازہ اوراحساس ہو رہا ہے کہ اب ایکشن لے کر پلان کامیاب ہوسکے گا۔ آہستہ آہستہ دائرہ تنگ ہو رہا ہے سیاسی طاقتوں کو اندازہ ہو رہا ہے اگر وہ نہ بدلے تو وقت آگیا کہ ان کو بدلا جاسکے۔ خوب کہا سب کے ارادے اچھےہیں یہ تو وہ جانیں یا میرااللہ۔ دیکھو اور خبر کا انتظار کرو۔
تازہ ترین