• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت زیادہ معزز ’’مہمانان گرامی ‘‘کوتو تقریب میں شرکت کے دعوت نامے کے ساتھ ہی سفارتخانے کی پارکنگ تک رسائی کااسٹیکر(اجازت نامہ) پیشگی فراہم کردیاگیا تھا جبکہ صرف ’’معزز مہمانان‘‘ کو ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع امریکی سفارتخانے سے چند فرلانگ کی مسافت پرواقع کنونشن سینیٹر کی وسیع وعریض پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کی ہدایت اوررہنمائی فراہم کی گئی تھی۔ جہاں سے سفارتخانے کے انتظام کے تحت ’’شناخت پریڈ‘‘ کامرحلہ مکمل ہونے کے بعد کوچزکے ذریعے سفارتخانے لایاجارہا تھا… امریکی سفارتخانے کے تحت عام طور پر یہ اہتمام ان کے قومی دن کے موقع پر ہوتا ہے لیکن مذکورہ تقریب ’’پریزیڈنٹ ڈے‘‘ کے موقع کی مناسبت سے تھی جس میں ڈھیروں کے حساب سے معزز مہمان گرامی اپنی گاڑیوں سے کوچزمیں منتقل ہوکر امریکی سفارتخانے میں پہنچ رہے تھے۔ایک ایسے ہی موقع پرعوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کوچ کے ذریعے سفارتخانے منتقل کئےجانے کے عمل کو ایک معزز رکن پارلیمنٹ کی تحقیر اوراس کا استحقاق مجروح ہونے سے تعبیر کرتے ہوئے کوچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا اوراحتجاجاََ نہ صرف تقریب میں شرکت کئے بغیر واپس آگئے بلکہ اس کے بعد سے امریکی سفارتخانے کی کسی تقریب میں شرکت بھی نہیں کی۔
اسلام آباد میںہونے والی سفارتی تقاریب میں کم وبیش تمام ہی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہوتی ہے پاکستانی سیاستدان اوراراکین پارلیمنٹ ان تقاریب کو غیر ملکی سفارتکاروں اوردیگر اہم شخصیات سے ملاقاتوں اوروزیٹنگ کارڈز کےتبادلوں کابہترین موقع گردانتے ہیں جس دوران’’خوشگوار ماحول‘‘ میں آزادانہ اورکافی حد تک بے باکانہ گپ شپ ہوتی ہے۔ایم کیو ایم کی جانب سے ایسی تقاریب میں اپنی جماعت کی نمائندگی ڈاکٹر فاروق ستار کرتے ہیں بالخصوص امریکہ، برطانیہ کی سفارتی تقاریب میں تووہ ’’مستقل مندوب‘‘ کی حیثیت رکھتےہیں۔لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے اس وقت کوبھی اپنی قیادت اور تنظیم کےلئے ہی استعمال کرتے ہیں۔قرب وجوار کے ’’مہکتے بہکتے‘‘ ماحول سے بے نیاز غیر ملکی سفارتکاروں کواپنے قائد الطاف حسین کے سیاسی فلسفے، تنظیمی موقف اورکراچی کے حوالے سے ایم کیو ایم کے اقدامات اورترجیحات سے آگاہ کرتےہیں۔ ....اس تقریب میںبھی ڈاکٹر صاحب مسلسل اوربے تکان بول رہے تھے۔لیکن ان کےلب ولہجے میں وہ اعتماد نہیں تھا جوان کی گفتگو کاخاصہ ہے … محسوس ہوتا ہے وہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے اورشیریں مزاری کے بارےمیں اپنے قائد کے ریمارکس کاجواز پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے۔وہ یہ استدلال بھی پیش کررہے تھے کہ ہم بھول جاتےہیں کہ ایک ایسا شخص جو 25سال سے نہ چاہنے کے باوجود دیار غیر میں ہرسطح پرمحدود زندگی گزار رہاہے ملکی حالات اوربالخصوص کراچی میں ہونے والے آئے دن کے واقعات نے اس کے اعصاب کوبری طرح متاثر کیا ہے… جواپنے مخالفین کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں سے بھی نبردآزما ہے۔ایسے حالات میں ایک عام آدمی کی نفسیاتی صورتحال کیاہوگی۔وہ تو پھر ایک بڑی جماعت کے قائد ہیں… کالم نگاروں ٗ ناقدین اور تبصرہ نگاروں کو الطاف حسین کے اس پہلو پربھی نظر رکھنی چاہئے ۔بلاشبہ ڈاکٹر فاروق ستار حسب سابق اپنے قائد کاتحفظ اورایشوز پرتنظیمی موقف کا دفاع کر رہے تھے…سانحہ بلدیہ اوراس پرسامنے آنے والی جوائنٹ انوسٹیگیشن رپورٹ (J-I-T) پرایم کیو ایم کانقطہ نظربیان کررہے تھے۔لیکن ان کے دلائل اس روز ان کےموقف کونہیں منوارہے تھے۔تقریب میں رکن قومی اسمبلی سردار نبیل گبول بھی موجود تھے ان کی ایم کیو ایم سے وابستگی متنازعہ ہوچکی ہے۔اس لئے نہیں معلوم کہ وہ ابھی ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں یانہیں ۔لیکن اس تقریب میں وہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ نہیں تھے… ڈاکٹر فاروق ستارکے ساتھ صرف ان کی بیگم ڈاکٹر شاہدہ تھیں یاپھر ایم کیوا یم کے ہی رشید گوڈیل۔ سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی اور ایک سفارتکار سے گفتگو کے دوران میڈیا کے بعض ساتھیوں نے ان سے پوچھ ہی لیا ’’گبول صاحب کیا آپ یہاں ایم کیو ایم کی نمائندگی کر رہے ہیں‘‘ نبیل گبول کو قدرے جزبز ہوتا دیکھ کر اُن سے محو گفتگو میزبان سفارتکار نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے جواب دیا ’’Sardar Sb is my personal Guest‘‘ جس پر نبیل گبول نے سکھ کا سانس لیا۔
تقریب میں پاک چین اقتصادی راہداری کا روٹ بھی زیر بحث تھا جو آہستہ آہستہ ایک متنازعہ شکل اختیار کر رہا ہے، بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی اس معاملے پر سخت موقف اختیار کرنے جا رہی ہے۔ پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے اپنے سینیٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں اس معاملے پر موثر ردِعمل کا اظہار کریں، جس پر عمل کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین حاجی عدیل نے کمیٹی کے اجلاس میںاور زاہد خان نے جو مواصلات کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں انتہائی جارحانہ انداز اختیار کر رکھا ہے۔ حاجی عدیل تو برملا کہتے ہیں کہ لاہور کو نوازنے کیلئے طے شدہ روٹ تبدیل کیا جا رہا ہے جس کے باعث بلوچستان اور کے پی کے کو اس منصوبے کے ثمرات سے محروم رکھا جائے گا لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ زاہد خان کا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم نہیں بنا تو روٹ تبدیل کئے جانے پر یہ منصوبہ بھی نہیں بن سکے گا۔ اطلاعات کے مطابق اے این پی کے سینیٹرز نے اسلام آباد میں چینی سفیر سے ملاقات کر کے انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے اور چینی صدر کی آمد کے موقع پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے عزائم رکھتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال جو سفارتخانے کی تقریب میں مہمان خصوصی تھے وہ اس موضوع پر غیرملکی سفارتکاروں کو غیرمحسوس انداز میں بریفنگ دیتے ہوئے بتا رہے تھے… کہ روٹ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ اس ضمن میں بعض سیاسی حلقوں کے خدشات اور تحفظات محض لاعلمی اور غلط فہمی پر مبنی ہیں۔احسن اقبال جنہیں اس منصوبے کی تفصیلات ازبر ہیں اس منصوبے کی لاگت سے لے کر روڈ میپ کی تفصیلات تک سفارتکاروں کو فراہم کر رہے تھےبلکہ انہیں متاثر بھی… تاہم ان کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کا نتیجہ آج ہم توانائی کے بحران کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ گفتگو میں شریک مسلم لیگی رہنما ڈاکٹر جمال ناصر کا خدشہ تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دھرنوں نے چین کے صدر کا دورہ پاکستان روکا تھا، اب پاک چین راہداری کے منصوبے کو روکنے کیلئے کوئی نئی منصوبہ بندی ہو رہی ہے…
سینیٹ کا الیکشن اور مختلف جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں ٹکٹ کی تقسیم بھی شرکاء کے درمیان موضوع بحث تھی، کچھ لوگوں کو ٹکٹ دیئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا اور کچھ کو نہ دیئے جانے پر… نوازنے اور محروم رکھے جانے کے حوالے سے صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ بعض حیرت انگیز انکشافات بھی ہو رہے تھے لیکن آف دی ریکارڈکی شرط پر جس میں مولانا فضل الرحمن کا کراچی جا کر آصف علی زرداری سے ملنا اور مشترکہ حکمت وضع کرنا بھی شامل تھا۔ برسبیل تذکرہ ہی سہی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن میاں نواز شریف کے اتحادی ہوتے رہیں… لیکن مستقل دوست وہ آصف علی زرداری کے ہی ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں مولانا کو قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی کا چیئرمین صرف آصف علی زرداری کی خواہش پر بنایا گیا تھا۔ (یہ محض ایک حوالہ ہے) سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے والے خوش نصیب تو احسان مندی اور اپنی خوشیوں کا اظہار کسی نہ کسی طریقے سے کر ہی دیں گے۔
لیکن محروم رہ جانے والے اپنی ناراضی سے کسی کیلئے کوئی پریشانی پیدا نہیں کر سکتے کیونکہ سینیٹ میں عوام کے منتخب نمائندے نہیں بلکہ خواص کے نامزد کردہ لوگ جاتے ہیں اور خواص کے ہی رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
تقریب میں یہ دلچسپ انکشاف بھی ہوا کہ بعض حکومتی زعما جو سینیٹ کے امیدواروں کو سینیٹ کا ٹکٹ دلوائے جانے کا وعدہ کئے بیٹھے تھے وہ خود ہی ٹکٹ سے محروم رہے۔ حکومتی حلقوں اور وزیراعظم ہائوس کی راہداریوں میں اکثر دیکھے جانے والے ایک سابق رکن اسمبلی کا دعویٰ تھا کہ سینیٹ کے الیکشن کے فوری بعد وزیراعظم نواز شریف وفاقی کابینہ میں تبدیلیاں کریں گے جس کیلئے ہوم ورک تقریباََ مکمل ہو چکا ہے۔ وزیراعظم کا اعتماد اس حد تک بحال ہو چکا ہے کہ وہ کابینہ کے حوالے سے اب اہم اور مشکل فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیاجا سکتاکہ بعض نومنتخب سینیٹرز کو بھی کابینہ کا حصہ بنایا جائےجنہیں سینیٹ کا ٹکٹ ہی اسی لئے دیا گیا ہے جبکہ بعض وزراء کی پوزیشن بھی تبدیل ہو گی۔ بلوچستان کے سابق کور کمانڈر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ بھی تقریب میں موجود تھے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں بالخصوص آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی کے بارے میں غیرملکی سفارتکاروں کو بریف کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک میں امن وامان کے قیام کیلئے کئے جانے والے اقدامات اور نیشنل سیکورٹی پلان سے متعلق بھی انہیں اعتماد میں لے رہے تھے۔ عبدالقادر بلوچ کو وزیراعظم کا بھرپور اعتماد حاصل ہے اور وزیراعظم ان پر کسی بھی اہم وزارت کیلئے اعتماد کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین