• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریبات تو لاہور میں روز ہوتی ہیں لیکن ویلنٹائن ڈے کے موقع پر رائل پام میں قومی اخبارات کے مدیران کی جو تقریب منعقد ہوئی وہ کئی حوالوں سے یادگار رہے گی۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم نوازشریف تھے۔ نوازشریف کی صلاحیتوں کا اس سے بڑا اعتراف کیا ہو سکتا ہے کہ وہ وطنِ عزیز کے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے واحد رہنما ہیں وہاں کسی نے پوچھا بھی کہ جناب وزیراعظم آپ کی اس کامیابی کا راز کیا ہے؟ لاہور میں صحافیوں کی اتنی بڑی تعداد کو یکجا کم ہی دیکھا گیا ہے۔ صدر محفل جناب مجیب الرحمٰن شامی بتا رہے تھے کہ CPNE کی اس نوعیت کی یہ تیسری بڑی تقریب ہے۔ پہلی تقریب میں ضیاء الحق کو بلایا گیا تھا دوسری ایسی تقریب میں مہمان خصوصی محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں اور آج کی یہ تیسری تقریب سب سے بڑی تھی۔اس پروقار تقریب کے شرکاء نواز شریف کی حسِ مزاج سے بھی محظوظ ہوئے۔ شامی صاحب نے اس موقع پر بر محل یہ کہا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن وزیراعظم نوازشریف ایسے سیاستدان ہیں جن کے سینے میں قدرت نے احساس کرنے والا بڑادل رکھا ہے یہ بھی دلچسپ حسنِ اتفاق تھا کہ دلوں کو چھو لینے والی باتیں دل والوں کے دن ہو رہی تھیں۔ شامی صاحب کہہ رہے تھے کہ جناب وزیراعظم CPNE ایک وفاقی تنظیم ہے اور اس کا مرکزی دفتر کراچی میں ہے اگر اسلام آباد میں اس کیلئے کوئی قطعہ زمین فراہم کر دیا جائے تو ’’ہم اسے بصد مسرت وانبساط قبول کر لیں گے‘‘۔ اسی طرح انہوں نے نادار صحافی کارکنان کیلئے انڈومنٹ فنڈ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم پانچ کروڑ کی رقم فراہم کر دیں ’’تو ہم بخوشی قبول کریں گے‘‘ ۔ جناب وزیراعظم نے بھی اس بذلہ سنجی کا جواب فی البدیہہ اسی اسلوب میں دیتے ہوئے کہا، ’’شامی صاحب نے زمین کے ٹکڑے کو بخوشی قبول کر کے مجھ پر جو احسان کیا ہے اس کیلئے میں ان کا ممنون ہوں وہ اسلام آباد میں تین چار مقامات کی نشاندہی کریں تا کہ میں ان کے احسان کے حصول میں کامیاب ہو سکوں‘‘۔ ’’شامی صاحب نے پانچ کروڑ کے انڈومنٹ فنڈ کو بخوشی قبول کرنے کا اعلان کر کے مجھ پر مزید احسان کا جو بوجھ ڈالا ہے میں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا چنانچہ میں ازراہ تشکر پانچ کروڑ کی منظوری دیتا ہوں‘‘ بعد ازاں جب انہوں نے یہ کہا کہ اگر شامی صاحب دس کروڑ کا کہہ دیتے تو میں وہ بھی مان لیتا اس لئے میں نے بلا تاخیر پانچ کروڑ کا مطالبہ مان لیا۔ اس سے شامی صاحب کا یہ تاسف فطری تھا کہ میں نے دس کروڑکا مطالبہ ہی کیوں نہ کر دیا۔ عرض کیا شامی صاحب آپ افسردہ نہ ہوں آپ نے باقی کا پانچ کونسا چھوڑ دینا ہے کسی اور موقع پر نکلوا ہی لیں گے شامی صاحب سے ہمارا ذاتی و صحافتی تعلق ربع صدی پر محیط ہے وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی دلجوئی کا شاید ہی کوئی موقع ہو جسے ضائع جانے دیتے ہوں اس اتنے اہم موقع پر بھی انہوں نے جناب وزیراعظم سے ہماری ملاقات محبت بھرے الفاظ میں کروائی۔ جناب عطا الرحمن اور جناب رئوف طاہر کیلئے انعامی رقوم پانچ کی بجائے دس لاکھ کروانے کا مطالبہ کرنا بھی نہ بھولے۔ کسی بھی چیز کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ اپنے وقار کو ہمیشہ نظر ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں یہی چیز وزیر اعظم سے مطالبات کرتے ہوئے بھی ان کے پیش نظر تھی۔ CPNE کے صدر کی حیثیت سے ان کی تقریر اپنے اندر یہی گہرا توازن و وقار لئے ہوئے تھی۔شامی صاحب نے بلا شبہ گڈ گورننس کے حوالے سے مہذب اسلوب میں نواز شریف حکومت پرتنقید بھی کی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو کچھوے کی چال قرار دیا۔ پیٹرول بحران اور بڑے اداروں کے سر براہان کا تقررنہ ہونے پر تنقید کی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد نہ کروانے کی مذمت کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ یہ جمہوریت کی کیسی چھت ہے جس کی ہنوز دیواریں مکمل نہیں ہو سکیں نتیجتاً نچلی سطح کے اختیارات عوامی نمائندوں تک نہیں پہنچ سکے لیکن حکومت کی مثبت پالیسیوں اور کارکردگی کے اظہار پر بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ آپریشن ضربِ عضب اور بحالی معیشت کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے جہاں انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کی جامعیت پر روشنی ڈالی وہیں کراچی کو اس کی روشنیاں لوٹانے کی بات بھی کی۔ جہاں آئین شکنوں کی خبر لی وہیں احتجاجی سیاست کرنے والوں کی بھی کھنچائی کی اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نبردآزما افواج پاکستان کی توجہ ان کے ہدف سے ہٹانا گناہ عظیم ہے۔ان کا یہ فقرہ بھی قابل داد تھا کہ ہمارا دستور دنیا کا واحد دستور ہے جس کے ایک ایک صفحے پر من مانی اور یکطرفہ ترامیم کے اثرات موجود ہیں۔شامی صاحب کے حوالے سے یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کی تحریر زیادہ بہتر ہوتی ہے یا تقریر خود وزیراعظم نوازشریف نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ شامی صاحب نے جو نوٹس مجھے بھجوائے تھے وہ سب تو انہوں نے خود ہی بیان کر دیے اب میں لکھی ہوئی تقریر کو چھوڑ کر فی البدیہہ تقریر کرونگا اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی یہ فی البدیہہ تقریر ایسی تھی کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے سیاسی مصلحتوں یا لگی لپٹی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر صاف گفتگو کی ہمیں جناب وزیراعظم کی جو بات زیادہ متاثر کن لگی وہ ان کی قومی درد مندی تھی انہوں نے دھرنے کے موقع پر بیشتر میڈیا ہاوسز کے کردار پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اگر کسی کو میرا وزیراعظم بننا پسند نہیں تو اس کی سزا ملک کو نہ دی جائے۔ نواز شریف نے کہا کہ جب پرویز مشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو کچھ صحافی ایسے بھی تھے جو اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر اس ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے مجھے خوشی ہے کہ وہ آج اس تقریب میں موجود ہیں میرے دل میں ان کے لئے بہت احترام ہے لیکن دوسری طرف یہاں ایسے چہرے بھی موجود ہیں جنہوں نے آئین شکنوں کی حمایت کی ایسے لوگوں نے مشرف کو اس وقت کی سپریم کورٹ کی طرف سے آئینی ترمیم کا حق ملنے کی حمایت کی ۔ مجھے میڈیا کی آزادی سے پیار ہے لہٰذا میڈیا کو بھی چاہے کہ وہ اپنا ضابطہ اخلاق خود بنائے اپنے غلط لوگوں کو خود روکے۔ میڈیا کو اپنی خود احتسابی کا اہتمام خود کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں جو سب سے خوبصورت بات کہی وہ میڈیا کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کی یہ گزارش تھی کہ میڈیا کم از کم دو سال کیلئے اپنی ریٹنگ کو بھول جائے نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئی ہیں اور مسلح افواج اس کا حصہ ہیں اسی طرح میڈیا کو بھی اس پلان کا حصہ ہونا چاہئے ۔
تازہ ترین