• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی پہلی بیوی کو ’’لیڈی نون ‘‘ کہا جاتا تھا۔ملک صاحب نے جب دوسری شادی کی تو ایک انگریزی اخبار نے سرخی لگائی ’’لیڈی آفٹر نون‘‘ ۔ویسے تو شادی ایک آرٹ ہے مگر ہمارے ہاں یہ مارشل آرٹ ہے ۔ روسی کہاوت ہے کہ بیوی خاوند کی دریافت ہوتی ہے اور خاوند بیوی کی ایجاد ۔پرتگالی کہتے ہیں کہ کوئی بندہ اپنی بیوی کا ہیرو نہیں ہوتا اور کوئی عورت اپنے ہیرو کی بیوی نہیں ہوتی ۔امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرناایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خرید نا شروع کردے ۔اٹلی والوں کی رائے ہے کہ جس مرد کی جرابیں پھٹی یا بٹن ٹوٹے ہوئے ہوں تو اسے دو میں سے ایک کام فوراً کر لینا چاہیے یا شادی کر لے یا طلاق دیدے۔مصری دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی چھوٹے قد کی عورت سے کرنی چاہیے کیونکہ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے۔سندھی کہاوت ہے کہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوتے ہی آدھی شادی شدہ ہوتی ہے اور شیخو کہتا ہے کہ بیوی کود ل نہیں دینا چاہیے کیونکہ بیوی کو دل دینے کا مطلب یہ ہے کہ باقی عمر بے دلی سےگزارنا ۔ ایک سردار نے اپنے دوست کو بتایا کہ آج میں نے اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ سینما جاتے دیکھا ۔تم ان کے پیچھے کیوں نہیں گئے جب دوست نے یہ کہا تو سردار بولا چھوڑو یا ر میں نے وہ فلم 5مرتبہ دیکھی ہوئی ہے ۔ایک خان صاحب کی بیوی مر گئی ۔ اب میت پر وہ تو چپ بیٹھے تھے مگر مرحومہ کا ایک چاہنے والا دھاڑیں ما ر مار کر رو رہا تھا ۔جب یہ رونا دھونا حد سے بڑھ گیا تو خان صاحب بولے یارا دکھ نہ کرو ہم جلد ہی دوسری شادی کر لے گا ۔ میرا ایک صدیوں کا کنوارا دوست جس کے بارے میں ہم سب متفق ہیں کہ اس سے وہی عورت شادی کرے گی جسے لطیفے پسند ہوں گے ، جو سینکڑوں بلائنڈ ڈیٹس پر جانے کی بناء پر خو د کوبلائنڈ کرکٹ ٹیم کا مصباح الحق کہتا ہے ۔ جس پر بچپن،جوانی اور بزرگی آئی مگر الٹی ترتیب سے ،جو Heartکو He-artاور خواتین کو آداب ایسے کہتا ہے کہ جیسے کہہ رہا ہو آ۔داب ۔ اس نورِجہاندیدہ کا کہنا ہے کہ عقلمند مرد عورت کو یہ بتانے میں لگا رہتا ہے کہ میں تجھے چاہتا ہوں اور بے وقوف یہ ثابت کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ایک دن بولا میوزک دیکھنا اورحسن کو سننا نہیں چاہیے ۔ ایک شام کہنے لگا کہ آدمی اپنے لطیفوں سے پہچا نا جاتا ہے او ر عورتیں اس سے پہچا نی جاتی ہیں کہ وہ کن لطیفوں پر ہنستی ہیںاور اس کے خیال میں عورت تو وہ ہی ہے جو گھر سے طلوع ہو کر چاہنے والے میں غروب ہو جائے ۔
لیکن مجھے آجکل حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ کل تک ایک سابق ’’بڑے‘‘ کی حالیہ بیوی کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے شیخو نے ان دنوں اپنی دوربینیں خواتین کی بجائے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید پر فٹ کر رکھی ہیں۔کہتا ہے پرویز رشید سیاست کا اداکار محمد علی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ محمد علی فلم میں کتابیں پکڑ کر کالج جار ہا ہوتا تو لگتا تھا استاد پنشن لینے جا رہا ہے جبکہ پرویز رشید کو دیکھ کر لگتا ہے کہ استاد کو ابھی تک پنشن نہیں ملی۔ بقول شیخو پرویز رشید کو ’’مائیکرو مینیا‘‘ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اپنی جماعت اور اپنی لیڈر شپ کے علاوہ انہیں ہر چیز چھوٹی چھوٹی سی لگتی ہے ۔ جیسے ایک صاحب کو ایک ہی مضمون ’’کبڈی کا میچ ‘‘ یاد تھا ۔لہذا پرچے میں جو مضمون بھی آتا ،وہ کسی نہ کسی طرح اس میں اپنا مضمون فٹ کر دیتے ۔ ایک بار امتحان میں ہوائی جہاز پر مضمون آگیا تو انہوں نے کچھ اس طرح لکھنا شروع کیا کہ جونہی جہاز ہوا میں بلند ہوا تو مجھے کھڑکی سے باہر گراؤنڈ نظر آیا،جس میں کبڈی کا میچ ہو رہا تھا اور پھر آگے کبڈی پرپورا مضمون لکھ دیا ۔ ایسے ہی پرویز بھائی نے ایک ہی مضمون ’’عمران برا سیاستدان ہے ‘‘رٹا ہوا ہے ۔لہذا ایشو کوئی بھی ہودوچار جملوں کے بعد وہ اپنے مضمون پر آجاتے ہیں ۔ پرویز بھائی اب نظر کی عینک لگاتے ہیں ،عینک لگائی ہو تو لگتا ہے کہ انہیں نظر لگی ہوئی ہے ۔ جب انہیں بات کرنی ہو تو عینک کے نیچے سے دیکھتے ہیں ،دھمکی دینی ہو تو عینک کے اوپر سے دیکھتے ہیں اور اگر صرف دیکھنا ہو تو عینک اتار لیتے ہیں ۔ شیخو کا کہنا ہے کہ اب تون لیگ پرویز رشید کے بغیر ایسے ہی ہے کہ جیسے نسوار کے بغیر پٹھان ۔ ان دنوں پرویز بھائی سے جو کوئی بھی پوچھتا ہے کہ دن کتنے گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے تو جواب ملتا ہے 12پریس کانفرنسوں پر جبکہ ان کے نزدیک خوشگوار دن کا مطلب ہے کہ 12میں سے کم ازکم بارہ پریس کانفرنسیں کپتان کیخلاف ہوں ۔ویسے توپرویز بھائی اُس وقت بھی کچھ نہیں کہہ رہے ہوتے جب وہ بول رہے ہوتے ہیں مگر شیخو کہتا ہے کہ پھر بھی ان کی پریس کانفرنسوں کاآسان زبان میں ترجمہ کروالینا چاہیے تاکہ پتا تو چل سکے کہ اتنے عرصے سے وہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں ۔شیخو نے ہی بتایا ہے کہ ایک روز پرویز رشید کی پریس کانفرنس کے دوران جب میں نے ساتھ والے شخص سے کہا کہ وہ دیکھو سامنے والا سو رہا ہے تو وہ غصے سے بولا ’’اتنی سی بات پر مجھے جگا دیا‘‘۔پرویز بھائی کی پرفارمنس دیکھ کر شیخو کو وہ شخص یاد آجاتا ہے کہ جس نے جان پر کھیل کر جلتی آگ میں سے 7لوگوں کو نکالا لیکن پھر ان ساتوں نے مل کر اس جانباز کو اس لئے بہت مارا کہ و ہ سب فائر بریگیڈ والے تھے ۔کہتے ہیں کہ پرویز رشید کو ایک شاعر نے اپنی کتاب ’’اکائی ‘‘ تبصرے کیلئے بھیجی تو اُنہوں نے اپنی رائے کچھ اس طرح دی ’’اکائی،دہائی،سینکڑہ ،ہزا ر، دہ ہزار۔۔۔ آپ کا اپنا پرویز رشید ۔ شیخو کی باتیں اپنی جگہ مگر جیسے ایک بار خاتون باکسنگ کی کمنٹری کر رہی تھیں ۔تیسرے راونڈ کے بعد باکسر نے درخواست کی ’’بی بی آہستہ آہستہ کمنٹری کریں۔آپ اتنی تیز ہیں کہ میں آپکا ساتھ نہیں دے سکتا۔ ایسے ہی میں اپنے دوست پرویز رشید سے کہنا چاہوں گا کہ جو کرنا چاہتے ہیں کریں مگر اپنی اختلافی سیاست کی گاڑی میری دعاؤں سے تیز نہ چلائیں ۔
مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ ’’ہر روز اذانیں دینے کے باوجود مرغے کو مولانا صرف اور صرف پیشہ وارانہ رقابت کی وجہ سے ذبح کر دیتے ہیں۔ مولانا سے یاد آیا کہ ایک مچھر حسینہ کے سر، منہ اور ہاتھوں سے ہوتا ہوا جب سیدھا آکر مولانا کی دودھ پتی میں گرا تو وہ بولے ’’واہ بھئی واہ‘‘ عیاشی وہاں اور غسل یہاں ۔ ایک سردار کی 20لاکھ کی لاٹری نکلی لیکن جب دو لاکھ ٹیکس کاٹا گیا تو سردار ناراض ہو کربولا ’’ اگر اتنے ہی پیسے کاٹنے ہیں تو میری ٹکٹ کے 50روپے واپس کر دیں ۔ چند دن قبل شیخو کو ناراض بیٹھے دیکھ کر وجہ پوچھی تو بولا پاک بھارت میچ پر چار سو روپے لگائے ہار گیا ۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ 4سو روپے ہائی لائٹس (جھلکیوں ) پر لگائے وہ بھی ہار گیا ہوں ۔پچھلے جمعہ کو اداسی کا سبب معلوم کیا تو کہنے لگا جمعہ کی نماز مِس ہوگئی ہے ۔پوچھا کیسے تو فرمایا ’’نماز کھڑی ہوئی تو امام صاحب نے کہا کہ اپنے اپنے موبائل آف کردیں اور میرا موبائل گھر پر تھا ۔ایک روزجذباتی ہو کر بولا ’’خودکشی حرام ہے ،گناہ ہے ،ظلم ہے اس سے تو اچھا ہے کہ بندہ خود کو گولی مار لے ۔ایک دن کہنے لگا مجھے تو بندگوبھی پسند ہے۔ واحد باپردہ سبزی ہے ۔ ایک بار بولا ’’ نیند کے انتظار سے تو بہتر ہے کہ بندہ سو جائے۔چند دن پہلے محلے کے بچوں کے ساتھ ’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کھیل رہا تھا جب اس سے سوال ہواکہ اپنے باپ کا نام بتاؤ تو بولا’’مجھے بے وقوف سمجھتے ہو ،پہلے چار آپشنز تو دو۔
دوستو! شادی کرناایک ایسا ہی ایک احمقانہ کام ہے کہ جیسے خود خرید کر سگریٹ پینا ۔شادی وہ لاٹری ہے جو کبھی نہیںنکلی ،شادی سے پہلے بندہ ہر وقت بخار کی کیفیت میں رہتا ہے اور شادی کے بعد لگتا ہے ٹایئفائیڈ ہوگیا ہے اور جب آدمی شادی کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اصل خوشی کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ’’برتھ کنٹرول کرنے کی بجائے خو د کو پہلے ہی کنٹرول کرلیں‘‘۔
تازہ ترین