• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت پہلے راقم نے ملک کی ایک نہایت اہم شخصیت کا انٹرویو پڑھا تھا۔ جس میں موصوف نے بتایا تھا کہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ سول جج بھرتی ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ پی سی ایس (جوڈیشل) کا امتحان دیا۔ مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ مجھے یہ بات کچھ عجیب سی لگی تھی۔ چنانچہ تصدیق کیلئے موصوف سے براہ راست رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق فرمادی۔ البتہ اتنا اضافہ کیا کہ وہ فیل نہیں ہوئے تھے، میرٹ میں نام نیچے ہونے کی وجہ سے منتخب نہ ہوپائے تھے۔ موصوف کی اس وضاحت کے بعد تو یہ ناچیز گویا بحر حیرت میں غرق ہوگیا۔ مقابلے کے امتحان کے ذریعے سول جج نہ بن پانے کے بعد انہوں نے وکالت شروع کردی۔ چند برس گزرے تھے کہ کسی طریقے سے گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمود خان تک رسائی ہوگئی اور موصوف براہ راست ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن مقرر ہوگئے۔ اور پھر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ہوتے ہوئے قصر صدارت تک جاپہنچے۔ جبکہ پی سی ایس (جوڈیشل) کے ان کے بیچ میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے والے صاحب سیشن جج یا ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کے منصب سے اوپر نہیں اٹھ پائے تھے۔ یہ اس نوعیت کی کوئی واحد مثال نہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔ بلکہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو سول ججی کے امتحان میں تو سرخرو نہ ہوسکے مگر براہ راست ہائیکورٹ کی ججی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
دراصل جوڈیشری پاکستان کی واحد سروس ہے۔ جس میں ہر سطح اور ہر درجہ پر براہ راست بھرتی ہوتی ہے۔ ابتدائی بھرتی سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کیلئے ہوتی ہے۔ جس کیلئے متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ مقابلے کے امتحان کا اہتمام کرتی ہے۔ جس میں دو سالہ تجربے والے وکلا شرکت کرتے ہیں اور کامیاب ہونے پر اٹھارہویں گریڈ میں سول جج/ جوڈیشل مجسٹریٹ کے طور پر ملازمت کا آغاز کرتے ہیں۔ مقابلے کے امتحان کے ذریعے عدلیہ کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے والے ان عدالتی افسران کو ماتحت عدلیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو پنجاب کی حد تک بالعموم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے اوپر نہیں اٹھتے۔ البتہ چند خوش نصیب ریٹائرمنٹ سے سال/ چھ مہینے پہلے ہائیکورٹ میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان کیلئے تقریباً شجر ممنوعہ ہے۔ کوشش کے باوجود راقم جسٹس محمد الیاس کے بعد دوسری مثال تلاش نہیں کرپایا۔ البتہ دوسرے صوبوں کے حالات قدرے بہتر ہیں، جہاں ماتحت عدلیہ سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچنے والوں کی خاطر خواہ مثالیں موجود ہیں۔ عدلیہ میں دوسری انٹری ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر ہوتی ہے۔ چند برس کے تجربہ کے حامل وکلا مختصر سا امتحان پاس کرکے 20 ویں گریڈ کی پوسٹ پر فائز ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ امتحان کا تردد حال کی چیز ہے، ماضی میں یہ سب کسی کی جنبش ابرو کے تابع ہوتا تھا۔ تیسری انٹری ہائیکورٹ کے جج کے طور پر ہوتی ہے۔ پندرہ برس کی پریکٹس والے وکلا بغیر کسی امتحان کے ایک خاص عمل سے گزر کر ہائیکورٹ کے جج بن سکتے ہیں۔ گو سپریم کورٹ میں براہ راست بھرتی کا دروازہ بھی کھلا ہے، اور ہائیکورٹ میں پندرہ برس کی پریکٹس والے وکلا عدالت عظمیٰ کے جج بن سکتے ہیں، مگر بالعموم ہائیکورٹ کے سینئر جج صاحبان ہی آگے آتے ہیں۔
عدلیہ میں بھرتی کے اس نظام کے حوالے سے لامحالہ ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے، کہ اسے فری فار آل قسم کی چیز کیوں بنادیا گیا ہے؟ جبکہ باقی تمام سول اور ملٹری سروسز میں انٹری ابتدائی رینک میں ہوتی ہے، اور اہلکار ترقی کرتے کرتے ٹاپ تک پہنچ جاتے ہیں۔ سول سروس میں مقابلہ کے امتحان کے ذریعے بارہ سروس گروپس میں بھرتی ہوتی ہے۔ اور کسی سروس گروپ میں باہر کے آدمی کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر سرکار کبھی کسی دبائو میں آکر ایسا کر بھی دے، تو پورا سروس گروپ سراپا احتجاج بن جاتا ہے اور حکومت کو بالعموم پسپا ہونا پڑتا ہے۔ ایف پی ایس سی کے ذریعے سترہ گریڈ میں بھرتی ہونے والا افسر بائیسویں گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہی حال ملٹری سروس کا ہے۔ آرمی میں ابتدائی بھرتی سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر ہوتی ہے۔ جو ترقی کرتے کرتے چیف آف دی آرمی اسٹاف تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی کو براہ راست کرنل، بریگیڈیئر یا جنرل بھرتی کیا گیا ہو۔ خواہ ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں اس نے ڈبل پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کر رکھی ہو۔ اور نہ ہی کسی کو براہ راست ڈپٹی کمشنر یا کمشنر اپائنٹ کیا جاتا ہے۔ خواہ وہ پبلک ایڈ منسٹریشن کی اعلیٰ ترین ڈگری دنیا کی بہترین یونیورسٹی سے ہی کیوں نہ لیکر آیا ہو۔
ایسے میں عدلیہ میں ہر عہدے کیلئے کھلی بھرتی کا نظام کچھ عجب سا لگتا ہے۔ عدلیہ میرٹ کی سب سے بڑی علمبردار اور محافظ ہے۔ کہیں بھی میرٹ کی خلاف ورزی ہو، آخری امید اسی سے باندھی جاتی ہے۔ مگر ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہائیکورٹ کے جج کس کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کا انتخاب محض کسی کے حسن انتخاب کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریق کار پر ہمیشہ سے انگلیاں اٹھتی آئی ہیں، اور ایسے ایسے لوگ بھی جج بن گئے، جو کسی طور پر بھی اس کے اہل نہ تھے۔ اب جبکہ نائب قاصد اور کانسٹیبل کی نوکری کو بھی نیشنل ٹیسٹنگ سسٹم کے تابع کردیا گیا ہے، اور مخصوص امتحان پاس کرنے کے بعد ہی کوئی چھوٹے سے چھوٹے منصب پر فائز ہوسکتا ہے، تو اعلیٰ عدلیہ کیلئے بھرتی کا طریق کار محل نظر ہے۔ اس حوالے سے اہل سیاست کے اپنے تحفظات ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں، کہ اس معاملے میں سارا اختیار عدلیہ کے پاس ہے اور وہ محض انگوٹھا لگانے والوں میں سے ہیں۔ اسی لئے 22 ویں آئینی ترمیم کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ جس میں دیگر کے علاوہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہائیکورٹ کیلئے ٹیلنٹ ہنٹگ کی بنیاد کو وسیع تر کیا جائے۔ جس میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ، دو سینئر موسٹ جج، صوبائی وزیر قانون، ایڈوکیٹ جنرل اور صوبائی بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو۔ اس حوالے سے راقم نے بعض ارکان پارلیمنٹ اور وکلا سے بات کی، تو ایک سیانے نے بڑے پتے کی کہی، کہ دھواں تبھی اٹھتا ہے، جب آگ ہوتی ہے۔ جوڈیشری کے مسائل کے حوالے سے ہم حقیقت پسند نہیں۔ جن سے آگاہ تو ہیں، مگر مسلسل صرف نظر کرتے آئے ہیں۔ شاخیں تراش دیتے ہیں، جڑ پر دھیان نہیں دیتے۔ ایک چھوڑ ہزار ترامیم لے آئیں، راہ تب ملے گی، جب اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور ہونگے۔ مسئلے کا شافی و کافی حل ایک ہی ہے کہ عدلیہ کو وفاقی سروس کی طرز پر کل پاکستان سطح پر استوار و منظم کیا جائے۔ جسے آل پاکستان جوڈیشل سروس کا نام دیا جاسکتا ہے۔ بھرتی کیلئے بنگلہ دیش کی طرز پر جوڈیشل سروس کمیشن قائم کیا جاسکتا ہے۔ مجوزہ پاکستان جوڈیشل سروس میں انٹری صرف اور صرف سول جج/ جوڈیشل مجسٹریٹ کی سطح پر ہو۔ یہی لوگ سیشن جج بنیں، ہائی کورٹس میں جائیں، اور سپریم کورٹ کو رونق بخشیں۔ جس سے یقیناً عدلیہ کی کایا پلٹ جائے گی۔ ابتدائی گریڈ میں بھرتی ہونے والوں کو علم ہوگا کہ صرف اور صرف بہتر کارکردگی ہی ان کی ترقی کی ضامن ہے۔ جس کی بنا پر وہ سپریم کورٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی میراتھن ہوگی، جو صرف ٹیلنٹ والے ہی جیت سکیں گے اور بغلی گلیوں سے شامل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ رہے وکلا حضرات، تو اِدھر اُدھر جھانکنے کی بجائے اپنے پیشے میں یکسو رہیں، اور اسی میں نکتہ کمال کو پہنچیں۔ یہ نہیں کہ وکالت سے جی بھرا تو جج بن گئے، اور ججی راس نہ آئی تو پھر سے وکالت شروع کردی۔ جج کا منصب بے حد سنجیدگی اور یکسوئی کا متقاضی ہے، جسے کیریئر آفیسرز ہی بہتر طور پر نبھا پائیں گے۔
تازہ ترین