• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشہور ناول ’’ الکیمسٹ ‘‘ کا نوجوان ہیرو ’’ سنتیاگو ‘‘ اہرام مصر کی طرف اپنے انتہائی مشکل سفر کے دوران ایک قصبے میں کچھ عرصے کے لیے قیام کرتا ہے اور وہاں جب بلوریں شیشے کی ایک دکان پر ملازمت اختیار کر لیتا ہے ۔ سنتیاگو تھوڑے ہی عرصے میں اس دکان کی ہیئت بدل دیتا ہے اور اس کا کاروبار چمکا دیتا ہے ۔ ایک دن وہ بوڑھا شخص سنتیاگو سے کہتا ہے کہ ’’ تجارت واقعی بڑھ گئی ہے ۔ دکان میں اچھی فروخت ہو رہی ہے ۔ تم بھی جلد واپس جانے کے قابل ہو جاؤ گے ۔ زندگی میں مزید تگ و دوکیوں کی جائے ؟ ‘‘ سنتیاگو نے بغیر سوچے سمجھے کہا ’’ کیونکہ ہمیں غیبی اشارے کا جواب دینا ہے ۔ ‘‘ سنتیاگو کو بعد میں افسوس ہوا کہ اسے یہ بات نہیں کہنی چاہئے تھی ۔ کیونکہ ’’ غیبی اشارے ‘‘ کو بوڑھا شخص نہیں سمجھ سکا ہو گا لیکن بعد میں جو باتیں ہوئیں ، ان سے سنتیاگو کو یہ احساس ہوا کہ وہ بوڑھا شخص ہر بات سمجھ رہا ہے ۔
گذشتہ پیر کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت قومی ایکشن پلان کا جائزہ لینے کے لیے کراچی میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اورسابق صدر آصف علی بھی شریک ہوئے ۔ اس اجلاس میں کچھ باتیں ایسی ہوئیں ، جنہیں میڈیا کے لوگ ’’ غیبی اشاروں ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ کی موجودگی میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کی گئی اور یہ کہا گیا کہ پولیس میں بہت زیادہ سیاسی مداخلت ہے اور میرٹ کے بجائے من پسند لوگوں کو تقرریاں دی جاتی ہیں ۔ سندھ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے راقم کو ان باتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ اجلاس کے بعد ایک اہم شخصیت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کے کہنے پر اجلاس میں یہ باتیں کی گئیں ۔ صرف پولیس ہی نہیں بلکہ دیگر اہم محکموں میں ہونے والی مبینہ کرپشن اور بعض افسران کی غیر معمولی طاقت پر بھی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ۔ اپیکس کمیٹی کے اس اجلاس کی یہ باتیں میڈیا میں بھی آئیں اور ان کی کسی نے تردید نہیں کی ۔ یہ ایک طرح کی سندھ حکومت پر چارج شیٹ ہے ۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر داخلہ سندھ اور آصف علی زرداری کے 45 سال تک قریب ترین رہنے والے دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی اسی طرح کی چارج شیٹ کر چکے ہیں اور وہ آج کل لندن میں بھی بیٹھ کر اسی چارج شیٹ کو دہرا رہے ہیں ۔ ذوالفقار مرزا کا کہنا یہ ہے کہ سندھ حکومت دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں مصلحت پسندی کا شکار ہے اور ہر کوئی مبینہ طور پر لوٹ مار کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ میرے گذشتہ کالم ’’ ایک تھا گانمن سچار ‘‘ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے انتہائی سینئر رہنما نے موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کا کیس بہت مدلل انداز میں پیش کیا ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب پیپلز پارٹی امن وامان کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی اقدامات کرتی ہے تو میڈیا ، سول سوسائٹی ، مختلف سیاسی جماعتیں اور یہاں تک کہ بعض ریاستی ادارے پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں اور اس پر ماورائے آئین اقدامات کے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ایسے حالات میں کچھ کرے تو بھی اس پر تنقید کی جاتی ہے اور نہ بھی کرے تو بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ان کے بقول یہ بات ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے ان سینئر رہنما کی باتوں کا میں یہ مطلب اخذ کر سکا ہوں کہ سسٹم پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہے ۔ اگر ایسی بات ہے تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ جب پیپلز پارٹی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سسٹم مخالف ہے تو پھر کراچی واٹر بورڈ ، فش ہاربر اتھارٹی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر محکموں کے معاملات اس طرح نہیں چلائے جاتے کہ اپیکس کمیٹی میں انتہائی ذمہ دار لوگ بھی تنقید کے لیے مجبور ہو جائیں ۔ پولیس ، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں کے امور چلانے کے لیے متعلقہ وزراء بے اختیار نہیں ہوتے ۔ آبپاشی جیسا محکمہ وہ شخص نہیں چلاتا ، جس کا حکومت میں کوئی عہدہ نہ ہو ۔ اے آئی جی اور ڈی آئی جی رینک کے افسران اپنے تبادلوں اور تقرریوں کے لیے ایک ایس پی کے بنگلے پر حاضری نہیں بھرتے ۔ دو ہفتوں میں تین ہوم سیکرٹریز تبدیل نہیں کیے جاتے ۔ داخلہ اور زراعت جیسے اہم محکمے اضافی چارج پر نہیں چلائے جاتے ۔ بڑے بڑے منصوبوں کے ٹھیکوں کے فیصلے وہ لوگ نہیں کرتے ، جن کا حکومت یا پارٹی سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔ سکھر جیسے اہم پولیس ریجن کو کئی ماہ تک ڈی آئی جی کے بغیر نہیں چلایا جاتا ۔ شکار پور جیسے عظیم سانحہ پر ذمہ دار پولیس افسروں کو پہلے سے زیادہ طاقتور نہیں بنایا جاتا ۔ ’’ ٹینڈر‘‘ پر افسروں کی بھرتیوں اور نوکریاں بیچنے کے الزامات پر خاموشی اختیار نہیں کی جاتی ۔ سندھ حکومت کے سینئر اور جونیئر وزراء کی گروہ بندی کو جس طرح سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی بینچوں سے ہوا دی جاتی ہے ، اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاتی ہیں ۔ کراچی سمیت سندھ کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے ، جس کا میونسپل سسٹم درست ہو ۔ صوبے میں کسی بھی جگہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ کراچی میں روزانہ بے گناہ لوگ مر رہے ہیں ۔ سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی جرائم پیشہ عناصر کھلی کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ سانحہ شکارپور کے بعد پورا صوبہ دہشت گردی کے خوف میں مبتلا ہے ۔ ان باتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے ۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں کبھی سیاسی اور داخلی استحکام قائم نہیں ہو سکا ہے ۔ سندھ میں تین بار گورنر راج نافذ ہو چکا ہے ۔ پہلا گورنر راج 29 دسمبر 1951 کو ، دوسرا 24 جون 1988 ء اور تیسرا 30 اکتوبر 1998ء کو نافذ ہوا ۔ یہ تینوں گورنر راج اس وقت نافذ ہوئے ، جب باقی صوبوں میں منتخب حکومتیںکسی مشکل کے بغیر کام کر رہی تھیں ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ ’’ غیبی اشارے ‘‘ کو شاید سمجھ چکے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے یہ بیان دیا ہے کہ اپیکس کمیٹیوں کے ذریعہ حکومتیں نہیں چلائی جا سکتیں ۔ اگر اپیکس کمیٹیوں کے ذریعہ حکومتیں چلائی گئیں تو ان کا بہت نقصان ہو گا ۔ پیپلز پارٹی کی بزرگ قیادت اگرچہ ’’ غیبی اشارے ‘‘ سمجھ رہی ہے لیکن سنتیاگو کا کہنا یہ ہے کہ ان غیبی اشاروں کا جواب دینا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ’’ سنتیاگو ‘‘ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بھی یہ باتیں منسوب کی جا رہی ہیں کہ سسٹم کی مخالفتوں کا سامنا کرنا ہے تو اچھی حکمرانی قائم کرنا ہو گی اور کرپشن کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ بلوریں شیشے کی دکان کا زیادہ چلتا ہوا کاروبار آخری منزل ہے ۔
تازہ ترین