• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکار پور کے بعد حیات آباد پشاور، پھر لاہور میں پولیس لائینز اور اس سے اگلے روز اسلام آباد کی امام بارگاہ قصرسکینہ، دہشت گردی کے واقعات میں اِضافہ ہوگیا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی تو اس کا بیک لَیش بھی ہونا تھا۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران پاکستان میں بم دھماکوں پر ضیاء الحق کا ردعمل ہوتا تھا، قوم حوصلہ رکھے، یہ افغان پالیسی کی قیمت ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔ روسی ریچھ کی گرم پانیوں تک رسائی کا راستہ روکنے کی قیمت، روس اور بھارت کے درمیان سینڈوچ کی پوزیشن سے بچنے اور پاکستان کی خودمختاری کو محفوظ رکھنے کی قیمت۔ اب ایک اور طرح کی جنگ ہے جس کا کوئی چہرہ نہیں۔ روایتی جنگوں میں دُشمن آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ اس کے مورچے، اس کے ٹینک ، اس کی توپیں ، اس کی فضائیہ، اس کی بحریہ، کچھ بھی خفیہ نہیں ہوتا۔ محاذ جنگ بھی سامنے ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کی یہ جنگ مختلف ہے۔ اس میں دُشمن کو پہچاننا آسان نہیں۔انیشی ایٹو بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔ پورا ملک محاذ جنگ ہے، جانے وہ کہاں ، کس وقت اور کس نوعیت کی کارروائی کر گزرے۔’
’ ضربِ عضب‘‘ نے شمالی وزیرستان میں اِسے اس کی تربیت گاہوں، اس کی پناہ گاہوں، اس کی ’’اسلحہ ساز‘‘ فیکٹریوں سے محروم کردیا ہے۔ خیبر ایجنسی میںآپریشن خیبر1 بروئے کار ہے۔ اِدھر افغانستان میں بھی حالات بدل چکے، اس کی پناہ گاہیں اور تربیت گاہیںاب وہاں بھی محفوظ نہیں۔ البتہ ہمارے مشرقی ہمسائے کی سوچ اور رویہ بدلنے میں شاید دیر لگے۔ دہشت گردی کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی تو ظاہر ہے، دُشمن جوابی کارروائی بھی کرے گاکہ شہروں میں اس کے سلیپنگ سیل ابھی موجود ہیں، یہاں اس کے مددگار اور سہولت کار بھی ہیں۔قوم نے اس عفریت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے اور اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ تر بنانے کا فیصلہ کیا ہے، تو اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہے۔ روایتی جنگوں سے مختلف، پیچیدہ اور مشکل تراس جنگ میں قوم کو ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہے۔ سیاسی ، مذہبی اور عسکری قیادت کے اتفاقِ رائے سے تیار ہونے والے نیشنل ایکشن پلان پر اسی یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہے( اس میں overdoing سے گریزلازم ہے۔ لاؤڈ اسپیکر سے اذان اور جمعہ کے عربی خطبے کے سوا کسی اور ’’مواد‘‘ کی ’’نشرواشاعت‘‘ پر پابندی بجا لیکن اذان کے ساتھ درودوسلام پر پکڑ دھکڑ، جرمانوں اور گرفتاریوں کی حکمت؟ وہ تو اچھا ہوا، وفاقی حکومت بروقت بروئے کار آئی اور قانون نافذ کرنے والوں کی حد سے بڑھی ہوئی اِن پھرتیوں کا سلسلہ تھم گیا)۔
اِدھر اینٹی ٹیررسٹ سول فورس کی تیاری کا کام بھی جاری ہے۔پاک فوج اس میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ لاہور اور کوئٹہ میں انسدادِ دہشت گردی کے سول دستوں کی پہلی پاسنگ آؤٹ پریڈز ہوچکیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف بھی اس میں شانہ بشانہ تھے۔ کراچی میں امن و سلامتی کا ماحول ملک کے کسی بھی اور حصے کے امن و امان سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ سول اور عسکری قیادت اس حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ جناب وزیراعظم اور آرمی چیف گزشتہ دِنوں پھر کراچی میں تھے، یہاں اعلیٰ سطحی اِجلاس (ایپکس کمیٹی) میں وزیراعظم کے ایک جانب آرمی چیف اور دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری بھی موجود تھے۔ (وزیراعظم اور سابق صدر کی الگ سے ملاقات بھی ہوئی)۔
اگلے روز تُرک وزیراعظم جناب داؤد اوغلو اسلام آباد پہنچے۔ پاکستانی اخبارات کے مطالعے کے دوران، ان کی نظر اس تصویر پر بھی پڑی جس میں وزیراعظم کے بائیں جانب آرمی چیف اور دائیں طرف سابق صدر آصف زرداری تھے۔ پاکستانی مدیرانِ جرائد سے ملاقات میں جناب اوغلو نے اس تصویر کا ذکر بھی کیا۔ اِن کا کہنا تھا یہ تصویر ، یہ منظر دیکھ کروہ بہت خوش ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت میں تمام ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ اپنی اپنی جگہ لے رہے ہیں، ان کی صحیح placement ہورہی ہے۔ انہیں ایک دوسرے کی آئینی حیثیت کا احساس ہوچکاہے اور وہ اس کے مطابق گنجائش بھی پیدا کر رہے ہیں۔پھر اُنہوں نے اپنے ملک کا ذکر چھیڑا۔ ان کے بقول، تُرکی میں بیوروکریسی اور فوج کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ امورِ مملکت چلانا سویلینز کی ذمہ داری ہے، یہ عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے ورنہ وہاں بھی ایک عرصہ تک فوج کا یہی خیال تھا کہ ملک کی صدارت پر اس کا حق ہے۔ اب وہ ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ دِلا رہے تھے۔
جمہوریت محض اپنے نمائندے منتخب کر لینے کا نام نہیں۔ جمہوریت میں گڈ گورننس بھی ضروری ہے۔ جمہوریت ’’پرفارم‘‘ نہیں کرے گی تو بات نہیں بنے گی، عوام اس کے تحفظ کیلئے اس کی پشت پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ آج اگر تُرک عوام جمہوریت کے پشت پناہ ہیں اور غیر سیاسی و غیر جمہوری قوتیں اپنی اصل حدود میں واپس چلی گئی ہیں تو اس لیے کہ وہاں جمہوریت نے ’’پرفارم‘‘ کیا ہے، ڈیلیور کیا ہے۔تُرک وزیراعظم اب مسلم دُنیا کا ذکر کر رہے تھے، جہاں عرب بہاراں کے بعد بھی ایک طرف آمریتیں ہیں(مصر میں جنرل سیسی اور شام میں بشارالاسد )اور ان کے ردعمل میں ’’داعش‘‘۔ اِن کا کہنا تھا، کیا عالم اسلام کی قسمت میں یہی دو ماڈل ہیں؟ فوجی / سول ڈکٹیٹرشپ اور دوسری طرف ٹیرراِزم لیکن ایک تیسرا ماڈل بھی ہے، تُرکی اور انڈونیشیا کا جمہوری ماڈل۔ تُرک دانشور لیڈر کے خیال میں پاکستان میں بھی اس تیسرے ماڈل کے جڑ پکڑنے اور برگ و بار لانے کی صلاحیت موجود ہے۔
حالت ِجنگ میں فوج پر فوکس بڑھ جاتا ہے اور یوں فوج اور اس کی قیادت معمول سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ معمول سے زیادہ سرگرم اور فعال ہے تو خبروں میں بھی زیادہ نظرآئے گی۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان کے خلاف ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ کا آغاز کیا تو اس خطے میں امریکی جرنیلوں کی آمد ورفت بھی بڑھ گئی۔ آئے روز امریکی فوج، اس کی سینٹکام، پینٹا گان یا نیٹو کا کوئی نہ کوئی اعلیٰ افسر اسلام آباد یا کابل کے دورے پر ہوتا۔ اب ہمارے آرمی چیف(اور ڈی جی آئی ایس آئی ) معمول سے زیادہ فعال ہیں، وہ کابل بھی آتے جاتے رہتے ہیںتو اس میں حیرت کی کیا باتـ؟لیکن سویلینز کے ساتھ اَن کمفرٹیبل محسوس کرنے والے ہمارے بعض دانشور دوست ، کچھ ’’ریٹائرڈ‘‘ ماہرین بغلیں بجار ہے ہیں، وہ اِسے ’’سافٹ کو‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔اِن کا دعویٰ ہے کہ دفاع اور خارجہ پالیسی کے معاملات فوج کے سپرد کر دیئے گئے ہیں(یا فوج نے از خود انہیں اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے)۔ گزشتہ روز وزیراعظم سے یہی سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا، جو لوگ یہ کہتے ہیں، ان کا مقصد صرف غلط فہمیاں پھیلانا ہے، ان کا ایجنڈا صرف اتنا ہے کہ آپس میں تفرقہ پڑ جائے اور ملک آگے نہ بڑھے۔ کوئی فوجی ہے یاسویلین ، ملک کے لیے سب کا ایجنڈ ایک ہے، فوجی قیادت متعدد بار آل پارٹیز کانفرنس میں سول قیادت کے ساتھ شریک ہوئی جہاں تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوئے۔
الطاف حسن قریشی صاحب نے وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید سے یہی سوال کیاتو ان کا جواب تھاـ:’’دونوں‘‘ ہی نے اپنے اپنے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اگر دونوں ایک صف میں نہ ہوتے تو دھرنا تو ہمارے دروازوں تک پہنچ گیا تھا۔ قبریں بھی کھود لی گئیں اور کفن بھی پہن لئے گئے تھے۔ (ایسے میں وزیراعظم سے) چیف ایک ہی بات کہتا تھا کہ آپ کی طرف سے کوئی غلطی نہ ہو جس سے کسی کو انارکی پھیلانے کا موقع ملے۔ باقی کام میں سنبھال لوں گا۔ انہوں نے اس کٹھن مرحلے میں(آئین سے ) اپنی وفاداری ثابت کی، اس کے بعد حالات اچھے ہوتے گئے، عمران خاں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کے سر پر اب کوئی ہاتھ نہیں رہا۔
تازہ ترین