• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک تلخ مؤقف اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سندھ اور پنجاب پولیس سیاسی مداخلت کی جکڑ میں ہے۔ میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر پسند و ناپسند کی بنیاد پر پولیس افسروں کی تعیناتی حکومتوں کا وتیرہ ہے اور یہ ان کیلئے کامیاب طرز حکمرانی کی بنیاد ہے۔ پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت سیاستدانوں کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے، معاشرے کی ذہنی پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سیاستدان عوام میں اتنا ہی مقبول اور قابل قبول ہے جس قدر وہ پولیس کو زیر اثر رکھنے میں قدرت رکھتا ہے۔
سیاستدانوں کی معاشرے میں کامیابی اور ناکامی اور انتخابات میں جیت اور ہار کا دارومدار تھانے کچہریوں میں عوام کے جائز اور ناجائز کام کرانے کی استطاعت پرموقوف ہے اور یہ سب اس وقت ہی ممکن ہے جب سیاستدان ’’اپنا‘‘ ایس ایچ او اپنے حلقہ انتخاب میں تعینات کرائے۔ یہاں سے انحطاط پذیر معاشرے کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب عام آدمی کیلئے پولیس تک رسائی اور میرٹ پر انصاف کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتا ہے، جہاں سے محروم طبقہ جنم لیتا ہے، معاشرے میں بغاوت کا رجحان تقویت پاتا ہے۔
پولیس کے ادارے کی تباہی میں سیاسی حکومتوں کا کردار ہمیشہ بد سے بدتر رہا ہے، ہر سیاسی جماعت نے اپنے اپنے ادوار میں ہزاروں نااہل افراد کو پولیس میں بھرتی کیا، یہ بھرتیاں سپاہی اور اے ایس آئی سے ڈی ایس پی کے عہدوں پر ہوتی ہیں اور سیاسی اثرورسوخ اور سفارشوں کی بنیاد پر بھرتی ہونے والے ہمیشہ اپنی سیاسی جماعتوں کے وفادار رہتے ہیں اور ان کے حکم پر ہر جائز اور ناجائز کام کرتے ہیں۔
اس حوالے سے سندھ پولیس سیاسی مداخلت کی بدترین لپیٹ میں ہے اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے پولیس امور پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان میں بھی سیاستدانوں کا یہی وتیرہ ہے کہ وہ پولیس کو اپنے دست نگر رکھنے کے عمل کو علاقائی سیاست کا استحکام سمجھتے ہیں اور پولیس کو غلام رکھنے میں ہی آسودگی اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔اگرچہ پنجاب میں پولیس کے عمل میں سیاسی مداخلت کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے حکومت نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہیں کہیں میرٹ پر پولیس افسروں کی تعیناتی کا عمل شروع کیا ہے۔ تاہم اس بات کا علم نہیں کہ میرٹ پر لگائے جانے والے پولیس افسر کس حد تک پیشہ ورانہ انداز میں اپنی مرضی سے فیصلے کر سکتے ہیں لیکن سندھ کے حالات میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور پولیس کے معاملات میں مداخلت قانونی شکل اختیار کر چکی ہے اور کوئی پولیس افسرحکمراں جماعت کی ایک خاتون رہنما کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا اور جو پولیس افسر اس خاتون رہنما کی حکم عدولی کرتا ہے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال ضلع شکار پور کے ڈی پی او نادر جسکانی کی ہے، جس نے سیاسی دبائو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے علاقے میں سیاسی پشت پناہی کے ساتھ سرگرم عمل مجرموں کا قلع قمع کردیا اور جرم کی اس آماجگاہ کو جہاں دن کی روشنی میں بھی کوئی شخص محفوظ نہیں تھا، امن کا گہوارہ بنا دیا لیکناس خاتون رہنمانے زیادہ دیر تک اس پولیس افسر کی ’’خودسری‘‘ برداشت نہیں کی اور اسے گھر بھجوا دیا۔شکار پور کے لوگ کہتے ہیں کہ سندھ کی تاریخ میں اس علاقے میں اس قدر امن قائم نہیں ہوا جتنا اس پولیس افسر کے دور میں ہوا، یہاں اس سے پہلے سیاسی پشت پناہی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں، مذہبی منافرت نکتہ عروج پر تھی، تاجروں اور اقلیتوں کو سرعام اغوا کیا جاتا تھا اور مغوی کی مالی حیثیت کے مطابق تاوان حاصل کرکے اسے رہا کیا جاتا تھا، یونین کونسل ’’جاگنڑ‘‘ سیاسی قبائل کی پشت پناہی میں ہونے والے اغوا برائے تاوان کا مرکز تھا، اغوا کئے جانے والوں کو گولو درڈو کی حدود میں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا اور سیاسی وڈیرے علاقہ پولیس کی معاونت سے براہ راست تاوان وصول کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جرم کے خاتمے کی اس مہم میں اس افسر نے اغوا برائے تاوان میں ملوث ایک شخص کو پکڑا تو وہ حکمران جماعت کے عہدیدار اور رکن صوبائی اسمبلی کا ڈرائیور نکلا جو بھتوں اور اغوا برائے تاوان کی وصولیوں کیلئے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتا تھا۔ جس نے تفتیش کے دوران تمام بھانڈا پھوڑ دیا لیکن رینجرز کی مدد سے جب سیاسی وڈیروں کی گرفتاری کیلئے کریک ڈائون شروع کیا گیا تو وڈیرے تو زیر زمین چلے گئے لیکناس خاتون رہنما کو یہ ’’حرکت‘‘ ناگوار گزری اور اس افسر کو فوری طور پر اعلیٰ کارکردگی کے ’’جرم‘‘ میں ہٹا دیا گیا اور جرم کی ’’رونقیں‘‘ دوبارہ بحال ہو گئیں۔سنگین جرائم میں ملوث سیاسی گروہ دوبارہ سرگرم عمل ہوگئے۔نادر جسکانی کے طرز کی پولیسنگ کرنے والے دو اور افسران اس وقت جرائم کی دنیا میں موضوع بحث ہیں اور ان کی ’’شکایتیں‘‘ بھی ارباب اختیار تک پہنچ رہی ہیں، ضلع خیرپور میرس میں ناصر آفتاب ڈی پی او ہیں، اس افسر نے توقع سے بڑھ کر اپنے علاقے میں جرائم کے خاتمے کیلئے پیشہ ور انداز میں بھرپور کردار ادا کیا، علاقے کے لوگوں کے مطابق اس کریک ڈائون کے دوران کوئی دبائو قبول کئے بغیر اس افسر نے ڈاکوئوں کے اڈے ختم کردیئے۔ پولیس مقابلوں میں گلو گورنمنٹ سمیت کئی مجرم مارے گئے، اغوا برائے تاوان کا قلع قمع کردیا اور کوٹ بنگلہ میں سیاسی مجرموں کے مرکز ختم کردیئے، رہزنوں کی صفائی کردی۔اس افسر کا انجام بھی شاید ـــــــــ’’عبرتناک‘‘ ہوگا۔اسی طرح ضلع کشمور/کندھکوٹ میں اصغر گنڈاپور کی بحیثیت ضلعی پولیس سربراہ کارکردگی کی تعریف کی جارہی ہے۔ گنڈاپور بھی سیاسی مداخلت کی پروا کئے بغیر اپنے علاقے میں سنگین جرائم کے خاتمے کیلئے پیشہ ورانہ انداز میں کردار ادا کررہے ہیں۔ اس ضلع میں بھی دن دیہاڑے مسافر گاڑیوں کو لوٹا جاتا تھا۔ کندھکوٹ آر سی ڈی ہائی وے مسافروں کیلئے اس قدر غیر محفوظ تھا کہ پولیس کی نگرانی میں Convoyکی شکل میں گاڑیوں کے قافلوں کو بھی لوٹ لیا جاتا تھا۔ اب یہاں مکمل امن ہے، کوئی شخص اسلحہ لے کر پھرنے کی جرأت نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ بااثر سیاسی لیڈر بھی قانون شکنی نہیں کر سکتا۔ یہاں پولیس میں کرپشن کی سزا ملازمت سے برطرفی کی صورت میں دی جاتی ہے۔پولیس معاملات میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اس کی وجہ حکومتوں کا منفی رویہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دور میں جو لوگ سیاسی بنیادوں پر براہ راست ڈی ایس پی کے عہدوں پر بھرتی کئے گئے تھے اب وہ ڈی آئی جی کے عہدوں تک پہنچ چکے ہیں اور سندھ کے اہم ترین علاقوں میں اپنی پارٹی مفادات کی نگرانی کررہے ہیں۔ صرف پیپلزپارٹی کے ادوار میں ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی سندھ میںسیاسی بنیادوں بر بھرتیاں کی گئیںاور لسانی اور مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ لیا اور اپنے لوگ بھرتی کرائے۔ ان حالات میں جب حکومتیں اداروں کی تباہی کی ذمہ دار ہوں اور پولیس کے محکمے کو صرف اپنی حفاظت اور مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرے، اصلاح کیسے ممکن ہے؟؟ جب پولیس کرپشن کے کینسر میں مبتلا ہو چکی ہے۔پولیس اصلاحات کی بات جب بھی کی گئی،ارباب اختیار نے تھانہ کلچر کو ذمہ داد ٹھہراتے ہوئے اس انصاف دشمن کلچر کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا جو بہت جلد دم توڑ دیتا ہے۔ اب یہ ایک مضبوط رائے ہے کہ حکومت کسی پارٹی کی کیوں نہ ہو پنجاب اور سندھ میں تھانہ کلچر کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تھا نہ کلچر یہاں کے سیاستدانوں کی سیاست کی بنیاد ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے علاوہ اپنے لوگوں کے ناجائز کام کراتے اور جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پولیس اصلاحات کے ذمہ دارلوگوں کا یہ موقف بھی غلط ہے کہ اب پولیس کے شعبے کی تطہیر ممکن نہیں۔ حقیتت یہ ہے کہ ذمہ دار ادارے تھانہ کلچر کا خاتمہ نہیں چاہتے کیونکہ یہ کلچران کے مفادات کانگران ہے۔ تھانہ کلچرکے خاتمے کیلئے نیک نیتی، حب الوطنی اور سنجیدگی ضروری ہے۔اس سنجیدگی اور نیک نیتی کا عکس خیبر پختونخوا میں موجود ہے۔ جہاں پولیس کے سربراہ نے انتہائی قلیل مدت میں اپنی فورس کو ایک مثالی فورس بنادیا اور صوبے سے تھانہ کلچر کا خاتمہ کردیا۔ بلاشبہ پولیس معاملات میں سیاسی عدم مداخلت کا عنصر اوّلین حیثیت رکھتا ہے۔
تازہ ترین