• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ غیر معمولی حالات میں عدلیہ کو درپیش چیلنجز

سندھ ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس جناب جسٹس فیصل عرب نے رخصت ہونے والے چیف جسٹس جناب مقبول باقر کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اور بعد ازاں اپنی حلف برداری کی تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام کے حوالے سے انتہائی اہم باتیں کی ہیں ۔ جناب جسٹس فیصل عرب کا کہنا ہے کہ عدلیہ پہلے سے زیادہ آزاد ہے لیکن نظام انصاف میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔ اس بات کو پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے لیکن جناب چیف جسٹس فیصل عرب نے اس تاثر کو درست کیا ہے اور ’’ سب اچھا ہے ‘‘ کہنے کے بجائے نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت پر زیادہ زور دیا ہے اور ان اصلاحات کیلئے کسی ایک فرد یا ادارے کو نہیں بلکہ پوری قوم کو بحیثیت مجموعی مل کر کام کرنا ہو گا ۔
پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے اور اپنی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے ، وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ یا دیگر ملکوں کے حالات سے مختلف نہیں ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جب برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کو ان کی کابینہ کے ارکان نے ملک میں حالات بے قابو ہونے اور انتشار کے خطرے سے آگاہ کیا تو چرچل نے ان سے پوچھا کہ کیا عدالتیں کام کر رہی ہیں ، اس پر انہیں بتایا گیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کر رہی ہیں ۔ ونسٹن چرچل نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا کہ ’’ پھر کوئی فکر کرنے کی بات نہیں ہے ‘‘ ۔ کسی بھی ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کا معیار اس کے اداروں خصوصاً عدلیہ سے پرکھا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا لوگوں کو فوری اور سستا انصاف مل رہا ہے اور کیا قانون کی حکمرانی قائم ہے ؟ اگر عدالتیں حالت جنگ میں بھی کام کر رہی ہوں تو چرچل جیسا عظیم سیاست دان بے فکر ہو جاتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ جنگ اور انتشار کے حالات بھی ریاست اور معاشرے کا شیرازہ نہیں بکھیر سکتے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اس داخلی جنگ میں ہمیں فوجی عدالتیں قائم کرنا پڑی ہیں ، حالانکہ ہمارا سول عدالتی نظام بھی موجود ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہماری اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ بہت زیادہ اچھی اور قابل فخر نہ رہی ہو لیکن گزشتہ دس سالوں کے دوران وکلاء ، سول سوسائٹی نے عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے لئے قابل فخر جدوجہد کی ، جس سے نہ صرف عدلیہ آزاد ہوئی بلکہ اس پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے لیکن ہمیں اس آزادی کو تاریخ کے ارتقائی عمل کے تناظر میں دیکھنا چاہئے ۔ انسانی معاشروں کی ترقی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ۔ عدالتیں ہر معاشرے میں رہی ہیں ، چاہےوہ غلام درانہ سماج ہو ، قبائلی یا جاگیردرانہ سماج ہو یا آج کا بعد از سرمایہ داری معاشرہ ہو ۔ قدیم معاشروں میں بھی جرگہ اور پنچایت کے ادارے رہے ہیں ، جو آج تک بھی کام کر رہے ہیں ۔
جدید عدالتی نظام دراصل جمہوری عمل کا نتیجہ ہے ۔ لوگوں کو بنیادی حقوق ملنے اور انتخاب کے ادارے قائم ہونے سے جو نظام تشکیل ہوا ، اس کے بطن سے جدید عدالتی نظام پیدا ہوا۔ معاشرہ اپنے رویوں میں جس قدر جمہوری ہو گا ، اسی قدر نظام انصاف بھی مضبوط ہو گا ۔ جناب چیف جسٹس فیصل عرب نے شاید اسی تناظر میں عدلیہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے فکر انگیز باتیں کی ہیں ۔ انہوں نے لوگوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا ہے لیکن اس حوالے سے عدلیہ کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ، ان کی بھی انہوں نے نشاندہی کی ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مقدمات کے بروقت فیصلے نہیں ہوتے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں ۔ مثلاً اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں مطلوبہ تعداد میں ججز نہیں ہیں ۔ سندھ کی اعلیٰ عدلیہ میں ابھی 10ججوں کی کمی ہے جبکہ ماتحت عدالتوں میں 220ججوں کی اسامیاں خالی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ سارے کام چھوڑ کرپہلے عدلیہ میں ججوں کی کمی پوری کرے تاکہ عوام کو انصاف مہیاہوسکے۔اچھی حکمرانی کامطلب یہ ہے کہ حکومت اداروں کو مضبوط کرے اور اداروں کو کام کرنے کا ایک بہترماحول بھی فراہم کرے۔ فاضل چیف جسٹس نے مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ وکلاء اور فریقین مقدمات کی پیروی نہیں کرتے ۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ حکومت کے پراسیکیوشن کے ادارے اپنا کام نہیں کرتے ۔ عدالت کے سامنے جو حقائق اور شہادتیں پیش کی جائیں گی عدالتیں ان کی روشنی میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں گی ۔ پراسیکیوشن کے اداروں کو زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ججوں اور گواہوں کے تحفظ کے لئے بھی ایک فول پروف سکیورٹی نظام وضع کرنا چاہئے ۔ قیدیوں کو عدالتوں میں لانے کےلئے جیل اور پولیس کی مطلوبہ نفری اور سکیورٹی کا انتظام بھی کرنا ہو گا ۔ جیلوں میں ایسے کئی قیدی موجود ہیں ، جو اپنے جرم سے زیادہ سزا بھگت چکے ہیں لیکن ان کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو سکے ہیں ۔ وکلاء کی ہڑتالوں اور دیگرہڑتالوں پر بھی فاضل چیف جسٹس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے سائلین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، عدالتوں کا کام ٹھپ ہو جاتا ہے اور مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے ۔بنچ اور بارکو ایک ایسی حکمت عملی بنانی چاہئے کہ عدالتوں میں ہڑتالیں نہ ہو اورکام معطل نہ ہوں تاکہ عدالتی امور متاثرنہ ہوں۔ لاکھوں لوگ ان ہڑتالوں اور سے متاثرہوتے ہیں اور قومی خزانے کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ بنچ اور بار کو عدالتوں خاص طور پر ماتحت عدالتوں میں روزانہ ہونے والے جھگڑوں کو روکنے کےلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔اس سے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ فیصلوں میں تاخیرکا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عدالتیں فیصلے محفوظ کرلیتی ہیں اور طویل عرصے تک یہ فیصلے نہیں سنائے جاتے ہیں۔اس رجحان کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے اورمحفوظ فیصلہ ہرحال میں تین ماہ کے اندر سنادینا چاہئے۔ اس مقولے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انصاف میں تاخیر ، انصاف سے انکار کے مترادف ہے ۔ ہماری عدلیہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ ، مقننہ ، سول سوسائٹی اور پوری قوم کو مل کر کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا کہ مقدمات طویل نہ ہوں اور ان کا بروقت فیصلہ ہو جائے ۔ تاخیر کی ذمہ دار صرف عدلیہ ہی نہیں ہے۔جہاں تک عدالتوں میں کرپشن کی شکایات کا مسئلہ ہے ، اس پر بھی جناب چیف جسٹس فیصل عرب نے کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کی ہے ۔ انہوں نے عدلیہ میں غلط کام روکنے کے عزم کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ پہلے عدلیہ میں کوئی غلط کام کرتا تھا تو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہو گا ۔ غلط کام کرنیوالے کیخلاف کارروائی ہو گی ۔
فاضل چیف جسٹس نے انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدود کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور کہا کہ امن وامان کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے ۔یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ریاست کے مختلف اداروں کے اختیارات اور حدود کے بارے میں ایک واضح سوچ پیدا ہو رہی ہے ۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں عدلیہ کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔ ہمیں اپنی عدلیہ کو مضبوط بنانا چاہئے اور ان خطوط پر فوری اصلاحات کی ضرورت ہے ، جن کی نشاندہی جناب چیف جسٹس فیصل عرب نے کی ہے ۔ یہ اصلاحات ہنگامی بنیادوں پر ہونی چاہئیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ظلم والامعاشرہ قائم رہ سکتا ہے ، ناانصافی والا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ عدلیہ پہلے سے زیادہ آزاد ہے لیکن آزاد عدلیہ کی استعداد اور صلاحیت میں اضافے ، اسکے معاملات کو درست کرنے اور اس کے مسائل حل کرنے کیلئے یہ جواز پیش نہیں کیا جا سکتا کہ عدلیہ آزاد ہو گئی ہے اس لئے اب اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔جناب چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے پاس بنچ اورباردونوں کا تجربہ ہے وہ اصلاحات لانا چاہتے ہیں اور وہ ایسا کربھی سکتے ہیں۔
تازہ ترین