• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جہاں اور غیرمناسب برائیاں فروغ پارہی ہیں وہاں اقرباپروری معاشرتی ناہمواریوں کی سرپرستی جھوٹ اور منافقت کاکھلے عام اظہار ہورہاہے۔ اسی طرح خوشامدی کلچر بھی فروغ پارہاہے۔ میں نےبھارت سے کرکٹ میچ ہارنے پرعوام کو شدید صدمے کی حالت میں دیکھاہے کیونکہ ہمارے میڈیا نے عوام کو ذہنی طور پر فتح کاایک ہی پہلو دکھایاتھا مگر ناخدایانِ پروپیگنڈے نے اسے اتنی اہمیت دی کہ قوم کے بچے بچے کو صرف پاک بھارت میچ میں اپنی فتح ہی دکھائی دی اور ٹیم کی خامیاں نظرنہ آئیں اور پاکستان کی شکست کو ہمارے عوام نے ایک جھٹکا محسوس کیا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کھیل کے میدان میں فتح شکست چلتی رہتی ہے مگر ہمارے دانشوران جو سنجیدہ ماحول پیداکرنے میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ لوگ سچ سننا نہیں چاہتے۔ ہمارےعوام کو ہر سطح پربھارت سے فتح کی نوید سنائی جاتی ہے اور ہمارے یہ ناخدا سچ بولنے سے گریز کرتے ہیں اور صرف خوشامد کو ہی اپنا معیار قراردیتے ہیں۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ناخدایان کرکٹ کی ہرروز بدلتی ہوئی پالیسیوں نے کھلاڑیوںمیں مایوسی کو جنم دیا۔ اگر کوئی ٹیم کا کپتان یامیدان میں کھیلنے والے رکن کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ میری محنت اور جدوجہد کانتیجہ نکلنے کی بجائے خوشامدی اور جی حضوری کرنے والے لوگوں کی رائے کو اہمیت دی جائے گی اور اپنے مستقبل کے بارے میں بھی یقین نہ ہو کہ میری محنت اور کوشش کاکوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا بلکہ اسے یقین ہوکہ شاید مجھے آخری وقت میں ڈراپ(Drop)کردیاجائے گا اور میری جگہ کسی ایسے کھلاڑی کو لے لیاجائیگا جس کے پاس تگڑی خوشامد اور سفارش ہوگی حالانکہ قوم کرکٹ کے ناخدائوں کو ان کے شاہانہ خرچ کے لئے مالی وسائل بھی مہیا کرتی ہے۔ ناخدایان کرکٹ بورڈ کے مالی وسائل غریب قوم کے ٹیکسوں سے اداہوتے ہیں۔ انہیں صرف میدان میں فتح کو یقینی بنانے کیلئے اتاراجاتاہے مگر جب اعلیٰ حلقوں میں ہی نیشنلزم نظرنہ آئے تو بیچارے کرکٹ کے کھلاڑی کیا کریں جنہیں آخری وقت تک یہ پتہ نہیں ہوتا کہ انہیںشامل بھی کیا جائے گا کہ نہیں اورپھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جوسامنے آیا ہے .ہندوستان کے ہاتھوں شکست سے اس قوم کوگہرا صدمہ پہنچا ہے۔اس سے پیشتر جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے وسائل بھی کم تھے اور کھلاڑیوں کو صرف جذبہ حب الوطنی کے تحت کھیلناپڑتاتھا اس قدر ذہنی جھٹکا قوم کو کبھی نہیں پہنچتاتھااورقوم کو کھیل کو صرف کھیل ہی سمجھنے کو کہاجاتاتھامگر اس دفعہ جیت کا اس قدر پروپیگنڈا کیاگیاکہ لوگ صرف فتح کی بات سننا چاہتے تھے۔ اسی لئے پاکستا نیوں نے اپنے کھلاڑیوں کی جذبہ حب الوطنی پربھروسہ کیامگر آوے کا آواہی بگڑاہواتھا۔ جس ملک سے ہم کرکٹ کھیل رہے تھے اس کے مخالف جذبات کا عوامی ردعمل بھی خداوندان کرکٹ کو معلوم تھا۔ اصولاً کرکٹ کو صرف کھیل ہی رہنے دینا چاہئے تھا۔ پوری قوم اپنی ٹیم کی ہار پر شدید مایوسی کا شکار ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستانی ٹیم کی شکست پرلوگوں کو روتے ہوئے دیکھا۔ اس سے پہلے بھی مختلف اوقات میں بھارت سے ہمارے میچ ہوتے رہے ہیں مگر اس قدر جذباتی ماحول کبھی پیدانہیں کیاگیاتھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ کرکٹ میچ نہیں بلکہ’’پانی پت‘‘کامیدان جنگ ہے۔ ہمارا پڑوسی ہندوستان ہرمعاملے کو سیاسی رنگ اور نیشنلزم کے رخ پردیکھتاہے۔ اس دفعہ بھی انہوں نےہماری شکست کو اسی انداز سے دیکھا کہ جیسے انہوں نےہمیں سچ مچ شکست دے دی ہے۔ اس سے پہلے بھی دونوں ملکوں کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں جاتی رہی ہیں لیکن اس کلائمیکس ,جذباتی ماحول کی وجہ سے لوگوں نے اس میچ میں شکست کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ یادرہے کہ ہمارا پڑوسی ’’چانکیائی‘‘سیاست بھی جانتاہے۔ اب خوشامدی کلچر کے شائقین کچھ خاص لوگوں کو بچانے کے لئے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کردیں گے۔ اور ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے کھلاڑیوں نے ہندوستان میں جاکر لکھنئو، دلی،کلکتہ، کانپور میں انڈیا کی کرکٹ ٹیم کو شکست دی کیونکہ ان کی تمام سلیکشن میرٹ پر ہوتی تھی اور ہمارے کھلاڑی نیشنل اسپرٹ سے کھیلتے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں کی پرفارمنس بہت مشہور ہوگئی۔ وہ وقت بھی آیا جب فضل محمود، خان محمد، حنیف محمد، جاویدمیانداد، عمران خان اور بہت سے اہم کھلاڑی میچ کی جان ہوا کرتے تھے۔ پھرآگے چل کر ہم قوم کی بجائے صوبہ جاتی گروہ بن گئے۔ نیشنل ا سپرٹ ختم ہونے لگی۔ انصاف اور میرٹ قصئہ پارینہ بن گیا روایتی سیاست ابھرکرسامنے آنے لگی۔ دنیا کےکھیلوں کا چمپئن پاکستان اور اس کے کھلاڑی پسپائی اور’’ڈپریشن‘‘ کا شکار ہوگئے۔ کسی بھی ناانصافی کے خلاف کوئی سننے والا نہیں رہا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے ’’اوول‘‘ کے میدان میں برطانیہ کو شکست دی۔ ایک زمانے میں امریکہ کے مشہور اخبار’’نیو یارک ٹائمز‘‘نے یہ لکھا کہ اگر صورتحال یہ رہی تو پاکستان واحد ملک ہے جو آئندہ امریکہ کا مقابلہ کرے۔ میں اس شکست کا ذمہ دار کھلاڑیوں کو نہیں بلکہ نیشنل اسپرٹ کا خیال نہ رکھنے والے ناخدائوں کو قراردیتاہوں۔ اب تو شاید اس کا نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی ہندوستان نے ان میچوں کو بھی سیاست میں تبدیل کر دیاہے۔ جب بھی کوئی میچ پاکستان جیتتاہے تو وہاں ہندومسلم فسادات شروع ہوجاتے ہیں۔ اب آئندہ پاک بھارت میچ کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں بننی چاہئیں۔ اب تو ہوش کرو! اب خوشامدی کلچر ختم ہونا چاہئے۔
تازہ ترین