• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’ ’ذوالفقار مرزا صاحب کی خدمت میں!‘‘ کے عنوان سے گزشتہ ہفتے عرض کیا گیا تھا: ’’ذوالفقار مرزاصاحب کی چارج شیٹ کے تمام بنیادی نکات مکمل غیر جانبداری کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کردیئے گئے ہیں۔ ترتیب وار ان سب کا جواب دینے سے پہلے یا ان نکات کے حوالے سےپیدا شدہ بعض سوالات سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے تناظر میں فی نفسہٖ ذوالفقارمرزا صاحب کے سیاسی و سماجی کیریئر کے بارے میں معلومات و حالات سے باخبر ہونا ہر پاکستانی کا استحقاق ہے۔‘‘
چنانچہ پہلے شائع شدہ حصے میں ذوالفقار مرزا صاحب کے، پاکستان پیپلزپارٹی کے پس منظر میں سیاسی و سماجی کیریئر اورپارٹی کی بنا پر اقتدار کی چکاچوند، مراعات اور مفادات کے ایک اجمالی جائزے سے آپ کو آگاہ کیاگیا، اب حسب ِوعدہ ان کی جانب سے صدر آصف علی زرداری پر عائدکرد ہ چارج شیٹ کے بارے میں جوابی نقطہ ٔ نظر سامنے لایاجارہا ہے! پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ذوالفقار مرزا کوئی قومی سطح کے سیاسی رہنما نہیں ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ سندھ کی صوبائی سطح کا لیڈر قرار دیاجاسکتا ہے۔ قومی اور صوبائی، دونوں سطحوں کے قومی انتخابات یا صوبائی انتخابات جیسے اجتماعی مواقع پر ووٹ دیتے وقت پاکستانی عوام کے ذہنوں اورسوچوں میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج تک کی پارٹی قیادت ہوتی ہے جسے اب شریک چیئرپرسن ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری اور چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری پر مشتمل قرار دیا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی شناخت میں ان کا کوئی وجود نہیں البتہ ان کا تمام تر سیاسی وجود پیپلزپارٹی کا مرہون منت ہے۔حال ہی میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی) نے ان کی رکنیت معطل کردی ہے،۔ ذوالفقار مرزا صاحب کا کسی فرد یا جماعت، خواہ وہ ایم کیو ایم اور اس کے قائد بھائی الطاف حسین ہوں یا پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے متعلق انکشافات اورالزامات کا مواداصولوں اور اخلاقیات کی تقدیس میں لپٹا ہوا ہوتاہے، وہ اس تقدیس کے سہارے خود کو ’’مقدس گائے‘‘ کے طور پر عوام کو اپنا چہرہ کراتے، حلف تک اٹھالیتے اور پھر اچانک ’’خاموشی‘‘ اور ’’گمشدگی‘‘کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ایم کیو ایم اور اس کے قائد بھائی الطاف حسین کے معاملے میں یہی کچھ ہوا، اب ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کے متعلق دو تین دن کے شورشرابے کے بعد ’’خاموشی اور گمشدگی‘‘ کی یہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ایسے مہان آدمی کو تو اپنی چارج شیٹ کی رو سے ایم کیو ایم اور بھائی الطاف حسین کے خلاف ’’عدالت‘‘ نہیں، پورے ملک میں نہیں، کم از کم کراچی اور سندھ کے قریہ قریہ میں اتنی ’’خوفناک جماعت اورشخص‘‘ کے بارے میں اجتماعی آگاہی کےلئے خود پر شب و روز کا چین حرام کرلینا چاہئے تھا، بعینہٖ ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری، ذوالفقار مرزا صاحب کے مطابق، جس ’’بے اصولی کے کاروباری شاہکار‘‘ ہیں اور بطور ایک قومی رہنما کے وہ مفادات کی جن زنجیروں میں بندھ چکے ہیں ان سے پیپلزپارٹی جیسی عظیم تاریخ کی حامل قومی جماعت اور پاکستان کے لاکھوں کروڑوں عوام کو محفوظ کرنے کے لئے بھی وہ عدالت نہیں جاسکتے۔ پورے ملک کا دورہ نہیں کرسکتے تب کم از کم کراچی اور اندرون سندھ کی تو گلی گلی چھان سکتے ہیں! پارٹی کوثر نیازی مرحوم سے لے کر آج کے ذوالفقار مرزا کی ’’بغاوتوں‘‘ تک عوامی سمندر کے مرتبے سے گرائی نہیں جاسکی۔ جماعتیں اور عوامی طور پر تسلیم شدہ ان کے قائدین ایسے کم ترین، کمزور ترین درجہ کے الزامات اور شکووئوں سے کسی اجتماعی آزمائش کا شکار نہیں کئے جاسکتے۔ آپ کی اپنی عزت اور حیثیت کا تقاضا اپنی حدود کے دائرہ کار اور حیثیت کا صحیح تعین کرنے میں ہے، جو ایسا نہیں کرتا وہ قومی جماعتوں اور ان کے لیڈروں پر اٹھائے گئے گردوغبار میں انجام کار خود اٹ کر بے نشان ہو جاتا ہے!
ذوالفقار مرزا صاحب کا فرمانا ہے کہ ’’پارٹی اور سندھ میں‘‘ ’’ون مین شو ‘‘چل رہا ہے، اس شخص کا نام آصف علی زرداری ہے جس کو صرف اپنا کاروبار عزیز ہے۔‘‘ ویری گڈ! ذوالفقار مرزا صاحب نے اپنی جماعت سے باغی ہو جانے پر یہ روایتی بنیادی قول دہرا کر کم از کم اس حد تک اپنی یادداشت کے بہترین ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے، اصل حقائق کے ایک بال تک کو چھو نہیں سکے، پاکستان میں جماعتوں سے ناراض افراد کا یہی المیہ ان کی سیاسی اور نظریاتی بربادی بلکہ اذیت ناک ناکامی کا سبب بنتا رہا ہے۔ اصل حقائق کیا ہیں؟ اصل حقائق پاکستان کی سیاسی تاریخ اور پاکستانی سیاست 14 اگست 1947ء سے لے کر آج مورخہ 25 فروری 2015ء تک، جب اس کالم کی یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، اصولی اور نظریاتی ارتقا کے کم سے کم مقام تک بھی نہیں پہنچ سکی، حقیقی جمہوری منزل تک پہنچنے میں کم از کم مزید دو مسلسل قومی انتخابات کی ضرورت ہے، فی الحال جماعتیں افراد اور ان کے تاریخی ورثے پر ہی منحصر ہیں۔ عوامی مزاج بھی اپنے اپنے انداز میں، اسی تاریخی ورثےسے خود کو وابستہ کرتا ہے چنانچہ اصل حقائق کی جڑیں ابھی تک ’’ون مین شو‘‘ سے ایک سینٹی میٹر باہر نہیں نکل سکیں (سوائے جماعت اسلامی کے) وہیں کی وہیں ہیں جہاں تھیں! کیا پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں شریف برادران کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر مار سکتا ہے؟ الطاف بھائی کی ایم کیو ایم میں بھائی کے اشارہ ٔابرو کے بغیر کوئی خواب تک بھی دیکھا جاسکتا ہے؟ فنکشنل مسلم لیگ میں پیر پگاڑا کی مرضی کے خلاف مسلم لیگ کے نظریات کی عمارت استوار کرنے کی ایک اینٹ رکھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟ یہ جمعیت العلمائے اسلام دو گروپوں مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق میں کیوں تقسیم ہے؟ اس کا اسلام کے کسی مشن سے رتی بھر کوئی تعلق ہے، کیا اپنی اپنی ذات نے اسے جنم نہیں دیا؟ حافظ محمد سعید صاحب کی سربراہی میں قائم جماعت الدعوۃ میں کسی انفرادی نظریاتی اظہار یا وجود کا تصور ممکن ہے؟
یہ شیخ رشید کی ’’عوامی مسلم لیگ‘‘، قہر خدا کا، اعجازالحق نے بھی اپنی ’’مسلم لیگ‘‘ بنا رکھی ہے؟ کیا یہ قائداعظم کے افکار نے پیدا کی ہیں یا دو افراد، شیخ رشیداور اعجاز الحق کے وجود کی رھین منت ہیں؟ کیا سنی تحریک کے سربراہ کے سامنے تحریک میں کسی دوسری شخصیت کی، ان کی زندگی میں سامنے آنا ممکنہ امور میں سے ہے؟ بلوچستان کی ایک دو جماعتیں دو دو دھڑوں میں کیوں بٹ گئیں؟ نظریے کا تصادم تھا یا ذاتوں کا ٹکرائو؟ ذوالفقار مرزا صاحب! پیپلزپارٹی غنیمت ہے، ہے قیادت ہی کا شو مگر ’’ون مین‘‘ نہیں، اس شو کے تخلیق کاروں یا وارثوں کا عنوان ہے..... بھٹوز! اسفند یار ولی خان کی ’’نیپ‘‘ کے مقابلے میں بیگم نسیم ولی خان (عمر کا تقاضا اپنی جگہ) کیوں نہ ابھر سکیں، بھٹوز اور بھٹوز کی مین اسٹریم، ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو اور بلاول زرداری بھٹو تک آرہی ہے، ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کی سیاست میں غنویٰ کہیں نہ کہیں موجود ہوتیں، پاکستان پیپلز پارٹی اس طرح ’’ون مین شو‘‘ نہیں لیکن حقیقت کا فطری عنصر یہاں بھی یہی ہے، آصف علی زرداری کی مرضی کے برعکس کوئی شخص جماعت میں اپنی قیادت کے استحقاق کی نعرے بازی کا کاروبار نہیں چلا سکتا، فرق محض وہ ہے جو دوسروں کے ہاں قطعی موجود نہیں، یہ کہ آصف علی زرداری بھی جوکچھ ہیں بھٹوز کی مین اسٹریم کے سائبان تلے ہیں، صرف آصف علی زرداری ہو کر وہ شاید سندھ کے کسی گائوں کے عوام کی اکثریت بھی اپنے کسی جلسہ عام میں نہ بلا سکتے جبکہ جن جماعتوں کی میں نے مثالیں دی ہیں وہ صرف ان افراد کے ’’ناگزیر‘‘ ہونے کے زعم کی اسیر ہیں۔ رہ گئی بے نظیر بھٹو شہید کے مقدمے کی ’’ٹریجڈی‘‘ یا بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی سے دور کرنے کی، ذوالفقار مرزا صاحب، برائے وزن بیت، ایسی ناپختہ باتوں سے عملیت کے ترازو میں کوئی شے نہیں تول سکتے، یہ جان جوکھوں کا کام ہے، جن لوگوں نے پیپلز پارٹی میں سیاسی سفر کیا ہے، وہ ذوالفقار مرزا صاحب کے مقابلے میں کہیں بلند ہیں، ان کی جدوجہد کا لہو ان کی زندگیوں کی رگوں سے ٹپک رہا ہے، وہی بے نظیر بھٹو کے مقدمے کی کٹھنائیوں کے اسرار ختم کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، چاہے کتنی ہی خامیاں ہوں وہ ساحل پر کھڑے مبصر یا تماشائی بہرحال نہیں، بلاول بھٹو زرداری کے اردگرد چند لوگ، فرض کریں ہیں بھی، تب بھی مرزا صاحب انہیں ہٹانے کے لئے کون کون سی کوششیں کررہے یا کر چکے ہیں، ہاں! بلاول بھٹو کی زبان سے ’’یو بروٹس ٹو‘‘ کا تمغہ انہیں ضرور عنایت کر دیا گیا ہے!
تازہ ترین