• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو محاورتاً کہا جاتا ہے، ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
شاعر کی زبان میں یوں کہہ لیں
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یک جا کیا۔
سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے، اپنے اپنے ارکان اسمبلی کو باندھنے کے لئے ایک نئی آئینی ترمیم کی ضرورت آن پڑی ہے، 22ویں ترمیم۔ جناب وزیراعظم نے اس پر اتفاق رائے کے لئے پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کر لیاہے۔ (یہ سطور نمازجمعہ سے قبل لکھی جارہی ہیں، جبکہ پرائم منسٹر ہاؤس میں اجلاس نمازِ جمعہ کے بعد ہوگا)۔ عمران خان قومی اور پنجاب و سندھ کی صوبائی اسمبلیوں سے تحریکِ انصاف کے استعفوں کی واپسی کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے’’ اصولی مؤقف‘‘پر قائم ہیں لیکن وزیراعظم کی دعوت پر پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں اِن کے نمائندے شریک ہوں گے کہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ہوسکتا ہے، وہ مزید لچک کا مظاہرہ کریں اور ترمیم کی منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں بھی چلے آئیں۔
صبح شام الفاظ کی حد تک’’اصولی سیاست‘‘ کی تکرار اپنی جگہ لیکن pragmatism میں بھی کپتان اور اس کی جماعت کسی اور سے پیچھے نہیں۔ استعفوں ہی کا معاملہ لے لیجئے۔ دھرنا بغاوت کے اسکرپٹ کے مطابق انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ کیا تو کے پی کے میں انہیں اپنے ارکانِ اسمبلی کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ کپتان کا کہا سر آنکھوں پر لیکن حکومت چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ گھسا پٹا لطیفہ یاد آیا، دو محبت بھرے دل پیمانِ وفا باندھ رہے تھے۔۔۔ میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاؤں گا، سمندر کا سینہ چیردوں گا، پہاڑوں سے نہر نکال لاؤں گا، ظالم سماج سے ٹکرا جاؤں گا… تو پھر پرسوں ملنے آؤ گے نا؟… کیوں نہیں، ضرور آؤں گا(اور پھر قدرے توقف کے بعد)اگر بارش نہ ہوئی۔ استعفوں کا معاملہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ تھا کہ خیبر پختونخوا میں استعفوں کا معاملہ ارکانِ قومی اسمبلی تک محدود تھا، صوبائی اسمبلی کے ارکان اِس سے مستثنیٰ تھے۔ گویا یہاںدھاندلی صرف قومی اسمبلی کے الیکشن میں ہوئی تھی، صوبائی اسمبلی کے انتخابات آزادانہ و منصفانہ اور صاف شفاف تھے۔ یہی دو عملی کے پی کے میں تحریک ِانصاف کے بعض ارکان ِ قومی اسمبلی کی بغاوت کا سبب بنی جنہوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ویسے تو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں سے استعفے اور ایوانِ بالا کے الیکشن میں حصہ لینا بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ معاملہ ہے۔
تحریکِ انصاف صرف کے پی کے میں سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اس کے (مستعفی) ارکان کی تعداد30 ہے، یہاں پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کے آٹھ، آٹھ ارکان ہیں، اگر یہ تینوں مل بھی جائیں تو یہاں سے ایک سیٹ بھی نکالنا محال ہے۔ سندھ اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے ارکان کی تعدادصرف چار ہے اور بلوچستان میں صفر۔ادھر کپتان کو خود اپنے صوبے (کے پی کے) میں مشکلات کا سامنا تھا جہاں ہارس ٹریڈنگ کی روایت بہت قدیم اور مستحکم ہے۔سینیٹ کے ایک گزشتہ الیکشن میں تو کچھ ارکانِ اسمبلی کو اپنے بیلٹ پیپرز کیمروں کے روبرو کرنے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ وہ جماعتیں جو اپنی پارلیمانی طاقت کی بناء پر سینیٹ کی ایک نشست بھی بڑی مشکل سے جیتنے کی پوزیشن میں ہوں اگر تین تین، چار چار ٹکٹ جاری کردیں تو پیسے کے اس کھیل کو سمجھنامشکل نہیں ہوتا۔ سینئر اخبار نویس اور ہمارے برادر بزرگ چوہدری خادم حسین نے ایک پرانی بات یاد دلائی، لاہور میں کبھی سینیٹر گلزار خاں، بی بی کے میزبان ہوتے تھے۔ پھر وہ صوبہ سرحد میں جابسے۔ تب محترمہ زندہ تھیں، انہوں نے سرحد اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی طاقت کے حسا ب سے گلزار خاں کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کردیا۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے کے لئے بھی ٹکٹ کی درخواست کر دی، محترمہ کا جواب تھا، یہاں پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ آپ کے صاحبزادے کو بھی جتوا سکے۔ حساب کتاب کے پکے گلزار خاں کا استدلال تھا کہ یہاں سے ایک سینیٹر کے لئے درکار ارکان صوبائی اسمبلی کے بعد بھی پارٹی کے دوارکان بچ جاتے ہیں۔ان میں سے ایک تجویز کنندہ اور دوسرا تائید کنندہ بن جائے، باقی کام وہ سنبھال لیں گے، چنانچہ انہوں نے یہ کرشمہ بھی کر دکھایا۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ پھر ایک وقت ایسا بھی تھا، جب تینوں باپ بیٹے سینیٹ کے رکن تھے۔
اب ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے سب سے پہلے عمران خاں نے آواز بلند کی۔ کے پی کے اسمبلی میں ان کے درجن بھر ارکان نے فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ فی ووٹ 2کروڑ سے شروع ہونے والی بات5کروڑ تک جا پہنچی تھی۔ فاٹا کے 12 ارکانِ قومی اسمبلی کو 4 سینیٹرز کا انتخاب کرنا ہے، یہاں پیسہ بھی بہت ہے۔ چنانچہ فی ووٹ بولی 40 کروڑ تک جاپہنچی۔ ایک ارب بیس کروڑ لاؤ اور سینیٹر بن جاؤ۔
بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) بھی مشکلات سے دوچار تھی۔ سندھ میں اس کے ارکان کی شکایات دوسری ہیں۔ البتہ پنجاب میں اپنے ارکانِ اسمبلی پر شہباز شریف کی گرفت مضبوط ہے اور خواجہ سعد رفیق کا یہ دعویٰ ایسا بے بنیاد نہیں کہ یہاں سے مسلم لیگ(ن) کے لئے گیارہ کی گیارہ سیٹیں حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔اُدھر پیپلز پارٹی کو بھی اپنے ’’ہوم پراونس‘‘میں کوئی مسئلہ نہیں، وہ صرف یہیں سے سینیٹ کی سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور یہاں ایم کیو ایم کے ساتھ حصہ بقدرِ جثہ کے مطابق معاملہ طے پاگیا ہے، سات پیپلز پارٹی اور چار ایم کیوایم۔
ہارس ٹریڈنگ کے سدباب کے لئے 22ویں آئینی ترمیم کی بات کی جارہی ہے۔ کیا اس موقع پر جب انتخابی عمل شروع ہوچکا ، ان انتخابات کے لئے کوئی ترمیم لائی جاسکتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ اس کا اختیار رکھتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں، کوئی دو درجن سے زائد نشستوں پر ہونے والے انتخابات کو اس بناء پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا کہ ان انتخابات کے انعقاد کے وقت الیکشن کمیشن مکمل نہیںتھا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا ،کہ انتخابی عمل مکمل ہوچکااور ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر لیا۔اب صرف اس ٹیکنیکل نکتے کی بنیاد پر ، کہ الیکشن کمیشن مکمل نہیں تھا، اس سارے عمل کو کالعدم قرار دینا مناسب نہیں، چنانچہ انہوں نے گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں ڈال دی، جس نے آئینی ترمیم کے ذریعے ان انتخابات کو تحفظ دے دیا۔ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے ’’شو آف ہینڈز‘‘ یا پرائم منسٹر/چیف منسٹرکے انتخاب کا طریق کار؟ لیکن سینیٹ کے الیکشن میں ترجیحی ووٹ کی وجہ سے معاملہ مختلف اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ دوسری تجویز بیلٹ پر رکن اسمبلی کا نام لکھنے کی ہے لیکن بعض ماہرین اسے جمہوریت کی روح کے منافی قرار دیتے ہیں،ان کے مطابق جمہوریت کی حقیقی روح کا تقاضا اوپن بیلٹ نہیں، سیکرٹ بیلٹ ہے۔تو کیا ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کی حقیقی روح کے منافی نہیں؟ یاد آیا، ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے 2009میں میاں صاحب اور جناب زرداری میں اپنی اپنی پارلیمانی طاقت کے مطابق اُمیدوار کھڑے کرنے کا معاہدہ ہوگیا تھا(جس طرح مخصوص نشستوں کا انتخاب ہوتا ہے)۔اب پیپلزپارٹی کو ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں لیکن آئینی ترمیم کے لئے اس کی تائید ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے، زرداری صاحب اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیلتے ہیں۔ وہ آئینی ترمیم کی حمایت کے لئے ، سینیٹ کے نئے چیئرمین پر سودے بازی کرسکتے ہیں، برادرم مقصود اعوان نے تو پنجاب کی گورنری کی بات بھی کردی ہے۔
تازہ ترین