• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہا گیا کہ وہ اکیلا ہے، کیا کرلے گا، وہ شریف برادران کی رہائش گاہ، جاتی امرا کے قریب ہونے والے جلسے کے لئے لوگ کہاں سے لائے گا؟ اس رہائش گاہ کے اردگرد عوامی فنڈز سے یہی کوئی 45 کروڑ روپوں کی لاگت سے ایک سیکورٹی دیوار بھی تعمیر کی گئی ہے۔ دنیا میں اور کہیں اتنے بھاری سرکاری وسائل کو اپنی ذاتی رہائش گاہ پر خرچ کرنا ایک اسکینڈل بن جاتا، لیکن ہم یہاں لوٹ مار کے عادی ہیں۔ ایسی خبر پر ہم چونکے بغیر، کندھے اُچکاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
عمران خان کے جلسے میں تمام پنڈتوں اور سورج کو چراغ دکھانے کی عادت سے باز نہ آنے والے قنوطی دانشوروں کے تجزیوں پر پانی پھیرتے، کھلی آنکھوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے لاکھوں افراد اڈا پلاٹ کی طرف رواں دواں دکھائی دئیے۔ یہ جگہ موٹر وے سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اُس دن جلسہ گاہ کی طرف جانے والے ہر راستے پر نعرے لگاتے، جذباتی عوام کے قافلے رواں دواں تھے۔ میڈیا پر من پسند تبصرے اپنی جگہ پر لیکن شریف برادران کے لئے یہ منظر درحقیقت تشویشناک ہونا چاہئے۔ اس کامطلب ہے کہ پاناما اسکینڈل پر مٹی ڈالنا، یا اُسے قالین کے نیچے چھپانا مشکل ہوچکا ہے۔ عمران خان، جیسا کہ اُن کی تقریر سے ظاہر تھا، اپنی کوشش میں نہایت سنجیدہ ہیں۔ بہت سے مبصرین کے مطابق یہ اُن کی اب تک کی گئی بہترین تقریر تھی۔ اس سے پہلے عمومی تاثر یہی تھا کہ عمران خان ان حالات میں کامیاب جلسہ نہیں کرپائیں گے، لیکن اُنھوں نے ایسا کر دکھایا۔ صرف یہی نہیں، اُنھوں نے حکومت کو باقاعدہ دعوت ِ مبازرت بھی دے ڈالی۔ اپنے مخصوص انداز میں وارننگ دیتے ہوئے عمران خان نے، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر پاناما اسکینڈل میں نواز شریف صاحب کے بچوں، دو بیٹوں اور ایک ہونہار بیٹی، کے نام آنے کی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور شہر کو بند کردیں گے۔
تیس ستمبر سے پہلے یہ ایک کھوکھلی دھمکی لگتی تھی، لیکن جلسے کے بعد کوئی احمق یا دور خلائوں میں خوابوں کی دنیا بسانے والا شخص ہی اسے نظرانداز کرسکتا ہے۔ ہوسکتاہے کہ عمران کے نقاد، اور اُن کی بھی کمی نہیں، اپنے ہی التباسی تجزیے کی روشنی میں اُنہیں یا اُن کی وارننگ کو خاطر میں نہ لائیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ عمران سے زیادہ پرعزم شخص ہمارے سیاسی اکھاڑے میں کوئی نہیں۔ جس عزم اور دلیری کا اُنھوں نے کرکٹ کے میدانوں میں مظاہرہ کیا تھا، سیاسی اکھاڑے میں بھی ان کی کاٹ ماند نہیں پڑی۔ میں نے یہ بات پہلے بھی کہی ہے، لیکن اسے دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔ ایک عام انسان، چاہے کوئی بھی ہوتا، کئی سال پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتا اور سیاست پر لعنت بھیجتے ہوئے پاکستانیوں کو مورد ِا لزام ٹھہراتا کہ اُنہوں نے اُس کی قدر نہ کی، اور پھر یا تو فلاحی کاموں کی طرف مائل ہوکر اپنی آخرت سنوارتا، یا پھر قنوطی مبصر بن کر عوام کی دنیا تاریک کرنے کا بیڑا اٹھاتا۔ تاہم گزرتے ہوئے ماہ و سال میں اُنہوں نے خود پر آزمائے جانے والے تمام نشتر برداشت کئے اور ایک دلیر سپاہی کی طرح اپنا سفر جاری رکھا۔ آج وہ اس منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جہاں وہ شریف برادران کے واحد سیاسی حریف ہیں، جبکہ دیگر جماعتیں، بشمول پی پی پی، اپنی اہمیت کھوچکی ہیں، یا اُن کا شیرازہ بکھررہا ہے۔
عمران خان نے بعض نامعلوم وجوہ کی بنا کر2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تو وہ اور اُن کی پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست میں غیر اہم دکھائی دینے لگے۔ تاہم اکتوبر 2011میں مینار ِ پاکستان، لاہور میں ہونے والا جلسہ عمران کی سیاسی تحریک کے لئے ایک بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ برس ہا برس کی صحرا نوردی کے بعد پی ٹی آئی ایک سنجیدہ سیاسی جماعت بننے کے راستے پر گامزن ہوچکی تھی۔ بہرحال2013کے انتخابی نتائج نے عمران خان کو مایوس کردیا۔ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ یہ وار اتنا کاری تھا کہ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اُس کے عزم کے غبارے سے ہوا نکل جاتی اور ہمت ہار دیتا۔ تاہم لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنوں نے عمران کے تن بدن میں بجلیاں سی بھر دیں۔ چاہے یہ اُن کے دل کے آواز ہو، یا پھر کانوں میں ’’نامعلوم ذرائع‘‘ سے آنے والی سرگوشیاں کہ اب حکومت کا بستر گول ہی سمجھیں، اُنھوں نے اپنی پوری سیاسی توانائی ان دھرنوں میں جھونک دی۔
لیکن پھر ہوا یوں کہ جو قوتیں نواز شریف حکومت کو اقتدار سے ہٹا سکتی تھیں، اُنھوں نے ہاتھ کھینچ لیا، اور شریف برادران کو ایک سیاسی زندگی اور مل گئی۔ اگرچہ اس واقعہ نے اُن کی سیاسی قوت گہنا دی، لیکن بہرحال اقتدار کا دسترخوان نہ لپٹا، اتنا ہی کافی تھا۔ دوسری طرف عمران خان کی کاری ضرب اکارت گئی تھی، اور یہ تاثر گہرا ہونے لگا کہ وہ اپنا آخری پتہ کھیل بیٹھے ہیں، اب اُن کے ترکش میں کوئی تیر باقی نہیں۔ ایک مرتبہ پھر سیاسی پنڈت اور نام نہاد دانشور، اور پی ایم ایل کے سیاسی مبصرین کا لشکر ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر چاند ماری کرنے لگا۔ ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ عمران خان کا سیاسی باب تمام ہوا۔ طنزیہ لہجہ گہرا ہونے لگا، پی ٹی آئی پر پھبتیاں کسی جانے لگیں، لطائف کی دنیا آباد ہوگئی۔
لیکن اُس وقت جب راوی شریف برادران کے لئے چین ہی چین لکھتا تھا اور عمران خان کا گراف سرکے بل تنزلی کی جانب جارہا تھا، اچانک قسمت نے پلٹا کھایا اورسیاسی افق پر پاناما لیکس کا دھماکہ سنائی دیا۔ سمندر پار اکائونٹس اور مے فیئر جائیداد کے دفتر کھل گئے۔ بہت سوں کو ان کی ملکیت پر شک تھا لیکن پاناما پیپرز میں ہر چیز کھلی ہوئی کتاب کی طرح عیاں تھی۔ نواز شریف نے وقت ٹالنے کی بہت کوشش کی لیکن اس اسکینڈل میں سامنے آنے والی تفصیلات کااُن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اُن کے ٹیکس گوشواروں اورانتخابی کاغذات میں ان سمندر پار اکائونٹس یا مے فیئر جائیداد کاکوئی ذکر نہ تھا۔ یاد رہے، مے فیئر جائیداد لندن کے قلب میں واقع مہنگے ترین فلیٹس ہیں۔ جہاں عمران خان کے مداح ہیں، اور جوشیلے نوجوان، جو ٹائیگرز کہلاتے ہیں، وہاں اُن کے ناقدین کی بھی کمی نہیں۔ یہ گفتار کے غازی، ڈرائنگ رومز کے شمشیر زن اور صوفوں میں دھنسے اسپارٹن کہتے ہیں کہ خان صاحب جذباتی فیصلے کرنے اور سولو فلائٹ کے عادی ہیں۔ چنانچہ ان کی بات پر کان دھرتے ہوئے عمران نے قدم پیچھے ہٹایا اور دیگر اپوزیشن جاعتوں کو ساتھ لے کر پاناما لیکس پر ایک متحد محاذ بنانے کی تجویزپیش کی۔ اس پر اپوزیشن کے قائدین کی ملاقاتیں شروع ہوئیں، اکثر اعتزاز احسن کی اسلام آبادمیں رہائش گاہ پر، اور وہاں گفتگو کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کے بعد پی ایم ایل (ن) کا اسکواڈ بھی میدان میں کودا اور پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے ٹرم آف ریفرنس پردامانِ قیامت سے جڑے فارمولے پیش کئے جانے لگے۔ عمران خان کہہ چکے تھے کہ وہ آخری اقدام کے طور پر رائے ونڈ کی طرف مارچ کریں گے۔ گجرات کے چوہدریوں پر یکایک اخلاقیات کا نزول ہوا۔ کہا کہ کسی کی رہائش گاہ کے سامنے مظاہرہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر طاہرا لقادری نے دیکھا کہ اُنہیں مطلوبہ توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ بھی غصے میں بھناتے ہوئے لندن سدھارے۔ فرمایا کہ اب وہ سمندرپار سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔اس دوران پی پی پی بہرحال دہرا کھیل کھیل رہی تھی۔ سردگرم بیانات دے رہی تھی لیکن عملی طور پر میدان میں آنے کے لئے تیار نہ تھی۔ اعتزاز احسن شعلہ فگن، لیکن خورشید شاہ ظن و تخمین کی تصویر بنے کچھ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے دکھائی دئیے۔
ان حالات میں عمران پھر تنہا، اور جس دوران بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا ماحول تھا، تو اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو حب الوطنی کے مورچے میں دھنس کر قومی اتحاد کے ترانے گاتا ہوا احتجاج سے دست کش ہوجاتا۔ تاہم عمران عمران ہیں، اُنہوں نے ہرچیز دائو پر لگا کر تنہا رائے ونڈ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے پہلے اُن کا کراچی کا جلسہ فلاپ ہوچکا تھا،لاہور چیئرنگ کراس کا جلسہ بھی بس مناسب ہی تھا، چنانچہ آثار حوصلہ افزا نہ تھے۔ سیاسی پنڈتوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ پی ٹی آئی تھک چکی ہے۔ پارٹی کے اندر بھی تنائو اور ٹوٹ پھوٹ کی رپورٹس آ رہی تھیں۔ میں اتوار کو اخبارات دیکھ رہا ہوں۔ جمہوریت کے کچھ یک طرفہ چیمپئن، جن کے نزدیک جمہوریت سے مراد صرف شریف برادران کی ہی سیاسی سرفرازی ہے،بادل نخواستہ، دل پر پتھریا دیگر میٹریل رکھ کر تسلیم کررہے ہیں کہ جلسہ واقعی بہت بڑا تھا، اور اب پاناما اسکینڈل پر کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔میڈیا کے یہ سرخیل عمران کے لئے کوئی توصیفی لفظ بولنا دہکتے ہوئے کوئلے زبان پر رکھنے کے مترادف اذیت ناک پاتے ہیں۔
چنانچہ نومبر میں چلنے والی ہوائوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ اسلام آباد میں بلائی جانیوالی کل جماعتی کانفرنس ایک بے ضرر شغل ہے۔ وزیر ِاعظم نواز شریف قومی اتحاد کی نغمگی سے پاناما لیکس کے شور کو نہیں دبا سکتے۔ اس مرحلے پر صرف بامعانی عمل ہی قومی اتحاد پیدا کرسکتا ہے۔ محرم کے بعد عمران خان اسلام آبا د کا رخ کریں گے۔ رائے ونڈ شوڈائون کے بعد اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کو سنجیدہ لینا پڑے گا، نہیں تو شریف برادران توقع سے کہیں زیادہ خطرات میں گھر جائیں گے۔



.
تازہ ترین