• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہاتما گاندھی بھارت کے بابائے قوم ہیں۔ ملک بھر کے سرکاری اداروں اور بیرون ملک سفارت خانوں میں ہر جگہ ان کی تصویر آویزاں ملے گی۔ کرنسی نوٹ بھی انہی کی شبیہ سے مزین ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں جو مقام قائداعظم کا ہے، بھارت میں وہی گاندھی جی کو حاصل ہے۔ وہ محاورتاً ہی فادر آف دی نیشن یعنی قوم کے باپ نہیں، قوم انہیں واقعتاً باپو کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یوں بھارت بھر میں ان کی عزت و احترام کا خصوصی خیال رکھتا جاتا ہے، اور شاید ہی کسی کو ان کی شان میں گستاخی کی جسارت ہوئی ہو۔ مگر جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، دیگر کئی انہونیوں کے ساتھ ساتھ گاندھی جی بھی نشانے پر ہیں۔ اور بابائے قوم کی بجائے ان کے قاتل نتھو رام گاڈ سے کو ہیرو کا درجہ دینے کی تحریک ہے۔ نتھو رام 1910 میں پونا میں پیدا ہوا، وہی پونا جسے پاکستانیوں کی اکثریت معروف زمانہ فلم اکیڈمی کی وجہ سے جانتی ہے۔ نتھورام پکا قوم پرست تھا، جس نے ہوش سنبھالتے ہی آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جوائن کرلی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ میں شدت آتی گئی اور اس نے ہندو راشٹرادل کے نام سے ایک اور عسکریت پسند تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اسے گاندھی جی کی سیاست سے شدید اختلاف تھا،اور برملا اظہار بھی کرتا کہ وہ کیسے ہندو نیتا ہیں، جن کی تمام تر ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ کبھی ان کیلئے جلوس نکالتے ہیں اور کبھی برت رکھ لیتے ہیں۔ 30جنوری 1948کی شام دہلی کے برلا ہائوس میں گاندھی جی کی معمول کی پراتھنا ختم ہوئی، تو نتھو رام نے بظاہر فرط عقیدت سے ان کے ہاتھ چوم لئے۔ وہ ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ مگر باپو کو سہارا دینے والی لڑکی ملائمت سے بولی، بھائی! باپو نے ایک اور جگہ بھی جانا ہے اور دیر ہورہی ہے۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولا، لڑکی کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے سیمی آٹومیٹک پستول کی تین گولیاں گاندھی جی کے سینے میں اتار دیں۔ موصوف لمحوں میں دم توڑ گئے اور واردات کے بعد ملزم نے چپ چاپ گرفتاری دے دی۔ لال قلعہ میں قائم خصوصی عدالت میں مقدمہ ایک برس تک چلا ملزم کو سزائے موت ہوگئی اور 15نومبر 1949کو انبالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی، دوران سماعت نتھورام نے اقرار جرم کے ساتھ ساتھ قتل کے محرکات کا ذکر بھی کیا۔ اسے شکوہ تھا کہ گاندھی جی نے ہنددیش کی تقسیم کے عمل میں معاونت کی۔ ان کی شخصیت اس قدر موثر ضرور تھی کہ اگر وہ چاہتے تو تقسیم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ مگر ان کے افعال و کردار سے تو یہ ظاہر ہورہا تھا کہ گویا کسی منصوبے کے تحت تخلیق پاکستان کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ بھارت اور ہندو جاتی کی قیمت پر پاکستان اور مسلمانوں کو خوش کررہے ہیں۔ پاکستان کو اس کے حصے کے 75کروڑ روپے کی ادائیگی کی وکالت کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ ان کا دبائو تھا کہ حکومت ہند کو 20 کروڑ کی ابتدائی قسط ادا کرنا پڑی۔ شکر ہے بعد میں سرکار کی آنکھیں کھل گئیں اور 55کروڑ روک لئے۔ جو ملک ہمارے اٹوٹ انگ کشمیر پر چڑھ دوڑا ہو، اس کے ساتھ حسن سلوک چہ معنی دارد؟ موصوف کو ہندوستان میں مسلمانوں کا بہتا ہوا خون تو نظر آگیا اور مرن برت رکھ لیا۔ انہیں سرحد پار ذبح ہونے والے ہندو کیوں دکھائی نہیں دیئے؟ نتھورام کو یہ بھی دکھ تھا کہ پاکستان کے بارے میں گاندھی جی کے ’’نرم رویہ‘‘ کی وجہ سے بھارت دبائو میں رہا اور ہندوئوں اور سکھوں کے قتل عام کے حوالے سے پاکستانی سرکار سے بھرپور احتجاج نہ کرسکا۔ اگر موصوف رکاوٹ نہ بنتے تو پاکستان سے آنے والے شرنارتھیوں کی مشکلات بڑی حد تک کم کی جاسکتی تھیں۔ نتھورام کے مطابق ہندو جاتی، ہندو دھرم اور ہندو مان منیاتا کو گاندھی سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے میں جبکہ قوم کا سب کچھ دائو پر لگ چکا ہو، موصوف کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ سب کچھ واپس ٹریک پر لانے کیلئے یہ جرم گویا واجب ہوگیا تھا۔ اس سانحہ کو بیتے سات دہائیاں ہونے کو آئیں۔ درجنوں حکومتیں اقتدار میں رہیں۔ کسی کو بھی گاندھی جی کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی ہمت نہیں ہوئی اور انہیں بلااتفاق بابائے قوم کا مقام و مرتبہ حاصل رہا۔ یہ جسارت ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں آر ایس ایس، بجرنگ دل اور ہندو مہاسبھا کے حصے میں آئی ہے، کہ برسراقتدار آتے ہی گاندھی جی کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے گمبھیر قسم کے سوال اٹھا دیئے ہیں۔ ان کے قتل کی نئی توجیہ کی جارہی ہے اور قاتل نتھورام کو ہیرو کا درجہ دینے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ ملک کے موثر انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق مہاسبھا کے صدر چندر پرکاش کی طرف سے وزیراعظم کے نام لکھے جانے والے خط میں گاندھی قتل کیس کو ری اوپن کرنے کا کہا گیا ہے۔ تاکہ موصوف کے قتل کا سبب بننے والے محرکات کا ازسرنو جائزہ لیا جاسکے۔ کیونکہ نتھورام نے یہ کام شوقیہ نہیں، بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بحالت مجبوری کیا تھا۔ مہاسبھا والوں کا ملک کے چھ بڑے شہروں میں نمایاں مقامات پر نتھورام کا مجسمہ نصب کرنے کا پروگرام بھی ہے۔ نمونے کا ایک مجسمہ دہلی میں تنظیم کے ہیڈ کوارٹر مندر مارگ میں پہلے ہی نمائش کیلئے رکھا جاچکا ہے۔ نتھورام کو مذہبی تقدس دینے کیلئے لکھنو میں اس کے نام پر مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ 30جنوری کو اس پر ایک فلم بھی ریلیز ہوئی، جس میں اس کی حب الوطنی کی تحسین کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ موصوف کے اس فعل نے ہندو قوم پرستی کے ذکر کو کس قدر تقویت بخشی ہے۔’’دی ہندو‘‘ میں ہی چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہندو مہاسبھا کے سیکریٹری جنرل مناکمار شرما نے کہا ہے کہ قاتل رتبے میں مقتول سے بلند نہیں تو کسی طور کم بھی نہیں۔ اس سارے معاملہ کی صدائے بازگشت لوک سبھا میں بھی سنی جاچکی۔ حکمران جماعت کے رکن سکشی مہاراج کا چند ہفتے پہلے کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر گاندھی محب وطن ہیں تو نتھورام کو بھی اس اعزاز سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر کانگریس نے انہیں آڑے ہاتھوں لیاتھا کہ جمہوریت کی آڑ میں بابائے قوم کے خلاف اس قسم کی ہرزہ سرائی ناقابل برداشت ہے۔ ایک سزا یافتہ قاتل کے حوالے سے اگر آپ یہ سب کچھ کرنے جارہے ہیں، تو ایک کسر کیوں چھوڑتے ہو۔ اس کے پھانسی کے دن عام تعطیل کا اعلان بھی کردو اور یہ بھی کہ اسے قومی تہوار کے طور پر منایا جائے۔
تازہ ترین