• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ کسی گہری سوچ میں تھا جب میں اسلام آباد کے ایک ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا، چھت کو گھورتے ہوئے جب اس کا دھیان میری جانب ہوا تو اس کی معصوم آنکھوں سے آنسوئوں کی ایک لڑی چھلکی اور بائیں کان کے پیچھے جذب ہو گئی۔ مدھم مدھم سسکیاں شاید تشفی کیلئے کسی اپنے کے سینے کی منتظر تھیں، شاید وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے سینے سے لپٹ کر زارو قطار رونا چاہتا تھا، شاید وہ اب بھی اپنی ماں کے سینے سے لپٹنا چاہتا تھا، ماں کا سینہ تو سکون کا خزینہ اور تحفظ، عافیت اور امان کی علامت ہوتا ہے
لیکن اب ماں کے سینے کا سکون اپنی افادیت کھو چکا تھا۔
اپنی ہی ماں کی گولی سے زخمی ہونے والا دس گیارہ سال کا یہ بچہ میرا مرکز نگاہ تھا،میں اس کی معصوم آنکھوں میں کئی سوالات محسوس کر سکتا تھا۔ پانچویں جماعت کا طالب علم عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے جب اس کی تمام امنگیں اور امیدیں ماں باپ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں۔ اس عمر کے بچے ماضی سے بے خبر، مستقبل سے بے نیاز صرف حال میں مگن رہتے ہیں لیکن وہ اپنے دل و دماغ میں ایک طوفان چھپائے بیٹھا تھا، جسے بیان کرنے کی اہلیت اور برداشت کرنے کی استطاعت اس میں نہیں تھی، اس کے باوجود میں اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا اندازہ کرنے کیلئے سوالوں کے ذریعے اس کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہا۔جرائم کی دنیا میں بے شمار خبریں آتی ہیں، شائع ہوتی ہیں، معاشرے میں ان کی سنگینی کو محسوس کیا جاتا ہے، تادیر زیر بحث رہتی ہیں اور رفتہ رفتہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں لیکن بعض خبریں بظاہر عام ہونے کے باوجود دل و دماغ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی ہیں اور ماحول اور معاشرے پر بے شمار اثرات اور سوالات چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ خبر بھی اچھوتی تھی، جس کی وجوہات گھریلو جھگڑوں جیسی معاشرتی برائیوں کے تحت جنم لینے والے غیر متوقع جرائم کی صورت اختیار کر جاتی ہیں، جو بعض اوقات خونریزی پر منتج ہوتی ہیں۔’’ایک عورت نے اپنے شوہر اور تین معصوم بیٹیوں کو قتل کرکے خودکشی کرلی، ایک بیٹا زندہ بچ گیا‘‘ ۔اس خبر نے ایک المناک واقعہ ہونے کے علاوہ اس لئے بھی دل و دماغ میں ارتعاش پیدا کر دیا کہ ایک عورت نے ماں کی بنیادی خصوصیت کی نفی کردی تھی۔ ایسا جرم جس میں ایک عورت نے صرف اپنے بچوںکا ہی نہیں' ایک عقیدے کا قتل کیا تھا، ایک تصور کی تضحیک کی تھی، تپتی دھوپ میںٹھنڈی چھائوں کی، احساس تحفظ کی اور حرم کی بے حرمتی کی تھی، ماں جو امن کی مبلغ، کشادگی اور محبت کی علامت ہوتی ہے ،کا مذاق اڑایا تھا۔11سالہ رافع کو اندر سے کریدنے کے دوران اس کے ہونٹوں پر جنبش تو ہوتی تھی لیکن زبان اس کے اختیار میں نہیں تھی، آنکھوں سے مسلسل آنسو اور ہچکیاں میرے سوالوں کا علامتی جواب تھیں۔ ’’ہم سب بہن بھائی بہت خوش تھے کیونکہ ابو ہمیںلیک ویو پارک سیر کرانے لے جارہے تھے، ناشتے کے دوران امی اچانک اٹھیں، پستول نکالا اور ابو پر ایک گولی چلا دی، ابو گر گئے تو امی نے ابو پر دوسرا فائر کیا جو ابو کے سر میں لگا، امی مسلسل چلاّ رہی تھی، تیسرا فائر انہوں نے رانیہ (سات سالہ بہن) پر کیا، وہ بھی گر گئی، چوتھا فائر نمرا (پانچ سالہ) پر کیا، وہ بھی گر گئی، میں کمرے کے ایک کونے میں سہما کھڑا تھا، میری امی کی نظر جب مجھ پر پڑی تو انہوں نے ایک فائر مجھ پربھی کیا جو میرے کندھے پر لگا، میں گر گیا اور میں نے مرنے کا ڈرامہ کیا تاکہ امی مجھ پر دوسرا فائر نہ کردے، اس دوران میری چھوٹی بہن ردا (دو سالہ) خوف کے مارے روتے ہوئے امی کی ٹانگوں سے لپٹ رہی تھی لیکن امی نے ردا کے سر پر بھی گولی مار دی، وہ بھی مر گئی، ابو اور تین بہنیں رانیہ، نمرا اور ردا مر گئے تھے اور میں بچ گیا تھا۔ آخر میں امی نے اپنے سر میں گولی مار لی اور ان چاروں کے درمیان گر گئیں اور مر گئیں‘‘۔ رافع سسکیوں کے دوران وقفے وقفے سے بولتا رہا لیکن پوری طرح دل کا بوجھ ہلکا نہ کر سکا اور خاموش ہو گیا۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ امی نے ردا کو بھی مار دیا، جو پناہ کیلئے اس کی ٹانگوں سے لپٹ رہی تھی اور اس ماں سے تحفظ چاہتی تھی جو خود خوف کا سبب تھی، لیکن ماں تھی۔اس کے علاوہ علاقے کی پولیس نے بھی رافع کا بیان قلمبندکیا۔پولیس کے مطابق اس معصوم بچے نے کہا ’’گزشتہ رات والد اور والدہ کے درمیان جھگڑا ہوا جو 2بجے تک جاری رہا، اس دوران ہم سو گئے، میرے والدین کے درمیان اکثر لڑائی جھگڑا رہتا تھا، جس کی وجہ سے والد نے والدہ کو غصے میں طلاق (زبانی) دے دی۔اس کے بعد رافع نے سانحہ کی تفصیلات بیان کیں۔ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ میاں بیوی کا جھگڑا اس خونریزی کا سبب تھا۔اسلام آباد کے رہائشی علاقے جی سکس ٹو کے ایک مکان میں ایک پٹرولیم کمپنی کا منیجر محمد فاروق جس کا تعلق کرک سے تھا، اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا تھا۔ یہ لوگ معاشی طور پر آسودہ اور مستحکم تھے لیکن میاں بیوی میں وجہ بے وجہ لڑائی جھگڑارہتا تھا جو اتنی شدت اختیار کر گیا کہ وقوعہ کی رات خاوند نے غصہ میں آکر بیوی کو طلاق دے دی جو مسئلے کا قطعاً حل نہیں تھا بلکہ اس سے کشیدگی اور نفرتوں میں مزید اضافہ ہوا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر انتہائی خوشحال یہ کنبہ انجانی وجوہ کے تحت بے سکون تھا۔ میاں بیوی کا لڑائی جھگڑا معمول بن چکا تھا۔سبب یہ تھا کہ بیوی گھر پر حکمرانی چاہتی تھی اور شوہر کی جانب سے اطاعت کی خواہشمند تھی جوشاید اس کے لئے سکون اور فرحت کا باعث تھا۔ لیکن شوہرپر علاقائی اثرات حاوی تھے اور وہ بیوی کی بالادستی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ یہی ان کے اختلاف کا باعث تھا جو ہر دن سنگین صورت اختیار کرتاگیا۔ انہیں یہ سمجھانے والا کوئی نہیں تھاکہ سکون ایک دوسرے کی اہمیت تسلیم کرنے سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ کا عبرتناک انجام سب نے دیکھا کہ ایک عورت نے اپنے سکون کے لئے اپنے بچوں کو قربان کر دیا۔باشعور اور مہذب معاشروں میں معاشرتی مسائل کے حل کیلئے اصلاحی کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں جو میاں بیوی کے تنازعات حل کرنے، گھریلو جھگڑوں کو نبٹانے اور گھروں کے اندر لگی آگ کو بجھانے میں مؤثر اور مثبت کردار ادا کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس مقصد کے تحت کمیٹیاں توہیں لیکن یا توسیاسی بنیادوں پر قائم کی جاتی ہیں یا پھر پولیس کے ٹائوٹوںکا ان کمیٹیوں پر قبضہ ہوتا ہے جو انصاف کے لئے نہیںبلکہ پولیس کے لئے کام کرتی ہیں۔ ایسی اصلاحی کمیٹیوں کے قیام سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا اندازہ ایسے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین