• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں آج ہی اپنے گھٹنے کی سرجری کرواکے اسپتال سے گھر منتقل ہوا ہوں حالانکہ ڈاکٹروں نے مجھے 15 دن تک مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا لیکن کاروباری مصروفیات کے باعث میرے لئے ڈاکٹروں کی تجویز پر مکمل عمل کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ میں ملک و بیرون ملک مقیم اپنے تمام دوست احباب اور قارئین کا مشکور ہوں جنہوں نے فون اور ای میل کے ذریعے میری خیریت دریافت کی اور صحت یابی کیلئے دعائیں کیں۔ اسپتال سے گھر منتقل ہونے کے بعد سب سے پہلے میں آج کا یہ کالم تحریر کررہا ہوں تاکہ اپنے کالم کی وقت پر اشاعت کو یقینی بنایا جاسکے۔ مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ 13 سالوں سے میرے کالم باقاعدگی سے مقررہ دن شائع ہورہے ہیں اور میں اس روایت کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ روز اسپتال میں میری نظر ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر پر پڑی جسے پڑھ کر مجھے آپریشن سے زیادہ تکلیف پہنچی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اپنا آئندہ کالم اسی موضوع پر لکھوں۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں غیر ملکی معاشی قاتلوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ معاشی قاتل پاکستان جیسے مقروض ممالک کے قومی اثاثوں کو نہ صرف مغربی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں بلکہ اپنی مفاد پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے ان مقروض ممالک کی خارجہ پالیسیاں بھی اپنے زیر تسلط کرلیتے ہیں مگر ’’دی نیوز‘‘ کی حالیہ رپورٹ میں ایسے پاکستانی معاشی قاتلوں کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے جنہوں نے پاکستان میں ٹیکس بچانے کیلئے اپنی ناجائز دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کررکھی ہے اور حکومت کو ملک چلانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں پر قرضے لینے پڑرہے ہیں۔ ملک میں ایک طرف حکمراں اور سیاستدان اربوں ڈالر کے مالک ہیں جن کے صرف سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر جمع ہیں تو دوسری طرف عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن اگر یہ ناجائز دولت وطن واپس لائی جائے تو صرف ایک دن میں پاکستان اپنے تمام بیرونی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ خبر کے مطابق دنیا بھر کے 45 ممالک کے 130 تفتیشی صحافیوں پر مشتمل تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم (ICIJ) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہانگ شنگھائی بینکنگ کارپوریشن دنیا کا دوسرا بڑا بینک ہے جہاں دنیا بھر کے ڈرگ مافیا، اسمگلروں، سیاستدانوں اور ممتاز کاروباری شخصیات نے حکومتی ٹیکسز بچانے کیلئے اپنا کالا دھن رکھا ہوا ہے۔
HSBC سوئٹزرلینڈ کی منظرعام پر آنے والی خفیہ رپورٹ جس میں 100 بلین ڈالر سے زائد اکائونٹس کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں، کے مطابق 1970ء سے 2006ء کے دوران 338 پاکستانیوں نے اپنے 648 اکائونٹس میں 100 بلین ڈالر سے زائد کے کالے دھن سوئٹزرلینڈ منتقل کئے جس میں سے صرف HSBC پرائیویٹ بینک سوئٹزرلینڈ میں 859.70 ملین ڈالر منتقل کئے گئے۔
سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے لوگ اپنی غیر قانونی دولت سوئٹزرلینڈ اور دوسرے ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں رکھتے ہیں جس کی مجموعی مالیت تقریباً 32 ٹریلین ڈالر ہے جس میں سے صرف سوئس بینکوں میں 7 ٹریلین ڈالر جمع ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئس بینکوں میں بھارت کا 1456 ارب ڈالر، روس کا 470 ارب ڈالر، انگلینڈ کا 390 ارب ڈالر اور پاکستان کا 200 ارب ڈالر کالا دھن کی شکل میں موجود ہے جبکہ دیگر ممالک میں چین، میکسیکو، ملائیشیا اور ایک عرب ملک وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے کالے دھن کی رقوم سوئس بینکوں میں جمع کرا رکھی ہیں۔ ان ممالک کے کارپوریٹ ادارے ٹیکسوں سے بچنے اور کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے شیل کمپنیاں استعمال کررہے ہیں جس کے تحت ان کمپنیوں کے اصل مالکان کے نام اور اثاثے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح سوئس بینکس سیونگ اور کرنٹ اکائونٹ کے علاوہ سیکرٹ کوڈ اکائونٹ کیلئے بھی مشہور ہیں جس میں اکائونٹ ہولڈر کا نام خفیہ رکھا جاتا ہے جبکہ اکائونٹ کو پاس ورڈ کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ ایسے سوئس اکائونٹس میں ڈپازٹس پر منافع دینے کے بجائے بینکس کھاتے داروں سے سروس چارجز وصول کرتے ہیں۔
اس سے قبل سوئس بینکس 300سال پرانے سوئس قانون کے تحت رقوم کے ذرائع معلوم کئے بغیر اکائونٹ کھول دیتے تھے اور اکائونٹ ہولڈرز کی تفصیلات بتانے کے پابند نہیں تھے لیکن سوئس حکومت چونکہ ٹیکس چوری کو جرم تصور کرتی ہے، اس لئے ٹھوس ثبوت فراہم کئے جانے کی صورت میں حکومت کو اکائونٹ کی تفصیلات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح وراثت اور طلاق جیسے سول کیسوں، قرضوں کی ریکوری اور دیوالیہ کیسز، جرائم پیشہ تنظیم سے تعلق، چوری اور بلیک میل جیسے الزامات کے مقدمات کی صورت میں بھی کھاتے دار کی تفصیلات فراہم کرنا بینک کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سوئس قانون کے مطابق سوئس عدالت کی تحقیقات میں اگر جرم ثابت ہوجائے تو ملوث شخص کے اثاثے منجمد کرکے متعلقہ حکومت کے حوالے کئے جاسکتے ہیں جس کے پیش نظر سوئس بینکوں میں کالا دھن رکھنا مشکل بنتا جارہا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق HSBC میں کالے دھن سے متعلق حالیہ رپورٹ شائع ہونے کے بعد بینک کے چیف ایگزیکٹو نے معذرت کی ہے جبکہ بھارتی حکومت نے ممبئی میں HSBC میں بھارتیوں کے رکھے گئے کالے دھن کے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اسی طرح برازیل، اسپین اور نیپال کے ٹیکس حکام نے بھی اپنے ممالک کے کالے دھن کے اکائونٹ ہولڈرز کی تفصیلات جاننے کیلئے سوئس حکام سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے اس سال HSBC بینک کے منافع میں 17% کمی ہوئی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سوئس بینکوں میں منتقل کی گئی رقوم پاکستان کے اقتصادی نظام میں کرپشن، بددیانتی، لوٹ کھسوٹ، کاروباری اور تجارتی معاملات میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی ’’ڈیل‘‘ کا شاخسانہ ہیں جس نے ملکی اقتصادی نظام، انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے تمام خواب بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات، بااثر خاندانوں اور کالے دھن کی انڈر گرائونڈ معیشت کے بڑے کھلاڑیوں کے سوئس بینکوں میں رکھے گئے 200 ارب ڈالر سے زائد رقوم کی واپسی کیلئے کسی مصلحت سے کام نہ لے۔ گزشتہ سال پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے مابین ٹیکس معاہدے پر نظرثانی کی منظوری کے بعد 11 سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے غیر قانونی طور پر رکھے گئے 200 ارب ڈالر کے اکائونٹس کی تفصیلات جاننے کیلئے پاکستانی وفد نے 26 سے 28 اگست تک جنیوا کا دورہ کیا تھا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کیا عملی اقدامات اٹھاتی ہے۔ پاکستانی عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر قومی مہم چلاکر موجودہ اور آئندہ حکومتوں کو پاکستان کی دولت وطن واپس لانے پر مجبور کریں۔ یقیناً یہ مشکل ٹاسک ہوگا کیونکہ کالے دھن میں سے زیادہ تر رقوم سیاستدانوں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور ممتاز بزنس مینوں کی ہیں۔
میں اپنے دوستوں چیئرمین نیب چوہدری قمر الزماں، گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وترہ، چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ، قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC) کے چیئرمین سید خورشید شاہ، وزارت قانون و انسانی حقوق اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ HSBC پرائیویٹ بینک سوئٹزرلینڈ کی رپورٹ کا از خود نوٹس لیں اور بیرون ملک رکھے گئے اربوں ڈالر وطن واپس لانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ آج کے موجودہ حالات میں پاکستان کو ان پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔
تازہ ترین