• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے خطے میں تیزی سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، جو خطے کے ممالک میں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں اور کایا پلٹ کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ان واقعات کا محرک بدلتے ہوئے عالمی حالات ہیں ۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کیخلاف جو عالمی جنگ شروع ہوئی تھی یا کی گئی تھی ، اب اسے 14 سال بعد اسی طرح جاری رکھنا ممکن نہیں رہا ۔ اس جنگ کی وجہ سے عالمی اسٹیج پر جو نئی صف بندی ہوئی تھی ، اب اسے بھی برقرار رکھنے کا جواز ختم ہورہا ہے ۔ نئے حالات جنم لےرہے ہیں ۔ عالمی سطح پر نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ ان 14 سالوں میں اقتصادی اور فوجی طاقت کے کئی نئے مراکز قائم ہوئے ہیں ۔ روس اور چین جیسی روایتی عالمی طاقتوں کیساتھ ساتھ نئی عالمی طاقتیں بھی ابھر کر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے اپنے علاقائی اور عالمی کردار کیلئے راہیں ہموار کرلی ہیں ۔اس تناظر میں جنوبی ایشیاء میں رونما ہونے والے واقعات اور پاکستان پر ان کے اثرات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ۔ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ افغانستان میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کے بعد ایک نیا افغانستان معرض وجود میں آ چکا ہے ۔ طالبان کو افغان حکومت میں شامل کرنے کے لئے بات چیت شروع ہو گئی ہے ۔ روس ایک بار پھر ہمارے خطے میں دوبارہ ایک سپر پاور کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کےلئے سرگرم ہو گیا ہے ۔ چین ایک عالمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں پہلے سے بڑا ’’اسٹیک ہولڈر ‘‘بن گیا ہے ۔ بھارت اور ایران علاقائی طاقتوں کے طور پر اپنی نئی حکمت عملیاں وضع کر رہے ہیں ۔ امریکہ اور مغرب ایران کے ساتھ معاملات طےکررہے ہیں۔ نیو کلیئر ایشو پر ایران اور 8بڑے یورپی ممالک کی کانفرنس منعقدہو رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک نہ صرف خود داخلی سطح پر تبدیلیوں کے عمل کی زد میں ہیں بلکہ وہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کےلئے خواہشات پر مبنی کوششیں کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے نئے فرمانرواشاہ سلیمان زیادہ لبرل اور امن کے خواہش مند ہیں ۔ پوری دنیا ایک نئے وژن کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ پاکستان دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے ، جو نائن الیون کے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں سب سے زیادہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوا اور جن کےلئے اس تباہی اور بحرانوں سے نکلنابھی کوئی آسان نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت مختلف سمتوں میں کام کررہی ہیں اور ان کی ترجیحات بھی مختلف ہیں ۔ خارجہ امور کے ساتھ ساتھ داخلی امور میں بھی سیاسی قیادت پسپائی اختیار کررہی ہے اور سارا کام عسکری قیادت کو کرنا پڑرہا ہے ۔ علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والے واقعات میں پاکستان میں امن کی بحالی اور پاکستان کے اس خطے میں دوبارہ قائدانہ کردار کیلئے اب تک جو راستہ تلاش کیا گیا ہے یا سفارتی سطح پر جو اقدامات کئے گئے ہیں ، ان کا کریڈٹ سیاسی قیادت کو نہیں جاتا بلکہ عسکری قیادت کو ہی جاتا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک اور پوری دنیا میں امن کےلئے افغانستان کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے ۔ افغانستان میں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی حکومت قائم ہونے سے ایک مختلف افغانستان معرض وجود میں آیا ہے ۔ صدر اشرف غنی اگلے ماہ واشنگٹن کے دورے پر جارہے ہیں ۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے برعکس نئی افغان قیادت کا پاکستان سے دوستانہ رویہ ہے ۔ نئی افغان قیادت طالبان کو بھی حکومت میں شامل کرنے کی بات کر رہی ہے ۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ۔ ممکن ہے کہ طالبان رہنما ملا عمر ہمیں پسند نہ ہوں لیکن وہ افغانستان میں ایک سیاسی حقیقت ہیں ۔ انہیں شریک کئے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ افغانستان میں پائے دار امن کے قیام اور طالبان کو حکومت میں شامل کرنے کے حوالے سے پہلی مرتبہ پاکستان ، چین ، امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی ممالک ایک ’’ پیج ‘‘ پر ہیں ۔ اس کا کریڈٹ پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے ۔ جس نے سفارت کاری کا ایک راستہ بنا کردیا ہے اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس سفارت کاری سے نہ صرف خطے کے حالات نارمل ہوں گے بلکہ پاکستان کو بھی دہشت گردی اور بدامنی کے عفریت سے نجات حاصل ہوگی ۔ جنرل راحیل شریف کے امریکہ، افغانستان، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور چین کے دوروں کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور دیگر فوجی حکام کا امریکہ کا حالیہ دورہ بھی مستقبل کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے میں اہم ثابت ہوا ہے ۔ یہ دورہ آئندہ مئی میں ہونا تھا لیکن اس دورے کو ’’ ری شیڈول ‘‘ کیا گیا ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے واشنگٹن میں اہم لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اس خطے کے لئے نئے روڈ میپ پر نہ صرف مشاورت کی بلکہ یوں لگتا ہے کہ روڈ میپ کے بارے میں کچھ طے کر لیا گیا ہے ۔ اس سفارت کاری کے نتیجے میں پہلی مرتبہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کم ہوتا نظر آرہا ہے اور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائیاں روکنے میں مدد ملی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ خطے کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور پاکستان اپنی عسکری قیادت کی کوششوں سے رہنما کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ جنرل راحیل شریف نے تمام بڑی اور متعلقہ ( Relevant ) عالمی طاقتوں کو باور کرا دیا ہے کہ اس خطے اور دنیا کے امن کے لئے افغانستان کے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ امریکہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طالبان سے بات چیت کررہا ہے۔ پوری دنیا یہ چاہتی تھی کہ وزیرستان اور پورے پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔ ہماری مسلح افواج نے دنیا کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ بلاامتیاز کارروائی ہو رہی ہے اس لئے پاکستان کی عسکری قیادت پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ۔ میرے خیال میں کوئی ’’سیٹلمنٹ ‘‘ ہونے جارہا ہے اور اسے پاکستان ، چین ، امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب ، خلیجی ریاستوں کے ساتھ ساتھ کسی حد تک روس کی بھی حمایت حاصل ہوگی ۔ کراچی اور کابل اس خطے میں طاقت کے دو بڑے مراکز ہیں۔ یہاں ہر کوئی امن کا قیام چاہتا ہے ۔ پاکستان کی عسکری قیادت خصوصاً ڈی جی آئی ایس آئی کراچی کے حالات، بھتہ خوری اور دہشت گردی کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس خطے میں حالات کی بہتری سے ہماری افواج اسی سال کے آخر تک وزیرستان ، بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں امن قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں رونما ہوں گی ، ان کے لئے بھی ہمیں تیار رہنا چاہئے ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ، دنیاومافیا سے بے خبر ہیں۔ وہ صرف اس بات میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنے اقتدار کو کیسے برقرار رکھا جائے یا کرپشن کے کون سے راستے اختیار کئے جائیں ۔ سب سیاست دان اس بات پر متفق ہیں کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔ وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے ۔
اس کے باوجود وہ سینیٹ کے الیکشن میں رات دن جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔سینیٹ کا ایک ایک امید وار 5 ، 5 ارب روپے خرچ کرنے کےلئے تیار ہے ۔ اس طرح سینیٹ کے انتخابات میں آئین کی روح کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب کے ڈومیسائل رکھنے والے سندھ سے سینیٹ کے امید وار ہیں اور سندھ کے ڈومیسائل رکھنے والے پنجاب سے امید وار ہیں ۔ آئین کی روح کے مطابق صوبوں کی سینیٹ میں یکساں نمائندگی نہیں ہو سکے گی جو فیصلے سیاست دان خود کرسکتے ہیں ، وہ بھی عدالتوں کو کرنا پڑ رہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی سیاسی قیادت ان حالات میں تمام اختلافات بھلا کر ایک ہوجاتی اور بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی لیکن یہ بات بھی افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں نہ تو ایسی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس میں صورت حال کا ادراک ہے اور نہ ہی مسائل کو حل کرنے کی استطاعت ہے۔ہمارے سیاست دان یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب تک ملک داخلی طور پر مضبوط نہیں ہو گا ، تب تک خارجی محاذ پر کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ خارجہ پالیسیوں کی بنیاد داخلی استحکام پر ہوتی ہے ۔ ایسے حالات میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کی ضرورت ہے ، جن کا تاریخ ‘ فلسفہ‘ سیاسیات کا مطالعہ اور دنیا میں بدلتے ہوئے حالات کا ادراک تھا۔انہوں نے پیپلز پارٹی کی تشکیل سے پہلے غیر وابستہ تحریکوں ، تیسری دنیا کی تحریکوں ، آزادی کی تحریکوں ‘اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظاموں کو سمجھا ۔ ان کی پاکستان میں چلنے والی تمام تحریکوں ، ان کے محرکات اوران تحریکوں کے سرگرم لوگوں پر گہری نظر تھی ۔ وہ اپنے عہد کے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے تھے اور ایک عالمی لیڈر کے طور پر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد حسین شہید سہروردی ، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے لیڈر اس ملک نے پیدا نہیں کئے ۔ ان کا ادراک بھی بہت بلند تھا ۔ اس وقت پاکستان میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں ہے ، جو علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے کردار کو منوا سکتا ہو ۔ اگرچہ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات مایوس کن نہیں ہیں لیکن سیاسی قیادت کا لاتعلق کردار مایوس کن ہے اور ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ بھی کرتا ہے۔ اگر ہم نے بدلتے ہوئے حالات میں نئے امکانات تلاش نہیں کئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور آج کی سیاسی قیادت ہی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔
تازہ ترین