• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسوں پرانا قصہ نہیں،ابھی کل کی بات ہے، عام انتخابات 2013 منعقد ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تو اس کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک آئینی پٹیشن کے ذریعے استدعا کی گئی کہ نگراں حکومت کی طرف سے کی گئیں تمام تقرریاں اور تبادلے منسوخ کر دیئے جائیں۔ یہ اپیل بھی کی گئی کہ ایسا فیصلہ جاری کیا جائے کہ نگراں حکومت کے دور میں کی گئی تبدیلیاں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں رکھتیں اور انتظامی معاملات کی صورتحال وہی تصور ہو جو نگراں حکومت کے حلف اٹھانے تک تھی۔ یہ آئینی پٹیشن 21 مئی 2013 کو دائر کی گئی ،اس کے ساتھ خواجہ آصف نے ایک فہرست بھی سپریم کورٹ کو پیش کی جس میں این ایچ اے چئیرمین کی تبدیلی سے لے کر پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کے چئیرمین کی تقرری تک تمام تفصیلات دی گئی تھیں۔ آئینی پٹیشن دائر کرنے کی نیت بڑی واضح تھی اور اپیل کنندہ کو یقین کامل تھا کہ عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ان کی پارٹی کو ہی برسراقتدار آنا ہے۔حکومت کی آنکھیں اور کان سمجھے جانیوالے بیورو کریسی کے اہم کل پرزوں کی تعیناتی اور تقرری کا اختیار انہیں ہی حاصل ہونا چاہئے۔ اس آئینی پٹیشن پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ابتدائی طور پر نگراں حکومت کو تمام اہم تقرریوں اور تبدیلیوں سے روک دیا اور ہدایات دیں کہ صرف انتظامی معاملات نمٹانے کے لئے درکار اہم تبدیلیاں ہی کی جائیں۔ بعد میں بارہ جون کو جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں عدالت عظمٰی نے اہم انتظامی اور آئینی عہدوں پر بھرتیوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے یہ شرط بھی عائد کر دی کہ اہل اور دیانت دار افراد پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جائے جو کسی بھی اہم عہدے پر بھرتی سے قبل اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرے۔ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں حکومت اہم عہدوں پر تقرری کرے۔ عدالت عظمٰی کے اس فیصلے پر مسلم لیگ ن نے خوشی سے شادیانے بجائے۔ میاں نواز شریف نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو ان کی کابینہ میں شامل رہنماؤں میں خواجہ آصف بھی پیش پیش تھے۔ یہیں سے وہ مشکل پیدا ہوئی جو دوسروں کے لئے پیدا کی گئی تھی۔ عدالت عظمی کی ہدایات پر جو کمیشن تشکیل دیا گیا اس میں عبدالرؤف چوہدری، ڈاکٹر شمس قاسم لاکھا اور ڈاکٹر اعجاز نبی جیسے اچھی شہرت کے حامل افراد شامل تھے۔ اہم عہدوں پر تقرری کے لئے وزیرا عظم اور وفاقی کابینہ نے اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی تو یہ بااختیار کمیشن ان کے لئے گلے کی وہ ہڈی بن گیا جسے نہ نگلا جا سکتا تھا اور نہ اہی اگلا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال میں صرف اکا دکا تقرریاں ہی کی جا سکیں۔اسی دوران انتہائی اہم عہدوں پر تقرری نہ کئے جانے پر معاملہ ایک بار پھر عدالت عظمی میں پہنچ گیا جس کی ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اسے چیف جسٹس،جسٹس ناصر الملک کے پاس بھجوا دیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان اسلم بٹ نے اعتراف کیا کہ خواجہ آصف کے مقدمے میں جاری کئے گئے عدالت عظمیٰ کے بارہ جون کے فیصلے کی وجہ سے چیئرمین پی آئی اے سمیت اہم عہدوں پر تقرریاں کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اسی دوران حکومت نے اپنے ہی وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے مقدمے میں جاری کئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر دی۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ کبھی ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑجاتی ہیں۔ عدالت عظمی نے لیگی حکومت کی اپیل پر گزشتہ سال نومبر میں کمیشن کے ذریعے بھرتی کی شرط ختم کرتے ہوئے دسمبر 2014 تک تمام اہم عہدے پر کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت دے دی۔ اس دوران حکومت نے بھرتیوں میں شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے بھاری معاوضے کے عوض معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی خدمات حاصل کیں لیکن سخت آڈٹ کے نظام کو ہضم نہ کیا جا سکا اور واپس اسی نظام کی طرف رجوع کر لیا جس کے تحت پاکستان میں آج تک تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی تنبیہ کے باوجود تاحال کئی اہم عہدوں پر تقرری اور تعیناتی نہیں کی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر موصوف جو تبادلوں اور تقرریوں میں منتخب حکومت کا استحقاق چاہتے تھے وہ بیس ماہ میں اپنی انتہائی اہم وزارت پانی و بجلی کا مستقل وفاقی سیکرٹری تک تعینات نہیں کرا سکے۔ سوئی سدرن،سوئی ناردرن،پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی،اوگرا،پیپرا،پی ٹی وی،ایس ای سی پی سمیت اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری بھی 31دسمبر کے بعد کی گئی ہے۔ حکومت کی سستی اور بد انتظامی کی وجہ سے کئی اداروں میں سربراہان کی پوسٹیں صرف اس وجہ سے خالی پڑی ہیں کہ متعلقہ بعض افسران عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر چکے ہیں۔ ان اہم اداروں میں پیمرا، سمیڈا،پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن،پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بھی شامل ہیں۔ انتہائی مصروف، وفاقی حکومت کو بیس ماہ میں اتنی فرصت بھی نہیں مل پائی کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن، این ٹی ڈی سی،متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ،اوگرا،پی ایس او،پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی،پاکستان ری انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ، پاکستان ہارٹی کلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی، انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ اورنیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن سمیت دیگر متعدد اداروں کے مستقل سربراہان کی تعیناتی ہی عمل میں لا سکتی۔ عدالت عظمی نے اہم اداروں کے سربران کی تقرری نہ کئے جانے پر یہ بھی کہا تھا کہ اس سے ملک کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کا عملی ثبوت حال ہی میں ملک میں پیٹرول کے بد ترین بحران کی صورت میں دیکھا بھی جا چکا ہے جب پی ایس او اور اوگرا کے مستقل سربراہان موجود نہ ہونے کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑی تھی۔ یہاں مجھے وزیر اعظم صاحب کے بطور اپوزیشن رہنما دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے کی بھی یاد آگئی۔ اس ایجنڈے کاایک نکتہ یہ بھی تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت تمام سرکاری اداروں میں اہل اور دیانتدار افراد کی شفاف انداز میں تقرری کو یقینی بنائے۔ اس دس نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 45 دن کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے ان دس نکات پر عمل درآمد کے لئے اسحق ڈار کی سربراہی میں لیگی کمیٹی سے کئی بار مذاکرات کئے۔ بعد میں ایک مرحلے پر بابر اعوان نے خود میرے سامنے انکشاف کیا کہ ان دس نکات کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے من پسند افراد کی تعیناتی کرانا تھا۔ مختلف اداروں میں تا حال خالی پڑے عہدوں کی فہرست دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ میاں نواز شریف نے دس نکات پر عمل درآمد کے لئے پیپلز پارٹی کو صرف 45دن دیئے تھے ،آج چھ سو دن گزر چکے لیکن بطور وزیر اعظم انہیں اہم اداروں کے سربراہان کی تقرری کے لئے اہل، اور دیانت دار افراد نہیں مل سکے۔آخر میں ایک تلخ حقیقت کہ جو حکومت ایک ماہ میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تقرری نہ کر سکے ،اس کے لئے مختلف سرکاری اداروں میں ایک سو عہدوں پر تعیناتی کرنے کے لئے 600 دن یقیناً ناکافی ہیں۔
تازہ ترین