• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے ادبی میلہ کی بڑی دھوم تھی جبکہ ملک میں دہشت گردی کی جنگ زوروں پر ہے۔ ہر شخص ان حالات میں بے چین اور بے کل ہے، مگر ادب کی محفل کراچی میں خوب جمی۔ میں نے کراچی ادبی میلہ کا زیادہ احوال تو سوشل میڈیا پر دیکھا۔ امینہ سید اور آصف فرخی نے خوب رنگ جمایا۔ لاہور کی نمائندگی کا حق افضال احمد نے ادا کردیا۔ ٹوئیٹر پر جو تصاویر لوگوں نے سجائی ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی والے کتاب والے بھی بنتے جارہے ہیں۔ کتنی کتابوں کی دھوم مچی۔ اقبال دیوان جو ایک زمانہ میں سندھ کی نوکر شاہی کے پردھان تھے، انہوں نے اپنی جگ بیتی اور آپ بیتی پر دو کتابیں لکھی ہیں۔ نوکر شاہی کے لوگ بھی قلم اور لفظ کے کھلاڑی تو ہوتے ہی ہیں مگر ان کا ادبی ذوق و شوق ان کی تحریر سے ان کی پہچان کرواتا ہے۔ ہمارے انتظار حسین، کشور ناہید، مستنصر حسین تارڑ کا خوب سواگت ہوا۔ بوڑھے مصنف جوان ہوگئے اور جوانوں میں گھل مل گئے۔ نوجوانوں کا جذبہ جنون دیکھنے کے قابل لگتا ہے۔ ان تصاویر میں کراچی اپنی حیثیت اور اہمیت منواتا نظر آتا ہے۔ اتنے بڑے ادبی میلہ کا انتظام اور دنیا بھر سے آئے لوگ جو موسیقی، شاعری، ڈرامہ، تھیٹر، ادب کو دیکھ رہے تھے بلکہ لطف اندوز بھی ہورہے تھے اب ویسا ہی ادبی میلہ لاہور میں سجایا گیا۔ الحمراء میں اس کا انتظام کیا گیا۔ کیپٹن عطا جو الحمراء کے افسر اعلیٰ ہیں ان کے ساتھ ہمارے ساتھی عطاء الحق قاسمی اعزازی طور پر آرٹ کی خدمت کررہے ہیں۔ بس اب دنوں کی بات لگتی ہے جب جناب عطاءالحق قاسمی پر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھولنے جارہا ہے۔ الحمراء کے ہمسایہ میں گورنر صاحب بہادر کا گھر کئی دن سے ویران ہے۔ اس کا مکین سیاست کی نذرہوچکا ہے۔ اب کئی لوگوں کا نام لیا جارہا ہے۔ ہماری دعا اور خواہش عطاء الحق قاسمی کے لئے ہے۔ میرے رب نے ان سے بہت سارے کام لینے ہیں ۔ان کی شاعری، ڈرامے اور سب سے مقبول سلسلہ ان کی کالم نویسی ہے۔ ہر کالم نیا، منفرد اور دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ ایک زمانہ میں نظریہ پاکستان کے ساتھ تھے مگر کمال یہ ہے کہ وہ اس کوچے میں ا ٓزاد اور خومختار رہے۔ سب سے بڑا وصف تو ان کی آوارہ گردی ہے۔ انہوں نے دنیا دیکھی اور اپنی پسند کی دنیا کو ہمارے سامنے رکھا اور ان کی تحریر کو پڑھنے والے کبھی بھی مایوس نہیں ہوتے، پھر سفارت میں اپنا لوہا منوایا اور ایسا سکہ جمایا کہ لوگ ان کی سفارت کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔وزیر اعظم صاحب تو سنا ہے راضی ہوچکے ہیں اور ادب نواز ہونے کے ناطے پنجاب کا لاٹ صاحب عطاء صاحب کو بنانے پر تیار ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سرکار کا یہ ایسا فیصلہ ہوگا جس پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ یہ پنجاب کی خوش قسمتی ہوگی کہ اس کا لاٹ صاحب ایک ادب شناس ،صاحب کتاب اور ہمارے جیسا عام آدمی ہوگا۔ صوبے دار صاحب حوصلہ رکھیں۔ لفظوں کی حرمت رکھنے والوں کو اعزاز ملنا چاہئے اور اس میں دیر کرنی مناسب نہیں۔
بات لاہور کے ادبی میلہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس میلہ کے انتظامات کے ذمہ دار اقبال زیڈ احمد تھے۔ میری ان سے شناسائی تو پرانی ہے مگر ملاقات کو اک عرصہ گزر چکا ہے۔ اب ادبی میلہ کے انتظامات کے سلسلہ میں ان کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو پرانا زمانہ نظروں سے گزر گیا۔ اس ادبی میلہ میں ان کا کردارپنجاب میں ادب، موسیقی، شاعری، ڈرامہ تھیٹر کی خدمت ہے۔ دنیا بھر سے لوگوں نے اس میلہ میں دلچسپی کا اظہار کیا اور حسب روایت سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔ پہلے دن کیپٹن لیاقت کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد کتابوں میں ڈراموں ، موسیقی، شاعری، تھیٹر کی سجی محفلوں میں شرکت کے لئے آزادی کے ساتھ شریک ہورہی تھی۔ پھر سیکورٹی کے معاملات بھی اتنے اچھے کہ پنجاب پولیس کا تاثر اچھا بنتا ہے۔ یہ بات کمانڈ کی ہے کیپٹن لیاقت جو اس میلہ کی سیکورٹی کے افیسر اعلیٰ تھے اور خود بھی صاحب کتاب ہیں۔ ایسے میلوں سے لوگوں کو مثبت مصروفیت کا موقع ملتا ہے۔ اس میلہ میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل نظر آئے اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ لوگوں کے لئے خوشیاں کتنی ضروری ہیں۔ ایسی محفلیں اور میلے لوگوں کو خوشی، اطمینان اور زندگی دیتے ہیں۔ اللہ ہمارے لوگوں کو ایسی زندگی سے روشناس کراتے رہے اور آج جو میلہ الحمراء کے تین بڑے ہالوں، برآمدوں ، کمروں میں سجایا گیا، اگلے سال مینار پاکستان کے میدان میں سجے یا باغ جناح میں اس کا انتظام ہو اور اگر ہمارے عطاء الحق قاسمی صوبے کے لاٹ صاحب بن گئے تو اگلا ادبی میلہ گورنر ہائوس میں ہو اور لوگوں کو اندازہ ہو کہ اللہ کی عطا کیا ہے۔
ایک تو سرکار کی سمجھ نہیں آتی ۔ایک طرف پنجاب کی گورنر ی کا معاملہ لٹکا رکھا ہے۔ ایک اہم عہدہ ہے اس کو جلداز جلد پورا کریں۔ دوسری طرف دوہری شہریت کے حوالے سے ملازمت کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ سیاسی لوگوں کے لئے تو یہ قانون قابل قبول ہے مگر ملازمت کے لئے نوجوانوں کے پاس مواقع پہلے ہی کم ہیں جو پاکستانی وطن سے باہر مقیم ہیں اور ان کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے اور وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔کسی غیر ملک میں ایسی کوئی پابندی نہیں مگر اپنے اصلی وطن میں اتنے علم اور تجربے سے مزین لوگوں پر ملک کی خدمت کا دروازہ بند کیا جارہا ہے۔ ایک طرف تارکین وطن کے لئے ووٹ کی حیثیت کو اہمیت دی جارہی ہے مگر اس قانون کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ ہماری اشرافیہ اور سیاسی مجاور، دوہری شہریت کے قابل لوگوں سے خوف زدہ ہیں۔ اس قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس قانون سازی کی مخالفت کرنی چاہئے اور تارکین وطن قابل لوگوں کو پاکستان میں ملازمت کی مکمل آزادی دینی ضروری ہے۔ سرکار کو ایسے خلفشار میں جانے کی ضرورت نہیں۔
گزشتہ کالم’’پتھر کی اس نگری میں، سائے اس شہر میں‘‘ میں لوگوں اور دوستوں کی طرف بابا محمد یحییٰ خاں کے بارے میں بڑی جانکاری کی گئی ہے۔ اس کا آسان راستہ یہ ہے کہ ان کی کتاب میں ان کا مکمل پتہ اور ٹیلی فون درج ہے۔ اس طرح سے ان سے رابطہ آسان اور موثر ہوگا۔ اس کالم کے حوالہ سے بابا محمد یحییٰ خاں کا اعتراض بھی ملا جو برمحل ہے اور مجھے بہت ہی شرمندگی ہے کہ میرے سے ایسی غلطی کیسے ہوگئی۔ کالم میں میری غفلت سے بابا محمد یحییٰ خاں کا نام پورا درج نہ ہوسکا۔ اس کے لئے میں شرمندہ ہوں اور ایسی غلطی کا ذمہ دار بھی میں ہوں اور نام کے معاملہ میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔ میں اسکے لئے نہ صرف شرمندہ ہوں بلکہ معافی کا خواہش مند ہوں۔ یہ بابا محمد یحییٰ خاں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میری معذرت قبول کی۔ا س ادبی میلہ میں کتابوں کی بھی نمائش ہوئی۔ ایک تازہ کتاب منتشر دیکھی جو جناب مصدق سانول کا دیوان ہے، کیا خوب شاعری ہے۔ اس کے چند لاجواب شعر
پیا کو پیا نے پیا رات بھر
جیا نے جیا کو جیا رات بھر
ایسے درد مبہم دیا رات بھر
وہ مشکیزہ پھر بھر گیا رات بھر
تازہ ترین