• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں چند ایام کراچی میں گزارنے کا موقع ملا تو یوں محسوس ہوا کہ گویا پاکستان کی سیاست و صحافت لاہور یا اسلام آباد نہیں کراچی میں زیادہ سر گرم ہے جنگ جیو کے دفاتر سے لے کر کراچی اوراردو یونیورسٹی تک مختلف اداروں میں جانے اور شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوا جن میں سب سے یادگار ملاقات محترم عبدالستار ایدھی صاحب سے تھی لیکن سب سے پہلے کراچی کی سڑکوں کا احوال جو نہ ختم ہونے والی ٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں سڑکیں اگرچہ کشادہ ہیں لیکن ٹریفک کے سامنے خاصی تنگ محسوس ہوئیں بہت سے مقامات پر یوں محسوس ہوا کہ شاید عرصہ سے کسی نے ان کی ریپرئنگ کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا بہت سے ایسے مقامات بھی نظروں میں آئے جہاں صفائی کا کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بالخصوص کراچی کے پسماندہ علاقوں میں۔ مجھے ملیر، لیاری، ناظم آباد اور گلشن اقبال سے لے کر ڈیفنس اور کلفٹن تک گھومنے کے مواقع ملے گلستان جوہروحدید اور نہ جانے کتنے گلستان ہیںجن میں پھول کم اگتے ہیں اور خاک زیادہ اڑتی ہے ہم نے کراچی میں بہت سے ایسے علاقے بھی دیکھے جہاں گندجا بہ جا بکھرا ہوا تھا تجاوزات کو ختم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کہیں نظر نہیں آیا بلکہ کئی سٹرکوں پر دونوں اطراف غیر قانونی پارکنگ پر کوئی قدغن نہ تھی صدر میں تو بہت برا حال تھا البتہ ڈیفنس اور کلفٹن میں حالات بہتر تھے ساحل سمندر پر رونق نہ ہونے کے برابر تھی یا کم از کم ہماری موجودگی میں نہ تھی اگرچہ سڑکوں پر رش کا کوئی حساب نہ تھا ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لوگ اب بھی جھجک محسوس کرتے ہیں.مجھے ذاتی طور پر ایم کیو ایم اور اس کے قائد سے ایک نوع کی دلچسپی اور اپنائیت ہے کیونکہ میں اس تحریک کو دبے ہوئے طبقے کی درد بھری آواز سمجھتا ہوں ۔ KPKاور پنجاب کی طرح سندھ حکومت کی یہ زیادتی اس پر مستزاد ہے کہ ہنوز کراچی کے عوام کو ان کی منتخب قیادت سے محروم کر رکھا ہے نتیجتاً وطنِ عزیز کا سب سے بڑا ترقی یافتہ شہر آج کسمپرسی کی حالت میں ہے سیاسی پارٹیوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے نوجوانوں کی صلاحیتوں کا جس بے دردی سے استعمال بلکہ استحصال کیا ہے اس کا کڑوا ثمر یہ برآمد ہوا ہے کہ آفیسر بننے کی اہلیت رکھنے والے کلرکی کیلئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جن میں صلاحتیوں کا فقدان تھا وہ منفی راہوں کے مسافر بن بیٹھے ہیں۔ متحدہ کی جہاں یہ خدمت ہے کہ وہ بے آواز لوگوں کی آواز بنی ان بکھرے لوگوں کو یکجا کر تے ہوئے طاقت بخشی وہاں اس پر دہشت و حشت بھتہ کلچر کے فروغ کے الزامات بھی عائد کئے گئے۔۔اندوہناک سانحہ بلدیہ ٹائون کا بھی بہت ذکر ہو تا رہا۔ ہم نے کراچی کی رائے عامہ کو ہر جگہ ہر مقام پر کراچی آپریشن کی تمامتر خامیوں کے باوجود نوازشریف کیلئے ستائش کرتے پایا۔ وزیراعظم نوازشریف کا یہ عزم قابل فہم ہے کہ ہم چند سالوں میں کراچی کو اس کی روایتی روشنیاں واپس لوٹائیں گے۔ ضرب عضب کی طرح کاش کراچی کا آپریشن بھی کئی برس قبل شروع کر دیا جاتا شاید اس سےا سٹریٹ کرائم کی روک تھام سے لے کر بہت سی انسانی جانوں کا ضیاںروکا جا سکتا تھا۔ اب بھی اس آپریشن کو بلا امتیاز، غیر جانبدانہ منصفانہ اور شفاف بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں ہونا چاہئے۔
کراچی میں اردو یونیورسٹی کے پروفیسر توصیف احمد خاں کی مہربانی سے ہمیں نہ صرف یہ کہ محترم اساتذہ اور نوجوان طلباء کے خیالات سننے کا موقع ملا بلکہ بابائے اردو مولوی عبدالحقؒ کی تربت پر حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی ان کی آخری آرام گاہ یونیورسٹی سے ملحق جس بلڈنگ میں ہے اس کے متعلق بتایا گیا کہ پارٹیشن سے قبل یہ بڑی اہمیت کی حامل تھی مہاتما گاندھی جیسی شخصیات یہاں تشریف لاتی رہی ہیں لیکن اب یہ بند بلڈنگ کسی گودام کا نقشہ پیش کر رہی تھی ذمہ داران کی خدمت میں ہماری تجویز ہے کہ یونیورسٹی کی جانب کھلنے والے آہنی گیٹ کو کھول کر اس بلڈنگ کو نوجوانوں کی ادبی سرگرمیوں کیلئے مختص کر دیا جائے اردو یونیورسٹی جیسا خوبصورت ادارہ مولوی صاحب کی کا وشوں کا ثمر ہے لہٰذا مولوی صاحب کے مزار پر اور نہیں تو پھولوں کی چند کیا ریاں ہی بنوا دی جائیں۔ کراچی میں دوستوں سے ملاقاتیں بھی خوشگوار تھیں جنگ کے اشتیاق صاحب کی اچانک رخصتی کا افسوس ہوا ۔SIUTمیں محترم ادیب رضوی صاحب کی شخصیت متاثر کن لگی اسی طرح فیصل ایدھی اور کبریٰ ایدھی صاحبہ یہ سب ایدھی صاحب کی روشنیاں ہیں۔ایدھی صاحب کی زیارت کی تمنا کے زیر اثر یہ طے پایا کہ بروزاتوار صبح دس بجے لیا ری کے کھارا دریا میٹھا در سے ہو تے ہوئے ان کے آفس پہنچ جا نا ہے لیکن عین وقت پر اطلا ع ہوئی کہ ایدھی صاحب کی طبعیت ٹھیک نہیں لہٰذا آپ SIUT آجائیں۔ محترم ادریس بختیار صاحب اور کاظمی صاحب کے ساتھ ساتھ ہم جناب گوہر صاحب کے خصوصی شکر گزار ہیں۔جن کی مہربا نی سے انسانی خدمت گار کے پاس ہماری نشست رکھ دی گئی اور سوال جواب کا موقع دیا گیا ۔ مدر ٹر یسا جیسایہ مرد خلیق ہے جو گر ے پڑے ٹوٹے پھوٹے دلوں کو جوڑتا ہے زخموں پر مرہم لگاتا ہے اور محبتوں کو با نٹتا ہے۔ لاوارثوں کا وارث ہے ۔جب ہم نے کہا کہ آپ پکے سچے مسلمان ہیں خد مت میں مسلمان بھائیوں کو کچھ فوقیت تو دیتے ہوں گے بو لے ہرگز نہیں میرے لئے انسان صرف انسان ہے چاہے اُس کا کو ئی بھی دین ودھرم ہو ۔ذہن میں فوراً آیا کہ پارٹیشن کے وقت آپ کہاں تھے جب انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے ؟اس وقت آپ کے احساسات کیا تھے ؟ایدھی صاحب بو لے میں یہیں کر اچی میں تھا َظلم ہو تا دیکھ کر مجھے یو ں لگ رہا تھا کہ میں کٹ رہا ہوں ہر سانس میں میں مر رہا تھا اب بھی لوگ جس طرح لوگوں کو مار رہے ہیں اس سے مجھے بہت تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے ۔کاش لوگ انسانوں سے محبت کر یں اگر ان لوگوں نے خدا کوہی راضی کر نا ہے تو بغیر کسی تنقید یا ملامت کی پرواکیے بلا امتیاز انسانوں کی خدمت کریں۔ ہم نے پوچھ لیا ایدھی صاحب زندگی میں آپ کی آئیڈیل کون سی شخصیت ہے بلا توقف بولے ’’ حضرت ابو ذرغفاریؓ ‘‘ ہم نے آج کی کسی شخصیت کا نام لینے کے لئے کہا تو انہوں نے وہی جواب دہرایا’’ آج کے لئے بھی ابو ذرغفاریؓ‘‘۔ شاید اس کی رمزیہ ہے کہ وہ بھی سچے کھرے اور دوٹوک انسان تھے اور ایدھی صاحب کی فطرت میںبھی یہی سوچ و دیعت کی گئی ہے روایتی پاکستانی سماج میں انہوں نے دبے ہوئے طبقات بالخصوص اقلیتوں کے لئے جس طرح اسٹینڈلیا اور صاف کہا کہ بھا ئی میں مولانا نہیں ہوں میں صرف عبدالستار ایدھی ہوں کوئی اچھے کا م کرتا ہے تو میں اس کی تعریف کرتا ہوں ،جو زیادتیاں کرتا ہے میں اُس پر تنقید کرتا ہوں ۔ پاپولراپروچ کیا ہوتی ہے ایدھی صاحب کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ کوئی عالم فاضل ہیں نہ مفکر و دانشور، لیکن ان کے حضور یہ تمام الفاظ ہولے پڑجا تے ہیں وہ اتنے بڑے انسان ہیں کہ انسانیت صدیوں ان پر فخر کرے گی۔
تازہ ترین