• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نائن الیون کے چند روز کے بعد 19ستمبر 2001ء کو پاکستان کے فوجی حکمران نے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ اگر ہم امریکہ کے صرف تین مطالبات تسلیم کرلیں تو پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے۔ پاکستان کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔ وگرنہ پاکستان کی سالمیت اور بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ڈالر اور اقتدار کو طول دینے کیلئے اس حکومت نے ان مطالبات سے کہیں بڑھ کر انتہائی جوش خروش سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ لڑی، ان اقدامات سے خوش ہوکر امریکہ نے کہا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو ان کے خوابوں کی تعبیر دیں گے، پاکستان کو نہ صرف قرضوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی بلکہ وہ ایک ایسا ملک بن جائے گا جہاں ضروریات زندگی کی فراوانی ہوگی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے عوام کی محرومیوں اور مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے اور امریکہ بھی پاکستان کو ذمہ دار ملک نہیں بلکہ دہشت گرد ملک قرار دینے کی بات کررہا ہے۔ بھارت تو ہمارا ازلی دشمن ہے ہی، امریکہ اور روس بھی پاکستان پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے کیلئے اقدامات کرے۔
بھارت نے 1947ء سے اب تک پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع کبھی ضائع نہیں کیا۔ گزشتہ 10سے زائد برسوں سے یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت اور افغانستان میں گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ بھارت امریکہ کی معاونت سے افغانستان میں اپنا عمل دخل بڑھانے اور خطے میں اپنی مکمل بالادستی قائم کرنے کا خواہاں ہے جس میں واحد رکاوٹ جوہری طاقت پاکستان ہے۔ بھارت حقیقی معنوں میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی ہمت رکھتا ہے نہ ارادہ۔ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان میں مغربی سرحد سے دہشت گردی کی بڑی واردات کروا سکتا ہے یا خود اپنے ہی ملک میں دہشت گردوں کی بڑی کارروائی کروا کر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال سکتا ہے ایسا نظر آرہا ہے کہ خطے میں بلاشرکت غیرے اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے بھارت بھاری قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے سے اسے جو زبردست فوائد ملیں گے ان کا حجم ان نقصانات سے کہیں زیادہ ہوگا جو پاکستان سے مسلسل محاذ آرائی کی صورت میں اسے برداشت کرنا پڑیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہوجائے لیکن بھارت اپنی پاکستان دشمن پالیسیاں جاری رکھے گا۔
گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں یہ بات ایک مرتبہ پھر سامنے آئی ہے کہ فی الوقت پاکستان کی امداد بند کرنے اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اس بات کے اشارے بہرحال مل رہے ہیں کہ ’’نئے گریٹ گیم‘‘ کے مقاصد کے حصول کیلئے فی الحال پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کٹوتیاں کی جائیں گی، امداد کی شرائط کو مزید سخت کیا جائے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کے نام پر پاکستان کو ایسے اقدامات اٹھانے کیلئے مجبور کیا جاتا رہے گا جو قومی سلامتی و قومی مفادات سے بھی متصادم ہوں۔ امریکہ حسب سابق وقتاً فوقتاً پاکستان کو چارج شیٹ دیتا رہے گا تاکہ دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکہ کو جب پاکستان کی مدد کی ضرورت نہ رہے یا پاکستان جنگ میں مزید بری طرح پھنس چکا ہو تو اقتصادی پابندیاں لگا کر پاکستان کی معیشت کو بحرانی کیفیت سے دوچار کردیا جائے اور پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام کو خطرات کی زد میں لایا جائے۔
اس پس منظر میں یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی نام نہاد تحریک کو ہوا دینے کیلئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھے جانے کا شوشہ توبھارت چھوڑتا ہی رہا ہے لیکن اب کراچی کے موجودہ سیاسی حالات بنیاد بناکر مودی نے سندھ کا ذکر شر انگیزی کے طورپر کردیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا علیحدگی کی راہ پر گامزن ہے۔ مولانا نے29ستمبر 2016ء کو قومی اسمبلی میں کہا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں عوام کے حقوق سلب کرنے کے ضمن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پاکستان کے اہم سیاسی رہنمائوں اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کے حالیہ بیانات بھی پریشان کن ہیں جن کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر ملک میں اختلاف رائے موجود ہے۔ خدشہ ہے کہ اس صورت حال اور بیانات کو بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کرے گا۔
گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے بھارتی معیشت کی شرخ نمو اور معیشت کی کارکردگی پاکستان سے کہیں بہتر رہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ اسلام کے عظیم الشان نظام زکٰوۃ کی وجہ سے الحمدللہ پاکستان میں غربت بھارت سے کم ہے۔ 29جون 2005ء کو عالمی بینک کے نمائندے نے چین اور بھارت کی معاشی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے بھارت کو بھی ابھرتی ہوئی سپر پاور قرار دیا تھا۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوثے امریکی صدر اوباما نے چین اور بھارت کی معاشی ترقی کو حیات انگیز قرار دیا۔ بھارت دنیا کی 7ویں بڑی اور پاکستان 41ویں بڑی معیشت ہے۔ عالمی ماہرین اب اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیںکہ 2030 میں امریکہ اور چین کے بعد بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہوگا۔
موجودہ حکومت کے معاشی منتظمین یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ 2025میں پاکستان دنیا کی18ویںبڑی معیشت ہوگا لیکن عالمی ماہرین اس دعوے کو تسلیم نہیں کررہے۔ اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ جو ممالک بڑی معاشی قوت ہوں گے وہی سپر پاور بھی ہوں گے۔ خالق کائنات نے پاکستان کو زبردست انسانی و مادی وسائل عطا کئے ہیں ان سے کماحقہ فائدہ اٹھا کر پاکستان بڑی معاشی قوت بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
بھارت کی حالیہ جارحیت اور اشتعال انگیز کارروائیوں کے تناظر میں 3اکتوبر 2016کو اسلام آباد میں منعقدہ سیاسی و پارلیمانی پارٹیوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں قومی سلامتی اور کشمیر کے معاملات پر دنیا کو مثبت اور موثر پیغام دیا گیا ہے جو خوش ائند ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان خود انحصاری اور علم پر مبنی ایسی معاشی پالیسیاں اپنائے جن کے نتیجے میں ایسی تیز رفتار معاشی ترقی حاصل ہو جس کے ثمرات میں عوام بھی لازماً شریک ہوں۔ پاکستان کو اپنی سماجی، سیاسی، عسکری، داخلی اور خارجہ پالیسوں کو بھی زمینی حقائق کے مطابق ازسرنو وضع کرنا ہوگا۔ ہمیں وفاق و صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے ان اختلافات کو دور کرنا ہوگا جن سے قومی مفادات متاثر ہوتے ہیں یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا، دہشت گرد ی کی جنگ صرف اپنی حکمت عملی کے مطابق لڑنا ہوگی اور قومی مفادات کو اولیت دینا ہوگی۔


.
تازہ ترین